موسیقار ورما جی سے رحمان ورما تک
جب ورماجی شرماجی پہلی بار جی اے چشتی سے ملے تو ان دونوں دوستوں نے اپنے ناموں کا راز کھولا کہ وہ دراصل مسلمان ہیں
ISLAMABAD:
ہندوستان کی فلم انڈسٹری کا ایک دور وہ بھی تھا جب فلموں میں شہرت حاصل کرنے کے کچھ مسلمان فنکار اپنے اصلی ناموں کی بجائے ہندوانی نام رکھ لیتے تھے اور پھر اس طرح انھیں شہرت بھی خوب ملتی تھی اور ان کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں بھی دور ہوجاتی تھیں۔ ایسے کئی لیجنڈ فنکار جنھوں نے اپنے نام ہندوانی رکھے اور شہرت ان کا مقدر بنی، ان میں دلیپ کمار، جن کا اصل نام یوسف خان تھا، اسی طرح مینا کماری کا اصل نام مہ جبیں تھا اور انڈین فلم انڈسٹری کی حسین ساحرہ مدھوبالا کا اصلی نام ممتاز جہاں تھا، ان کے علاوہ بہت سے مسلمان فنکار تھے جو اپنے ہندو ناموں سے مشہور ہوئے تھے۔
یہ ایک طویل فہرست ہے۔ اب میں صرف ان دو موسیقاروں کی طرف آتا ہوں جو آپس میں گہرے دوست تھے، موسیقی ان کی زندگی تھی اور انھوں نے دہلی میں موسیقی کی تعلیم مشہور کلاسیکل سنگر پنڈت مارناتھ سے حاصل کی تھی۔ اور یہ نوجوان موسیقار تھے ورماجی اور شرماجی۔ پھر یہ کچھ عرصہ موسیقار حسن لال بھگت رام کی شاگردی میں بھی رہے، انھی دنوں ان دونوں کی ملاقات اداکارہ نرگس کی والدہ جدن بائی سے ہوئی۔ جدن بائی موسیقی کے ساتھ شعر و ادب کی بھی بڑی دلدادہ تھیں بلکہ ان کے گھر مشاعرے کی محفلیں بھی سجتی رہی تھیں، جن میں اس دور کے نامور فنکار بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ جدن بائی کا ایک فلمساز ادارہ بھی نرگس کمپنی کے نام سے تھا۔ جدن بائی نے ایک فلم رومیو جولیٹ کے نام سے بنائی تھی، موسیقار پنڈت امرناتھ تھے اور ورماجی شرماجی ان کے اسسٹنٹ میوزک ڈائریکٹر تھے۔
شرماجی نے اس دور کی مشہور گلوکارہ صفرا بائی انبالے والی کے ساتھ ایک ڈوئیٹ بھی گایا تھا۔ شرماجی بڑے سریلے تھے اور بہت اچھا گاتے تھے، اسی دوران اس دور کی مشہور ہیروئن ممتاز شائستی کے مسلمان شوہر ولی صاحب جو ہدایت کار بھی تھے اور مشہور شاعر ناظم پانی پتی کے بڑے بھائی تھے، انھوں نے ہیر رانجھا کے نام سے ایک فلم بنائی تھی جس میں ورماجی شرماجی کو موسیقار لیا تھا۔ اس فلم میں شرماجی نے ایک دوگانا گایا تھا، گلوکارہ گیتا رائے کے ساتھ، یہ وہی گیتا رائے تھی جو بعد میں گیتا دت بن کر بڑی مشہور ہوئی تھی۔ پھر اس موسیقار جوڑی نے اس دور کی ایک فلم بیوی میں موسیقی دی تھی، جس میں ان موسیقاروں نے اس زمانے کے ابھرتے ہوئے گلوکار محمد رفیع سے ایک گیت گوایا تھا جو بہت مشہور تھا اور جس کے بول تھے:
اکیلے ہیں وہ گھبراتے تو ہوںگے
مٹاکے مجھ کو پچھتاتے تو ہوںگے
ہماری یاد جب آتی تو ہوگی
اچانک وہ تڑپ جاتے تو ہوںگے
اور اسی فلم بیوی میں اس موسیقار جوڑی نے گلوکارہ آشا بھوسلے کی آواز میں ایک گیت ریکارڈ کیا تھا جس کے بول تھے:
میرے من کے آنگن میں اک چاند چمکا
آشا بھوسلے کا یہ ابتدائی سپر ہٹ گیت تھا۔ ورماجی شرماجی چار پانچ سال تک بمبئی کی فلم انڈسٹری میں رہے مگر پھر زیادہ چل نہ سکے اور مجبوراً بمبئی کی فلم انڈسٹری چھوڑ کر دونوں دوست لاہور آگئے، جب کہ ان کا آبائی گھر پاکستان والے پنجاب ہی میں تھا۔ لاہور میں ان کی پہلی ملاقات موسیقار غلام احمد چشتی سے ہوئی، جو فلموں میں جب آئے تو جی اے چشتی کے نام سے آئے۔ میری لاہور میں جب ان سے پہلی ملاقات ہوئی تھی تو وہ انتہائی ضعیف ہوچکے تھے، ان کی آنکھوں پر بڑے بڑے موٹے شیشوں والی عینک لگی تھی۔
جب موسیقار ورماجی شرماجی لاہور آئے تو موسیقار جی اے چشتی کے ساتھ بطور معاون وابستہ ہوگئے۔ جی اے چشتی ان دنوں لاہور میں مشہور میوزک کمپنی HMV میں بطور کمپوزر ملازم تھے، یہاں ان کا دفتر میکلوڈ روڈ پر تھا۔ جب ورماجی شرماجی پہلی بار جی اے چشتی سے ملے تو ان دونوں دوستوں نے اپنے ناموں کا راز کھولا کہ وہ دراصل مسلمان ہیں اور بمبئی میں ہندوانی ناموں کے ساتھ کئی فلموں میں موسیقی دیتے رہے ہیں۔ ورماجی کا اصل نام رحمان ورما تھا اور شرماجی کا اصل نام محمد ظہور خیام ہاشمی تھا۔ کئی سال تک جی اے چشتی کے معاون رہنے کے بعد رحمان ورما نے بحیثیت موسیقار لاہور فلم انڈسٹری میں اپنے کام کا آغاز کیا اور محمد ظہور خیام ہاشمی لاہور چھوڑ کر دوبارہ سے بمبئی چلے گئے اور وہاں وہ موسیقار خیام کے نام سے بمبئی کی فلم انڈسٹری پر چھاگئے تھے۔
میری بھی ایک یادگار ملاقات موسیقار خیام سے کراچی میں ہوئی تھی۔ ورماجی یعنی موسیقار رحمان ورما جب موسیقار جی اے چشتی سے علیحدہ ہوئے تھے، ان کی انگنت مشہور فلموں میں ان کے وہ اسسٹنٹ رہ چکے تھے اور موسیقی کا جو تجربہ انھیں حاصل ہوا تھا وہ ان کی شہرت کے سفر کا معاون بنا تھا۔ رحمان ورما نے موسیقار جی اے چشتی کی بہت سی اردو اور پنجابی فلموں میں ان کی معاونت کی تھی۔ وہ دور جی اے چشتی کا دور تھا۔
جی اے چشتی کا تعلق جالندھر سے تھا، ان کی ابتدا مشہور ڈراما نویس، ہدایت کار اور اداکار آغا حشر کی ڈرامہ کمپنی سے ہوئی تھی، جہاں وہ ڈراموں کے پیچھے موسیقی دیا کرتے تھے۔ پھر جب یہ آغا حشر کے ڈراموں سے دور ہوئے تو ہندوستان کے مشہور موسیقار استاد جھنڈے خاں کے شاگرد ہوگئے تھے۔ 1938 میں جب ہدایت کار ایل کے شوری نے اپنی پنجابی فلم سرہنی کمہارن بنائی تو اس میں پہلی بار جی اے چشتی کو موسیقار لیا تھا، اس فلم کی ہیروئن کا نام الماس بوبی تھا، اور فلم کے ہیرو اس وقت کے مشہور قوال بشیر خاں قوال تھے۔
جی اے چشتی نے بمبئی کے علاوہ کلکتہ کی فلم انڈسٹری میں بھی کچھ عرصہ کام کیا تھا، کلکتہ کی ایک فلم چمبے دی کلی کے گیتوں کو پسند کیا گیا تھا، پھر ہندوستان کا بٹوارہ ہوگیا اور جی اے چشتی بھی لاہور آگئے تھے۔ لاہور میں (عبدالرحمان) رحمان ورما، جی اے چشتی کے ساتھ کافی دنوں تک بطور معاون کام کرتے رہے۔
رحمان ورما نے اپنے استاد سے علیحدگی کے بعد لاہور کی کئی اردو اور پنجابی فلموں کے لیے موسیقی دی تھی، سب سے پہلی فلم رحمان ورما کی باغی تھی جس کے ہدایت کار اشفاق ملک تھے۔ باغی میں سدھیر کے ساتھ مسرت نذیر نے ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا۔ فلم باغی اپنے دور کی سپر ہٹ فلم تھی اور اس فلم کی کامیابی نے ہدایت کار اشفاق ملک کو مالی طور پر بھی بڑا فائدہ پہنچایا تھا اور اشفاق ملک نے کچھ عرصے بعد اے ایم فلم اسٹوڈیو کے نام سے اپنا ذاتی اسٹوڈیو تعمیر کرلیا تھا۔ فلم باغی کے کئی گیتوں کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی تھی۔
ہدایت کار اشفاق ملک کی فلم باغی موسیقار رحمان ورما کی پہلی سپر ہٹ فلم تھی، باغی کی ہیروئن اداکارہ مسرت نذیر تھی، جس نے فلمساز، ہدایت کار و مصنف شباب کیرانوی نے اپنی فلم ٹھنڈی سڑک میں متعارف کرایا تھا اور پہلی بار کسی فلم کا اسکرپٹ علی سفیان آفاقی نے لکھا تھا۔ فلم باغی کے بعد ہدایت کار خلیل قیصر کی ایکشن فلم آخری نشان کی موسیقی بڑی ہٹ ہوئی تھی اور پھر موسیقار رحمان ورما کے پاس فلموں کی قطار لگ گئی۔ اس دوران رحمان ورما کی کئی فلموں نے بڑا بزنس کیا تھا، جن میں کالا پانی، غدار، خاندان، بمبئی والا، نادرا الآصفہ، سن آف علی بابا، یاراں نال بہاراں اور فلم سردار کی موسیقی نے رحمان ورما کو بھی کامیاب ترین موسیقاروں کی صف میں لاکھڑا کیا تھا۔
اب میں رحمان ورما کے جوڑی دار شرماجی کی طرف آتا ہوں جن کا اصلی نام محمد ظہور خیام ہاشمی تھا، جو اپنے ساتھی ورما جی کو چھوڑ کر دوبارہ سے بمبئی چلے گئے تھے اور بمبئی میں نامور ہدایت کار ضیا سرحدی نے اپنی فلم فٹ پاتھ کے لیے موسیقار منتخب کرنے کے بعد کہا تھا کہ تم بہت ہی باصلاحیت موسیقار ہو اور مستقبل میں بڑی ترقی کروگے، بس تم اب اپنا نام صرف خیام رکھو اور تمہارا یہی مختصر نام تمہیں بلندی عطا کرے گا اور اس طرح محمد ظہور خیام ہاشمی اب موسیقار خیام بن چکے تھے۔