جھیل ِ بیکال ایک قدرتی عجوبہ جو تباہی اور انجام سے دوچار ہے
جھیل بیکال اپنے قدرتی اور ارضی خواص کی وجہ سے انقلابی سائنس میں یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں بھی جگہ بناچکی ہے۔
ہمارے عالمی سائنس دانوں کو اس طرف فوری اور بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ فوٹو : فائل
روس کے علاقے سائبیریا میں واقع جھیل بیکال بین الاقوامی سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ جھیل دنیا کا ایک قدرتی عجوبہ ہے، مگر عالمی ماہرین کے خیال میں یہ اس وقت ایک بہت بڑے سانحے کا شکار ہوچکی ہے اور اس کا جو حشر ہورہا ہے، اندیشہ ہے کہ کہیں یہ جلد ہی اپنی موت آپ نہ مر جائے۔
جھیل بیکال، روس کے علاقے سائبیریا میں واقع ہے اور اسے پوری دنیا میں ایک قدرتی عجوبے کی حیثیت حاصل ہے۔ اسے ارتقائی سائنس میں exceptional value یا غیرمعمولی اہمیت و حیثیت حاصل ہے۔ لیکن گذشتہ کئی برسوں سے یہ جھیل مسلسل ایسے قدرتی اور فطری مسائل کا شکار ہوچکی ہے کہ جن کی وجہ سے یہ متواتر تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس کے نتیجے میں یہ اپنی موت آپ مرسکتی ہے۔ جھیل بیکال اپنے قدرتی اور ارضی خواص کی وجہ سے انقلابی سائنس میں یونیسکو کی ورلڈ ہیریٹیج سائٹ میں بھی جگہ بناچکی ہے۔
اس کی سب سے اہم اور بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس انوکھی اور ناقابل یقین جھیل میں دنیا کے غیرمنجمد تازہ پانی کا one-fifth ذخیرہ موجود ہے۔ یہ جھیل مختلف النوع اور مختلف اقسام کے پودوں اور آبی جانوروں کا گھر بھی ہے جس میں 3,600 سے زیادہ پودوں اور جانوروں کی مختلف النوع اقسام بھی پائی جاتی ہیں اور یہ سبھی اقسام خاص طور سے اس جھیل سے بہت اہم اور قریبی تعلق رکھتی ہیں، مگر اب یہ جھیل جس طرح کی مشکلات کا شکار ہے، ان کی وجہ سے اس جھیل میں رہنے اور پائے جانے والے آبی جانور اور پودے بھی تباہ ہوسکتے ہیں، بلکہ ان میں سے بیش تر تو تباہ ہو بھی چکے ہیں۔
یہ جھیل آہستہ آہستہ اپنی قدرتی تباہی کی طرف جس انداز سے بڑھ رہی ہے اور یہ تباہ کن واقعات جس تسلسل کے ساتھ پیش آرہے ہیں، انہوں نے سائنس دانوں اور ماہرین کو بھی حیران و پریشان کردیا ہے، کیوں کہ وہ ابھی تک ان کے اسباب جاننے سے قاصر ہیں۔ اور یہ عجیب و غریب واقعات ماہرین کے لیے ابھی تک ایک راز ہی ہیں۔ یہ راز کب اور کیسے کھلے گا، اس کے بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ماہرین بھی اس ضمن میں اپنے ذہنوں میں اٹھنے والے سوالوں کے جوابات کا انتظار کررہے ہیں۔
جھیل بیکال کے ساتھ کیسے کیسے واقعات پیش آرہے ہیں، ان میں سے کچھ اس طرح ہیں: اس تاریخی جھیل کے پانی سے omul fish غائب ہونے لگی ہے جب کہ ماضی میں یہ مچھلی اس جھیل کا لازمی حصہ سمجھی جاتی تھی اور صدیوں سے اس جھیل میں رہتی چلی آرہی ہے۔ اس کے علاوہ اس پوری جھیل میں بدبودار putrid الجائی بھی بہت تیزی کے ساتھ پیدا ہونے لگی ہے اور اس کی مقدار میں مسلسل اضافہ بھی ہورہا ہے جس کی بو سے وہاں آنے والوں کا دماغ خراب ہوجاتا ہے اور آبی حیات بھی پریشان ہوجاتی ہے۔ اس سے جھیل کا قدرتی ماحول بھی تباہ ہورہا ہے۔
اس کے علاوہ اس جھیل میں موجود صدیوں پرانے اسفنج کی وجہ سے بھی اس جھیل کو اب تک خاصا نقصان پہنچ چکا ہے۔ یہ اسفنج 3.2 ملین ہیکٹر یا 7.9 ملین ایکڑ کے وسیع و عریض علاقے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ رشیئن فشریز ایجینسی کا کہنا ہے کہ یہاں کی حکومت نے اس جھیل کو بچانے اور اسے تحفظ دینے کے لیے اکتوبر میں نہایت اہم اور لازمی اقدامات شروع کیے تھے جن میں پہلا قدم یہ تھا کہ حکومت نے omul مچھلی کی تجارتی پیمانے پر ماہی گیری پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔ واضح رہے کہ omul مچھلی، سالمن مچھلی کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے جو صرف جھیل بیکال میں ہی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ماہرین اس اندیشے کا اظہار بھی کررہے ہیں کہ کہیں اس کے ایسے غیرمتغیر نتائج سامنے نہ آجائیں جن سے جھیل ہر حال میں تباہ ہوجائے۔ جھیل بیکال میں omul مچھلی کی مجموعی حیوی کمیت یا ٹوٹل بایوماس پندرہ برس پہلے کے مقابلے میں نصف سے بھی زیادہ کم ہوگیا ہے۔ پندرہ سال پہلے یہ 25ملین ٹن سے بھی زیادہ تھی جو اب کم ہوکر صرف 10ملین ٹن تک رہ گئی ہے۔
ماہی گیری کا ایک مقامی ماہر حیاتیات Anatoly Mamontovکا کہنا ہے کہ اس مچھلی کی پیداوار میں اتنی زیادہ کمی کا سب سے بڑا سبب اس نایاب مچھلی کا بے دردی سے شکار ہے جس پر کوشش کے باوجود قابو نہیں پایا جاسکا ہے اور اس ضمن میں کی جانے والی تمام کوششیں بے سود ثابت ہورہی ہیں۔ یہ سبب تو اپنی جگہ ہے اور اس کے علاوہ آب و ہوا کا اضافی دباؤ بھی اس میں متحرک کردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ جھیل بیکال کے تازہ پانی کے ذخیرے کا تعلق آب و ہوا کی تبدیلی سے بھی جوڑا جاتا ہے۔
اب صورت حال اس حد تک بدل چکی ہے کہ اس میں پانی کی اچھی خاصی کمی پیدا ہوگئی ہے، دریاؤں میں پانی کم ہوتا جارہا ہے اور دریا اتھلے دکھائی دے رہے ہیں، پھر اس جھیل کے پانی میں سے غذائی اور معدنی اجزا بھی کم ہوگئے ہیں۔ اگر توجہ سے دیکھا جائے تو جھیل بیکال اس حد تک بدل چکی ہے کہ اس کے پانی کی سطح گرم ہونے لگی ہے اورomul مچھلی گرم پانی کو بالکل پسند نہیں کرتی جس کی وجہ سے وہ کرۂ ارض سے مٹ بھی سکتی ہے۔
گذشہ ماہ یونیسکو کے ماہرین حیاتیات نے یہ بات بہ طور خاص نوٹ کی کہ جھیل بیکال کا ایکو سسٹم بھی تباہی سے دوچار ہورہا ہے اور اس جھیل کو شدید قسم کے خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ اس ضمن میں ماہرین حیاتیات نے یہ مشاہدہ بھی کیا کہ جھیل میں مچھلی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ واضح رہے کہ جھیل بیکال میں پائی جانے والی omulمچھلی ایک زمانے میں یہاں کی مشہور و معرف specialityسمجھی جاتی تھی اور یہی مچھلی یہاں کی خورا ک کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ تھی۔ اس omul مچھلی کو یا تو نمکین کرکے یا smoked حالت میں کھایا جاتا تھا اور سب سے بڑھ کر اہم بات یہ تھی کہ اس خطے میں مچھلی کی کوئی فارمنگ نہیں کی جاتی تھی۔ چناں چہ اس پر بھی توجہ دی گئی اور اہم اقدامات بھی اٹھائے گئے۔
اس جھیل کے ایکو سسٹم کے ساتھ پیش آنے والا دوسرا اہم اور بڑا مسئلہ الجائی کا بے تحاشا پھیلاؤ ہے جس کا ذکر ہم نے اوپر بھی کیا ہے۔ اس کاہی کی موٹی اور دبیز تہوں نے کمبلوں کی طرح اس پوری جھیل کو کچھ اس طرح ڈھک لیا ہے کہ جس کی وجہ سے جھیل کا پانی تک دکھائی نہیں دیتا اور پوری سطح پر ہر طرف یہی الجائی بچھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ پھر الجائی کی ان دبیز چادروں نے اس جھیل کے ریتلے ساحل بھی ڈھک لیے ہیں۔ اس کیفیت کے حوالے سے بعض سائنس داں یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ یہ جھیل کچھ عرصے بعد انسانی آلودگی کو جذب کرنے کے قابل نہیں رہے گی جس کے سنگین نتائج بھی نکل سکتے ہیں۔
رشیئن اکیڈمی آف سائنسز کے ماہرطبیعیات Oleg Timoshkinکا کہنا ہے:''میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ شہروں سے جب استعمال شدہ پانی اس کے نکاسی آب کے سسٹمز سے بغیر کسی مناسب منصوبہ بندی کے باہر نکلتا ہے اور یہ جب بہ طور خاص اپنے ساتھ فاسفیٹ کے اجزا بھی لے جاتا ہے تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔ پندرہ برس پہلے اس جھیل کے کچھ دیہات میں ایک دن میں صرف دو گھنٹے بجلی آتی تھی، لیکن اب چوں کہ توانائی کے ذرائع تک رسائی آسان ہوچکی ہے، اس لیے پانی اور بجلی دونوں کا استعمال بڑھ چکا ہے۔
اب ہر معمولی گھر میں بھی واشنگ مشین موجود ہے اور کام کرتی دکھائی دیتی ہے۔ بلاشبہہ اس جھیل کی گہرائی 1,700 میٹر یعنی 5,580فیٹ ہے، اس کا ٹورزم اب یہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار کے دیگر ذرائع بھی فراہم کررہا ہے اور انہوں نے ماہی گیری کے علاوہ دیگر کام بھی شروع کردیے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیرملکی سیاح اکثر و بیش تر جھیل بیکال پر وقت گزارتے ہیں اور اس جھیل کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہی یہاں آتے ہیں، جس کے لیے وہ Trans-Siberian Railway کا سفر بھی کرتے ہیں۔ اور حالیہ برسوں میں تو ویزا کی سہولت فراہم ہونے کے بعد متعدد چینی افراد بھی بڑے ذوق و شوق سے اس خطے کا دورہ کرنے لگے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی اس خطے کو بہت پسند کرتے ہیں، انہیں یہاں کے ہائیکنگ ٹریلز بھی پسند ہیں اور یہاں کی کیمپنگ سائٹس کے تو وہ دیوانے ہیں، ان سبھی حضرات کو یہاں کے قدرتی مناظر بہت ہی پسند ہیں جو انہیں کھینچ کھینچ کر جھیل بیکال پر لاتے ہیں۔''
Timoshkin نامی اس ماہر نے بیکال کی لمبائی میں جاکر یہاں Spirogyra prevalence کی ٹیسٹنگ بھی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہاں کے تین اہم علاقے خاصی مشکل میں ہیں اور یہ سب سے زیادہ آلودہ ہیں۔
اس جھیل کی تہہ کا علاقہ اب کہیں سے بھی یہ ظاہر نہیں کرتا کہ یہ ماضی کی وہی شان دار جھیل بیکال ہے جسے دیکھنے اور جس کے مناظر سے لطف اندوز ہونے کے لیے کسی زمانے میں دنیا بھر کے سیاح یہاں کا رخ کرتے تھے، آج یہ جھیل بالکل بدل چکی ہے۔ یہاں پیدا ہونے والی الجائی آکسیجن پسند کرنے والے گھونگوں، خول دار جانوروں اور سیپیوں کو یہاں سے بے دخل کررہی ہے جن کی عدم موجودگی سے بھی مختلف النوع مسائل جنم لے رہے ہیں۔
Timoshkin مزید بتاتے ہیں کہ پندرہ برس پہلے یہاں اسفنج کے جو زیر آب جنگل تھے، وہ اب ختم ہوچکے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ آج وہ جنگل مکمل طور پر ناپید ہوچکے ہیں۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ کسی زمانے میں بیکال کے کنارے کے ساتھ ساتھ 170اقسام کے اسفنج پائے جاتے تھے جن میں سے اب صرف 11فی صد صحت مند دکھائی دے رہے ہیں، باقی نظر ہی نہیں آرہے۔ اگر ہم کبھی کسی مردہ اسفنج کو سطح آب پر لے آئیں تو اس میں سے کسی لاش جیسی بدبو اٹھتی محسوس ہوتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر جھیل بیکال میں آلود پانی کو ڈالنے کا سلسلہ نہ روکا گیا تو بہت بڑا قدرتی یا ماحولیاتی نقصان ہوسکتا ہے۔ ہمیں روس میں بہترین سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے ہوں گے اور فاسفیٹ کی حامل اشیا پر بھی پابندی لگانی ہوگی۔''
واضح رہے کہ روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے اگست میں اس جھیل کا دورہ کرنے کے بعد یہ شکایت کی تھی کہ جھیل بیکال آلودگی کی وجہ سے برباد ہورہی ہے، انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر اس جھیل کو بچانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی۔ روس میں 1999 کا ایک خصوصی قانون جھیل بیکال کے تحفظ کے لیے اقدامات کی وضاحت کرتا ہے۔
حکومت اس حفاظتی اور صفائی کی مہم کے لیے 26 ارب روبل کے فنڈز مختص کررہی ہے، تاکہ جھیل کی صفائی کا کام ترجیحی بنیادوں پر شروع کیا جاسکے۔ یہ پروگرام تو 2012میں شروع کیا جاچکا ہے، مگر مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ابھی تک کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے بلکہ فنڈز ہی ضائع کیے گئے ہیں۔ مقامی میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ جھیل بیکال کے ایک کنارے پر واقع Babushkin نامی شہر میں ایک بالکل جدید قسم کا ٹریٹمنٹ پلانٹ لگایا گیا تھا جس پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے گئے تھے، مگر اس جھیل کے پانی کی صفائی کے لیے جن بیکٹریاز کی ضرورت تھی، وہ سائبیریا کی سردی میں کام نہ کرسکے اور یوں یہ کوشش بھی رائیگاں گئی۔
ایک مقامی سائنس داں نے یہ بھی بتایا کہ جہاں تک سائنسی فنڈنگ کا تعلق ہے تو یہ بہت ہی کم ہے، اور جہاں تک جھیل بیکال پر کیے جانے والے مطالعاتی پروگراموں کا تعلق ہے تو یہ خاصا اہم اور قابل توجہ کام ہے۔ کیا ہم کرائسس کے دنوں میں بھی فنڈنگ میں کنجوسی کریں گے اور کیا اس کے بعد متوقع نتائج حاصل کرنے پر شکوہ کریں گے؟
غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم اس قدرتی جھیل کی تباہی کو کھلی آنکھوں سے دیکھتے رہیں گے اور دنیا کی اس سب سے گہری جھیل کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کریں گے جس میں کرۂ ارض کے غیرمنجمد تازہ پانی کا one-fifth ذخیرہ موجود ہے؟ ہمارے عالمی سائنس دانوں کو اس طرف فوری اور بھرپور توجہ دینی ہوگی۔ یہ کسی ایک ملک یا کسی ایک قوم کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ تو پوری عالمی برادری کا مسئلہ ہے اور ہم سب کو مل جل کر اس ضمن میں ترجیحی بنیادوں پر ہنگامی اقدامات کرنے ہوں گے اور اپنی دنیا کے تازہ پانی کے اس بہت بڑے ذخیرے کو تباہ ہونے سے بچانا ہوگا۔