کراچی میں اربوں روپے مالیت کی اراضی کا نیا اسکینڈل سامنے آگیا

بااثر افراد نے جعلی کاغذات پر زمین ہتھیا کر اراضی پر قبضہ کرلیا، نیب نے تحقیقات شروع کردی


عبدالرزاق ابڑو December 09, 2017
کراچی ایئرپورٹ کے قریب مذکورہ زمین780 روپے گز سے فروخت ہوئی،سرکاری افسران ملوث ہیں۔ فوٹو: فائل

اربوں روپے مالیت کی اراضی کا نیا اسکینڈل سامنے آگیا ہے جب کہ بااثر افراد نے سرکاری افسران کی ملی بھگت سے مبینہ طور پر جعلی کاغذات کے ذریعے زمین ہتھیا کر اراضی پر قبضہ کرلیا ہے۔

اربوں روپے مالیت کی یہ زمین کراچی ایئرپورٹ کے سامنے واقع ہے، اس کیس پر کارروائی امان اللہ کھوسو نامی ایک شخص کی درخواست پر شروع کی گئی ہے جب کہ امان اللہ کھوسو کو گزشتہ بدھ کو نیب کراچی میں دوبارہ طلب کرکے مذکورہ کیس سے متعلق درکار مزید تفصیلات حاصل کی گئی ہیں ، نیب نے مذکورہ زمین کی غیر قانونی فروخت سے متعلق درخواست 15 نومبر کو وصول کرنے کے بعد کارروائی شروع کی ہے ۔

امان اللہ کھوسو کے مطابق انھوں نے تمام ضروری دستاویزات و شواہد نیب کے حوالے کیے ہیں، اپنی درخواست میں انھوں نے نیب کو آگاہ کیا ہے کہ لینڈ مافیا نے بورڈ آف ریونیو کے متعلقہ افسران کے ساتھ مل کر جعلسازی کے ذریعے مذکورہ زمین کو سرکاری رکارڈ میں ایک دیہہ سے دوسری دیہہ میں منتقل کرایا اور اس کے بعد اسے غیرقانونی طور پر فروخت کردیا، اپنی درخواست میں انھوں نے ایڈلجی ڈنشا نامی ایک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی اور ایک پرائیویٹ ہولڈنگ کمپنی کے مابین31 ایکڑ 35 گھنٹہ زمین کے سودے کا ذکر کیا ہے جو7 مئی 2004 کو کیا گیا۔

واضح رہے کہ یہ زمین دیہہ سفوراں کے سروے نمبرز 106، 152، 153، 154، 155، 157، 160، 183 اور 192 پر مشتمل ہے جب کہ دستاویزات کے مطابق مذکورہ زمین 780 روپے فی گزکے حساب سے فروخت کی گئی۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں لکھا ہے کہ جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے سامنے موجود زمین کا مذکورہ ریٹ پر فروخت ہونا سمجھ سے بالاتر ہے، زمین کی فروخت کے وقت سرکاری ریٹ 1605 روپے فی ایکڑ تھا، جبکہ مارکیٹ ریٹ 20 ہزار روپے فی ایکڑ تھا۔

امان اللہ کھوسو کے مطابق جس زمین کا سودا کیا گیا وہ زمین سرکاری اور خانگی زمین تھی، فروخت کی گئی زمین میں سروے نمبر157 اور 160 سرکاری زمین تھی جبکہ سروے نمبر 152، 153 اور 154 کی زمین خانگی لوگوں کی تھی۔ 1909 کے دیہہ سفوراں کے فارم 7 کے مطابق مذکورہ سروے نمبرز کی زمین ناتھو ولد حسین کھوسو، احمد ولد شاہ علی کھوسو، عبداللہ ولد خیرو کھوسو کی تھی جسے جعلی کاغذات کے ذریعے حاصل کرکے فروخت کردیا گیا۔

اپنی درخواست کے ساتھ امان اللہ کھوسو نے مذکورہ زمین سے متعلق متعدد دستاویزات بھی منسلک کی ہیں جن میں زمین کی فروخت کے کاغذات، 1909 میں مقامی کھوسو برادری کے لوگوں کے نام جاری کیا گیا فارم 7، ایڈلجی ڈنشا پرائیویٹ لمیٹڈ کے لیٹر ہیڈ پر کمپنی سیکریٹری کی جانب سے 8 نومبر 1999 کو مختیارکار شرقی کو لکھے گئے خط کی کاپی، 26 فروری 2005 کو مختیارکار گلشن اقبال ٹاؤن کی جانب سے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ڈسٹرکٹ آفیسر ریونیو کو جاری کردہ لیٹر اور دیگر دستاویزات شامل ہیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں