معذوری میں ناموری
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے معذور افراد گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں.
کچھ روز قبل ایک کراسنگ پر ٹریفک رکی تو بھکاریوں نے کاروں پر حسب معمول یلغار کردی، ان ہی میں اس صحت مند ہٹے کٹے نوجوان کو دیکھا جس کی گردن کو دونوں ٹانگوں کی قینچی مارے کندھے پر سوار معذور بچہ تھا جو کوئی چیز کھارہا تھا۔ میں ان دو کو گزشتہ آٹھ دس سال سے شہر کی کسی نہ کسی معروف سڑک کی کراسنگ پر دیکھ رہا ہوں۔ خود اپنی عمر میں اضافے کے ساتھ ان دونوں بھکاریوں کو بھی جوان ہوتے دیکھا ہے، کئی بار انھیں بھیک دی ہے اور چند ایک بار کثرتی جسم و جان والے نوجوان کی سرزنش بھی کی ہے۔ ایک دو بار بچے سے بھی بات کی جو ذہنی طور پر صحت مند ہے۔
کنٹونمنٹ اور ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کو چھوڑ کر سویلین کنٹرول کے ہر علاقے کے بازاروں، سڑکوں اور آبادیوں میں گداگروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے اور کئی علاقوں میں تو گداگروں نے پارکوں، فٹ پاتھوں اور گلیوں میں مستقل رہائش اختیار کررکھی ہے جو آپس میں ملنے پر ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے رہائشی علاقوں کا موازنہ اور مقابلہ بھی کرتے ہوں گے اور عین ممکن ہے قبضوں اور علاقوں کی سیل پرچیز بھی ہوتی ہو۔
ہمارے ہر شہر میں گداگر پائے جاتے ہیں۔ اکثریت جسمانی لحاظ سے نارمل ہوتے جب کہ بہت کم ایسے ہوں گے جو معذور نظر آتے ہیں۔ تحقیق بتاتی ہے کہ کچھ پیدائشی، کچھ بوجہ حادثہ اور کئی لوگ بھکاری بنانے کے لیے معذور کردیے گئے ہوتے ہیں۔
میڈیکل سائنس کے مطابق اگر کوئی بچہ معذور ہو تو قدرت اسے کئی ایسی قوتیں اور خوبیاں عطا کردیتی ہے جو ان جیسے صحت مند بچوں میں بھی نہیں پائی جاتیں۔ یہ بات یوں کھل سکتی ہے کہ اس معذور کا کوئی قریبی عزیز اس کی مخفی صلاحیت کو پہچان لے یا وہ معذور خود اسے دریافت کرلے۔ لوگوں نے اپنے اردگرد یا ٹیلیوژن اور فلموں میں ایسے معذوروں کو دیکھا ہے جو وہ کام کرگزرتے ہیں جنھیں مکمل صحت مند لوگ بھی نہ کرسکیں۔
ہمارے ملک کے ہر کونے میں صدقہ و خیرات کرنے والے بے شمار ہیں اور مختلف معذوریوں میں مبتلا افراد کی دیکھ بھال اور مدد کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں۔ ان NGOS کو عالمی اور مقامی اداروں اور مخیر افراد کی طرف سے امداد بھی ملتی ہے لیکن اس کے باوجود بے شمار معذور افراد کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے، ہنر سکھانے اور معذوری کی آزمائش سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار کرنے کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک کل وقتی اور تن من دھن لگا دینے والی ایکسرسائز ہے۔ ظاہر ہے کوئی اس طرف توجہ دے گا تو اسے اپنی زندگی اسی کارخیر کے لیے وقف کردینا پڑے گی جب کہ کار جہاں بے حد دراز ہے۔
کئی لوگ جو آسودہ حال ہونے کے علاوہ کسی معذور بچے کے والدین ہوتے ہیں، محدود پیمانے پر اپنے بچے کے علاوہ دوسروں کے معذور بچوں کو شامل کرکے ان سب کو کھلانے پلانے تفریح مہیا کرنے اور سکھانے پڑھانے کا کام کرتے دیکھے گئے ہیں جو مجبوری کا فعل ہے لیکن بہرحال قابل ستائش ہے۔
ایک تکلیف دہ حقیقت کا اعتراف کرلینے میں کوئی ہرج نہیں کہ بہت سے درندہ صفت اور ظالم انسان بھی موجود ہیں جو دوسروں ہی کے نہیں اپنے بھی کسی حد تک معذور بچوں اور افراد کو مزید معذور کرکے انھیں اپنی کمائی کا ذریعہ بنالیتے ہیں اور ایسے مافیا تو موجود ہیں جن کی کھوج دریافت اور تدارک پر توجہ نہیں دی گئی۔ معذوروں کی کمائی کھانے والے ایک تنظیم کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔
ڈیوٹیوں کے مقام تبدیل کرتے معذوروں کو پک اینڈ ڈراپ کرتے بلکہ ان کی سیل پرچیز بھی کرتے ہیں۔ معذوروں کو مفید بنایا اور زیور علم و ہنر سے آراستہ کیا جاسکتا۔ یہاں تک کہ ان کی زندگی میں خوشیوں کو داخل کرنا بھی ممکن ہے لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ملک کے حکمرانوں کا ایجنڈہ عوام کی بہتری اور خدمت ہو نہ کہ حکمرانی کی باریاں لینا جیسا کہ ایک عرصہ سے بھٹو صاحب کے نام پر شریفوں کی شکل میں اور چوہدریوں کے حوالے سے دیکھا اور کہا جارہا ہے۔
ہمارے ملک میں ایسے بہت سے معذور افراد گمنامی کی زندگی گزار رہے ہیں جو کسی نہ کسی ہنر میں اپنی مثال آپ ہیں اور نہ صرف روزگار میں مصروف رہتے ہیں بلکہ خوش رہتے اور بہت سے لوگوں کے لیے تقلید یعنی Inspiration کا ذریعہ ہیں۔ فی الحال دنیا کے متعدد Celibrities میں سے چند ایک کا ذکر ہوجائے جو کسی نہ کسی معذور کا شکار تھے۔
انقرہ ترکی کا ساٹھ سالہ آرٹسٹ ESREF پیدائشی اندھا ہے۔ اس نے روشنی نہیں دیکھی وہ بچپن سے پینٹنگز بناتا آرہا ہے وہ کسی منظر کی طرف رخ کرکے کھڑا ہوجاتا ہے۔ کسی عمارت یا مجسمے کو انگلیوں سے چھوتا ہے۔ کسی کے چہرے کو انگلیوں سے ٹٹولتا ہے اور پھر برش یا قلم پکڑ کر کاغذ پر رنگوں کی مدد لے کر منظر عمارت یا جسم میں جان ڈال دیتا ہے۔ ڈاکٹروں، سائنس دانوں نے اس کے دماغ کے Scan کیے ہیں، قدرت کا راز نہیں پاسکے، بیتھاون جس کا تعلق وی آنا سے تھا دنیا کا نامور موسیقار اور Pianist تھا وہ بہرے پن کا شکار ہوگیا لیکن اس جیسا پیانو بجانے والا دوسرا پیدا نہیں ہوا۔
وان گوگ ڈچ پینٹر گزرا ہے، اس کی بنائی ہوئی پینٹگز آج بھی لاجواب کہی جاتی ہیں، اس کی ایک پینٹنگ 82.5 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی تھی۔ وہ شدید ڈیپریشن کا مریض تھا جو 37 سال کی عمر میں اپنے سینے میں پستول کی گولی مار کر مرگیا۔ ''مارلا'' نامی لڑکی 9 سال کی عمر میں بینائی سے محروم ہوگئی، وہ امریکی کمسن لڑکی اتھلیٹ بن گئی، تین بار پانچ ہزار میٹر دوڑ میں چیمپئن بنی اس نے چار گولڈ میڈل حاصل کیے۔ سندھا چندرن انڈیا کی ایم اے اکنامکس پڑھی لڑکی ایکسی ڈنٹ میں ایک ٹانگ سے محروم ہوگئی، مصنوعی ٹانگ لگوا کر ڈانس کرتی رہی، اتنی ماہر ہوگئی کہ بہترین ڈانسر کا ایوارڈ بھی جیتی۔
اوپر درج کی گئی مثالیں ہزاروں میں صرف چند ہیں جب کہ دنیا کے بہت سے ممالک میں جن میں پاکستان بھی شامل ہے، ایسے معذور افراد موجود ہیں جن کی ایک یا دو صلاحیتیں ایسی بھی ہوں گی جو مکمل صحت مندوں سے بھی دو چند ہوسکتی ہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ یا ان کا جوہر قابل کھل نہیں سکا، یا اسے ظاہر نہیں ہونے دیا گیا۔