یروشلم ۔ یروشلم
فلسطینی شاعروں کی نظمیں ایک طرح سے میدان جنگ میں لکھی گئیں اور ان کا براہ راست تجربہ تھیں۔
''آفتاب جون کی نذر ۔ ایک نوحہ'' کا شمار تحریک آزادی فلسطین کے حوالے سے لکھی گئی ان اولین اور نمائندہ نظموں میں ہوتا ہے جو ایک مخصوص تاریخی اور واقعاتی پس منظر کے ساتھ ساتھ اس شدید غم اور بھرپور مزاحمت کی بھی آئینہ دار ہیں جس نے گزشتہ نصف صدی سے لاکھوں فلسطینیوں کو بے گھری اور بے توقیری کے عذاب میں مبتلا کررکھا ہے۔
عبدالوہاب ابسیاتی کی اس نظم ''بکائتہ الیٰ شمس حزیران'' میں جون 1967ء میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی شکست، تباہی، بے وطنی اور اپنی ہی زمین پر ذلت، بے توقیری اور بے اختیاری کے ساتھ زندہ رہنے کی جس اذیت کی تصویر کشی کی گئی ہے اس پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے لیکن عالمی سیاست میں یہودی لابی کی طاقت، عرب اور دیگر مسلمان ممالک کی کمزوری اور نااتفاقی اور ضمیر عالم کی عمومی بے حسی، خود غرضی اور خاموشی کی وجہ سے اب یہ معاملہ تقریباً دب سا گیا تھا اور مختلف اوقات میں بیشتر فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی افواج کے قبضے اور کنٹرول کو مختلف معاہدوں اور پابندیوں کی وجہ سے ایسا استحکام حاصل ہوچلا تھا کہ اب چند مخصوص علاقوں اور کچھ چھوٹے چھوٹے مزاحمتی گروپس کی اکا دکا کارروائیوں سے قطع نظر اسرائیل کا دارالخلافہ تل ابیب ہی وہاں کی سب سے بڑی اور مؤثر حقیقت تھا۔
1995ء کے ایک فیصلے کے تحت اگرچہ امریکی کانگرس نے یروشلم (بیت المقدس) کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے دیا تھا لیکن تینوں بڑے آسمانی مذاہب یعنی اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے ساتھ اس شہر کے تاریخی، جذباتی، نفسیاتی اور روحانی رشتوں کے پیش نظر بوجوہ اس کے اعلان کو چھ ماہ تک مؤخر کرنے کا اختیار امریکی صدر کو دے دیا گیا تھا اور یوں گزشتہ 22 برس سے تمام امریکی صدر اپنے اس حق کو خاموشی سے استعمال کرتے چلے آرہے تھے لیکن بالآخر گزشتہ روز ٹرمپ کے ذریعے یہ ٹرمپ کارڈ بھی کھیل دیا گیا ہے، ایسا کیوں کیا گیا اور اس کے متوقع اثرات سے کیا کیا ہوسکتے ہی فی الوقت ساری دنیا اس کی ضرب جمع تفریق میں لگی ہوئی ہے۔ اس پر مزید بات کرنے سے پہلے آئیے پچاس برس قبل کے اس ردعمل کا جائزہ لیتے ہیں جس کا بیان شاعر نے کچھ اس طرح سے کیا تھا کہ؎
آہ اے جون کے آفتاب گراں
تو نے کیوں ہم کو دنیا کی ہر آنکھ پر یوں برہنہ کیا
کیوں سگان گرسنہ کی خاطر ہمیں
بے کفن سرد لاشوں میں رکھا گیا
ہمارا وطن ایک مصلوب ہے اور چاروں طرف
آبرو کی بکھرتی ہوئی راکھ ہے
جس قدر زخم ہیں چشم ایوب میں
دوستو ان پہ مرہم لگاؤ نہیں
اب مرا دکھ فقط انتظار مسلسل کا آشوب ہے
اس کو جھیلوں گا میں
اس کو جھیلوں گا میں اس چمک دار ساعت کے آنے تلک
جب لہو اپنے بدلے کی خاطر اٹھے
اے خدا اے غریبوں کے، محنت کشوں کے خدا
ہاں ہمارا لہو جنگ ہارا نہیں
اور اسی بات کو کمیونسٹ نظریات کے حامل روس متاثر شاعر سمیع القاسم نے اپنی ایک نظم ''وطن عربی کے نقشے پر خون کے چند چھینٹے، کے ایک حصے میں یوں بیان کیا ہے اور جسے میں نے ''نژاد نو'' کے ضمنی عنوان سے یوں اردو میں ڈھالا تھا کہ
''ایک دن ان لہو میں نہائے ہوئے
بازؤں میں نئے بال و پر آئیں گے
وقت کے ساتھ سب گھاؤ بھرجائیں گے
ان فضاؤں میں پھر اس پرندے کے نغمے بکھرجائیں گے
جو گرفت خزاں سے پرے رہ گیا
اور جاتے ہوئے سرخ پھولوں کے کانوں میں یہ کہہ گیا
ایک لمحہ ہو یا اک صدی دوستو
مجھ کو ٹوٹے ہوئے ان پروں کی قسم
اس چمن کی بہاریں میں لوٹاؤں گا
فاصلوں کی فصیلیں گراتا ہوا، میں ضرور آؤں گا''
یہ تو وہ خیالات تھے جو فلسطینی مزاحمتی تحریک، یاسر عرفات کی ''الفتح'' اور محمود درویش، نزار قبانی، فدویٰ طوقان، نازک الملائکہ، سمیع القاسم اور عبدالوہاب البیاتی جیسے شعلہ بیان شاعروں کی معرفت نہ صرف پوری دنیا میں پھیلے بلکہ کئی اور زبانوں کے شاعروں نے بھی حریت، مزاحمت، آزادی اور انسانی حقوق کے حوالے سے انھیں موضوع سخن بنایا۔ میری ایک نظم ''بیت المقدس کی ایک شام'' بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے (جس کو انگریزی میں موسیقار خواجہ خورشید انور کے بھتیجے اور داماد اور میرے عزیز دوست، شاعر اور مترجم خواجہ وقاص نے ترجمہ بھی کیا تھا۔
البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ فلسطینی شاعروں کی نظمیں ایک طرح سے میدان جنگ میں لکھی گئیں اور ان کا براہ راست تجربہ تھیں جب کہ یہ اور اس جیسی دیگر نظمیں قدرے فاصلے سے اور کیمپ ڈیوڈ سمجھوتے جیسے مراحل سے گزر کر اس مسئلے کو کچھ اور طرح سے بھی بیان کررہی تھیں جس کا کچھ اندازہ اس نظم کے آخری بند سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
میں اس شہر اقدس کے باہر کھڑا ہوں
کہ جس کی فصیلوں میں میرے لہو کے دیے جل رہے ہیں
ہوا تیز چلنے لگی ہے
سپاہی نے دروازے پر قفل ڈالا ہے
بندوق لہرا کے مجھ سے کہا ہے
''چلو، شام ہونے لگی ہے، چلو اپنی بستی میں جاؤ
کہ یہ شہر اقدس تمہارے لیے شہر ممنوع ہے''
اور میں سوچتا ہوں
در شہر اقدس کے باہر کھڑا میں یہی سوچتا ہوں
کہاں تک یہ ذلت کی اور غم کی آتش
مرے دل ہی دل میں سلگتی رہے گی!
گھنی شام کی یہ گھنیری اداسی
کہاں تک مرے ساتھ چلتی رہے گی
ٹرمپ کے اس اعلان اور دنیا بھر کے باضمیر انسانوں کے فوری اور طیب اردوان جیسے مسلمان برادری کے نمائندے کے جرأت مندانہ ردعمل نے عملی طور پر اس مسئلے کو ایک بار پھر سے زندہ کردیا ہے اور صورت حال کچھ کچھ اقبال کے اس شعر جیسی ہوگئی ہے کہ
گنبد نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
اور میرے نزدیک اس کا جواب بھی اقبال نے خود ہی یہ کہہ کر دے دیا ہے کہ
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہوجائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
کیا خبر ٹرمپ کے اس شر سے ہی کوئی خیر کا پہلو نکل آئے!!