’’سی پیک‘‘ کے مخالفین کو کیسے مات دی جاسکتی ہے
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے خواب اور منصوبے جتنے بڑے ہیں، ہمارے دشمن بھی اُتنے ہی بڑے ہیں۔
چین پاکستان اکنامک کوریڈور، جسے عرفِ عام میں ''سی پیک''(CPEC) کے نام سے یاد کیاجاتا ہے، میں چینی سرمایہ کاری ساٹھ ارب ڈالر کے ہندسے کو چھُورہی ہے۔ پاکستان کی پچھلی سات عشرہ کی تاریخ میں دنیا کے کسی ملک نے ہمارے ہاں اتنی بڑی سرمایہ کاری نہیں کی۔ گویا کہا جاسکتا ہے کہ چین نے پاکستان کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں پر پھیلی دوستی اور اعتماد کی بنیاد پر ''سی پیک'' کے نام سے پاکستان میں بیک وقت60 ارب ڈالر کا سرمایہ لگانے کا فیصلہ کیا؛ چنانچہ پاکستان کے نکتہ نظر سے اسے بجا طور پر صرف Game Changerہی نہیں بلکہFate Changerبھی کہا جارہا ہے۔
اور یہ بات کسی کو پسند آئے یا نہیں، لیکن یہ تاریخی واقعہ ہے کہ اِس عظیم منصوبے کا سہرا جناب نوازشریف کے سر بندھتا ہے۔ یقیناً اس میں جناب شہباز شریف کی بھی برابر کی توانائیاں صَرف ہُوئی ہیں۔جناب احسن اقبال کی بھاگ دوڑ بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ سیاسی حاسدین اور مخالفین کی طرف سے ''سی پیک'' کے پس منظر میں دونوں شریف برادران پر چند ایک الزامات بھی لگے ہیں لیکن اِس کے باوصف پاکستان کامیابیوں سے ہمکنار ہو کر رہے گا۔ انشاء اللہ۔
رابطہ کاری میں آسانیاں پیدا ہوں گی، توانائی کے میدان میں وطنِ عزیز کو جو سنگین مسائل درپیش ہیں اُن کا خاتمہ ہوگا اور ملک بھر کا انفرااسٹرکچر جدید خطوط پر استوار ہو سکے گا۔''سی پیک'' کے پیش منظر اور پس منظر میں ہمیں اچھے خواب دکھائے گئے ہیں۔ ہم سب ان خوابوں کی مثبت تعبیر کے منتظر ہیں۔ اطمینان بخش بات یہ ہے کہ ہماری عسکری اور سیاسی قیادتیںاس معاملے میں ایک پیج پر ہیں۔ متعلقہ فریقین ہاتھوں میں ہاتھ دے کر آگے بڑھنے اور طے شدہ وقت میں ایک مشترکہ منزل پر پہنچنے کی کوششیں کررہے ہیں۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے خواب اور منصوبے جتنے بڑے ہیں، ہمارے دشمن بھی اُتنے ہی بڑے اور منصوبہ ساز ہیں۔ ان دشمنوں میں پرائے تو شامل ہیں ہی، بدقسمتی سے چند ایک ''اپنے'' بھی ہیں۔ یہ مگر کوئی غیر حقیقی اور غیر فطری بات نہیں ہے۔ جہاں جہاں مالی مفادات ہوں گے، وہاں وہاں ایسے تصادم اور سازشیں جنم لیتی رہی ہیں اور آیندہ بھی جنم لیتی رہیں گی۔ ہمارا مگر خاص امتحان یہ ہے کہ ہم متحد اور متفق ہو کر ''سی پیک'' کے دشمنوں کو کیسے مات دے سکتے ہیں؟
معاندینِ پاکستان کی، سی پیک کے ریفرنس میں، پاکستان کے خلاف جھوٹ اور کذب پر مبنی بساط کو ہم مل کر کیسے اُلٹ سکتے ہیں؟ یعنی تُو خنجر آزما، ہم جگر آزمائیں۔یہ مقابلے کی دنیا ہے۔ کمزور پر کوئی ترس نہیں کھاتا۔ یہاں وہی زندہ رہتا ہے جس میں زندہ رہنے کی رمق باقی ہے اور جو اپنے اندر مخالف کے مقابل مزاحمت کی ہمت بھی رکھتا ہے: ''ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ ؍پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے۔'' لازم ہے کہ ہم اپنی انٹیلی جنس ایجنسیوں پر بھی یقین رکھیں۔قوی امید ہے کہ ہمارے خفیہ اداروں کے جملہ وابستگان بھی ''سی پیک'' کے مختلف النوع دشمنوں پر ایسی کڑی نگاہ رکھیں گے کہ قوم کو کسی مقام پر اُن سے شکوہ کرنے کا موقع نہ ملے۔
ہمارے اور''سی پیک'' کے دشمن بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ساٹھ ارب ڈالر کا یہ ترقیاتی منصوبہ کامیابی سے تمام منازل اور زینے طے کر گیا تو پاکستان ایک طاقتور علاقائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آئے گا؛ چنانچہ معاندینِ پاکستان کی کوششیں ہیں کہ ترقی کی جانب جاتے پاکستان کے راستے مسدود کر دیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ''سی پیک'' کے مخالفین میدان میں ہیں اور اپنے ہتھکنڈے آزما رہے ہیں۔ ان مخالفین کے چہرے اتنے عیاں اور جانے پہچانے ہیں کہ ہمیں ان کے نام بھی لینے کی ضرورت نہیں ہے۔انھی میں سے ایک نے چھاتی بجاتے ہُوئے اعلان کیا تھاکہ''ہم پاکستان کو دنیا کی قوموں میں اتنا تنہا کردیں گے کہ یہ سی پیک کی تکمیل کا خواب بھول جائے گا۔''
اتنا تکبّر!!ہمارے ان دشمنوں نے ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر محاذ کھولے ہیں۔ ایل اوسی کے اِس پار ہمارے سیکڑوںشہریوں کا خون کیا ہے۔ ہمارے سب سے بڑے صوبے، جہاں گوادرکے مقام پر ''سی پیک'' کو اختتام پذیر ہونا ہے، میں انارکی اور بدامنی پیدا کرنے کی منصوبہ بندیاں بروئے کار لائی گئی ہیں۔ ہمارے دشمنوں نے اس صوبے کے خلاف برطانیہ اور جنیوا میں اشتہارات اور بینروں کا سہارا لے کر غلط فہمیاں پھیلانے کی ناکام کوششیں کی ہیں۔
مقصد فقط یہی تھا کہ ''سی پیک'' کا تیزی سے آگے بڑھتا راستہ رُک جائے۔اِسی سلسلے میں ایک نئی شیطانی مہم بروئے کار ہے۔ پاکستان کے ایک سیاسی ادارے کا نام لے کر کہا جا رہا ہے کہ'' گوادر کی بندرگاہ سے ہونے والی آمدنی کا 91 فیصد حصہ اگلے چالیس برسوں تک چین کو ملتا رہے گا۔'' اس کے ساتھ ہی ہمارے میڈیا میں یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ ''چین نے گوادر میں چینی کرنسی رائج کرنے کے لیے پاکستان سے درخواست کی ہے۔'' اِسے مسترد کر دیا گیا۔
یہ بیہودہ خبر بھی زیر گردش ہے کہ ڈھائی کروڑ چینی شہری بلوچستان میں بسائے جانے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے۔ یا جیسا کہ 5 دسمبر2017ء کو ایک انگریزی معاصر نے یہ خبر شایع کی کہ ''چین نے سی پیک کے تحت بننے والی تین سڑکوں (کُل لمبائی 456کلومیٹر) کے فنڈز (ایک کھرب روپے) عارضی طور پر روک لیے ہیں۔'' آخر ان خبروں کو پھیلانے کا مقصد کیا ہے؟ یہ کون پھیلارہا ہے؟ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ چین کے خلاف اتنی بے بنیاد غلط فہمیاں پھیلا دی جائیں کہ ''سی پیک'' کے راستے میں پہاڑ کھڑے ہو جائیں۔
بِلاشبہ ''سی پیک'' کا راستہ دشواریوں اور کانٹوں بھرا ہے۔ قدم قدم پر آزمائش۔ ان کانٹوں کو کامیابی سے چُننے اور دشواریوں کو عبور کرنے میں ہی ہماری قومی کامیابی ہے۔ ''سی پیک'' کے راستے کی تعمیر میں اب تک ہمارے کئی سویلین اور فوجی جوان شہادتیں پا چکے ہیں۔ کسی کو ان کی صحیح تعداد کا علم نہیں ہے لیکن ایک محتاط انداز ے کے مطابق، دودرجن سے زائد ہو چکے ہیں۔ چین کو بھی ہماری ان شہادتوں کا بخوبی علم ہے کہ چین کے اپنے کئی شہری اور انجینئرزبھی اِسی راہ میں جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔دشمنوں کی توقعات مگر پوری نہیں ہو سکی ہیں کہ پاکستان اور چین اب بھی ہمقدم اور ہمنوا ہیں۔
ضرورت مگر اِس امر کی بھی ہے کہ پاکستان میں پندرہ ہزار سے زائد جو چینی کارکنان مختلف پراجیکٹس پر کام کررہے ہیں، اُن کے تحفظ کے لیے ''نیکٹا'' کو بھی بروئے کارآنا چاہیے۔ اِس کے علاوہ ''سی پیک'' کے تمام منصوبوں اور ان پر مامور چینی انجینئرز کی حفاظت کے لیے مبینہ طور پر سیکیورٹی فورسز کے جن خصوصی دستوں کی تعیناتی کا اعلان کیا جا چکاہے، انھیں بھی سامنے لایا جائے تاکہ دشمنانِ ''سی پیک'' کو بھی معلوم ہو سکے کہ اُن کی سازشوں کا کامیاب ہونا اتناآسان اور سہل نہیں ہے۔وہ ہزاروں چینی کارکنان جو ''سی پیک'' کے تحت پاکستان بھر میں کام کررہے ہیں، وہ ثقافتی اور اپنے لائف اسٹائل کی بنیاد پر پاکستانی عوام سے بالکل ہی الگ تھلگ ہیں۔
ان چینیوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے؛ چنانچہ پاکستانی عوام اور چینی کارکنان کے درمیان جو مختلف النوع ''خلیج'' حائل ہے،ہو سکتا ہے کہ پاکستانی اور چینی نوجوان وفود کے بکثرت باہمی تبادلے ہوں۔ ایک دوسرے کی چنیدہ فلموں کو سینماؤں میں دکھایا جائے۔ ہماری اور چینی لائبریریوں میں پاکستان اور چین کے جدید و کلاسیکل ادب پر مشتمل اچھی اچھی کتابیں رکھی جائیں تاکہ دونوں ممالک کے متعلقہ افراد ایک دوسرے کو بخوبی سمجھ سکیں ۔''پیمرا'' کو بھی آنکھیں کھلی رکھنی چاہیئں تاکہ الیکٹرانک میڈیا پر ''سی پیک'' کے خلاف کوئی بے بنیاد اور منفی بات نشر نہ ہو سکے۔ ایسا ہو جائے تو''سی پیک'' کے خلاف دشمنوں کا ہر ممکنہ راستہ روکا جاسکتا ہے۔