چونسٹھ بلین ڈالر اور بیس آدمی
تین دن قبل علی صالح کی تدفین ہوئی۔اس کے جنازہ میں صرف اورصرف بیس لوگ تھے۔
KARACHI:
بیت الحمر سینائی کاایک چھوٹاساقصبہ ہے۔کچے مکان،غربت۔ تعلیمی اورصحت کی سہولت سے بے نیاز یہ گاؤں،دراصل ادنیٰ کسانوں کی آماجگاہ ہے۔ستربرس سے ایک ہی ڈگرپرچلتا ہوا قصبہ۔ترقی سے کوسوں دور۔اس گاؤں میں علی عبداللہ صالح1942میں پیداہوا۔ ابھی بچہ ہی تھاکہ والدلقمہِ اَجل بن گیا۔والدہ نے بے بسی بلکہ بے کسی میں خاوندکے بھائی سے عقد ثانی کیا۔صالح کوسوتیلاباپ مل گیااورکافی حدتک ترقی کرنے کے مواقع بھی۔آگے جو کچھ ہوا،وہ ایک داستان طلسم ہوشرباہے۔یقین نہ آنے والی کہانی۔مگرسچی اورحقیقت پرمبنی۔
صالح فوج میں بھرتی ہوگیا۔1958کا زمانہ تھا۔ غربت میں پلنے والے نوجوان کوصرف ایک کام آتاتھا۔ ناجائزپیسہ کمانااورطاقت کے مرکزکے نزدیک رہنا۔صرف بیس برس کے قلیل عرصے میں صالح نے ہروہ حربہ استعمال کیاجواسے اہم سے اہم ترین کرسکتاتھا۔1978میں صالح یمن کاصدربن چکاتھا۔یہ عہدہ اسے پارلیمنٹ نے دیا تھا۔ وہ بیک وقت فوج کا سربراہ تھااورملک کاصدربھی۔یہ ایک ایسانظام ہے جوتیسری دنیاکے ہرملک کی قسمت میں کہیں نہ کہیں درج ہے۔ہمارے ملک میں یہ سب کچھ کئی بارہوچکا ہے۔
دانشورکہتے ہیں کہ اب دوبارہ نہیں ہوسکتا۔مگرہمارے ملک کاکمال یہ ہے کہ یہاں ہر ناجائزکام،انصاف،میرٹ اوراحتساب کی آڑمیں کیاجاسکتاہے۔کمال یہ بھی ہے کہ سیاسی پنڈت بھی اسی فارمولے سے اپنے سیاسی دشمنوں کو کچلتے ہیں جنھیں وہ پیارسے فوجی آمرانہ دورکی آلائش کہتے ہیں۔دراصل کھیل میںسب سے بڑا اُصول طاقت کے گھوڑے پرسواررہناہے۔اس میں کسی سیاسی،مذہبی،سماجی یااقتصادی فلسفے کاکوئی عمل دخل نہیں۔
علی عبداللہ صالح اقتدار کے رموز جوانی ہی میں سیکھ چکا تھا۔برسراقتدار آتے ہی اس نے ہروہ اقدام کیا جواس کی حکومت کودوام بخش سکتا تھا۔شک ہواکہ فوج میں چند افسر اسے ناپسندکرتے ہیں۔ نوجوان افسرچاہتے ہیں کہ ملک میں ایک منصفانہ نظام ہو۔مگر خاموشی سے نوجوان فوجی افسروں کو پیارسے بلایاگیا اور انھیںکسی مقدمہ کے بغیر پھانسی دیدی گئی۔نہ کوئی عدالت،نہ کوئی جج،نہ کوئی وکیل اور نہ کوئی کارروائی۔ ترکی کے صدراُردگان بھی علی عبداللہ صالح کی طرح کام کررہے ہیں۔
گولن تحریک کے شبہہ میں ہر مخالف آوازکو دبا دیاگیاہے۔کون ساقانون اورکون سے انسانی حقوق۔سب خوبصورت الفاظ یاجملے ہیں۔ مقصد ہر ایک کاصرف ایک ہے،کہ میرااقتدار ہمیشہ کے لیے قائم رہے۔ویسے تاریخی تجزیہ یہ بھی ہے کہ حکمران،عوام کو بیوقوف بنانے میں کامیاب رہتے ہیں۔خصوصاًمسلمان ممالک میں تو جمہوریت یاانسانی حقوق محض الفاظ ہیں۔ یہ اتفاق نہیں۔یہ وقت ہے کہ ہمارے غیرمتعصب دانشوروں کو حکومت اوردینی اُصولوں میں کہیں نہ کہیں تفریق کرنی چاہیے۔
ترقی کے نمائندہ اصول اپنے معاشرتی احوال کے مطابق اختیارکرکے لوگوں کے لیے خوش حالی کے دروازے کھول دینے چاہیے۔یہ بات طے ہے کہ آج بھی تمام مسلمان ممالک میں حکمران صرف امیرنہیں بلکہ امیرترین ہیں اورعوام بھیڑبکریوں کی طرح بوسیدہ روایات اور حکایتوں پرزندہ ہیں۔
علی عبداللہ صالح کسی سیاسی یا صنعتی کاروباری خاندان سے تعلق نہیں رکھتاتھا۔نہ ہی اس کا قبیلہ کسی ممتازحیثیت کا مالک تھا۔مگراسے دولت کادرست استعمال آتاتھا۔وہ استعمال جویوکے کی وزیراعظم،جرمنی کی چانسلراورفرانس کے صدرکے خواب میں نہیں آسکتا۔یہی کمال ہے مگریہی اصل زوال ہے۔صالح کے سات بھائی تھے۔صالح نے ملک کے تمام اہم اداروں کے سربراہ اپنے بھائی لگادیے۔ معاشی،فوجی،اقتصادی،سماجی اورمذہبی طاقت اپنے خاندان میں تقسیم کردی۔
جیسے جیسے وقت گزرنے لگا،اپنے بیٹوں، بیٹیوں،دامادوں،بھتیجوں اوربھتیجیوں کی ایک حکمران نسل بنا ڈالی۔اوپرسے نیچے تک صالح خاندان سے منسلک لوگ ہر کلیدی پوسٹ پرقابض ہوگئے۔نیویارک ٹائمزکے محقق رابرٹ فورتھ کے مطابق یمن کا پورا نظام دنیاکی تاریخ کے خطرناک ترین خاندانی مافیاکے قبضے میں چلاگیا۔یہ سلسلہ تیس سال جاری رہا۔یمن میں کرپشن اس درجہ بڑھ گئی بلکہ ایک نظام بن گئی کہ تمام یورپی ممالک نے اس کے خلاف آوازاُٹھانی شروع کردی۔
برطانوی سفیرجین میریٹ نے سرِعام کہہ دیاکہ یمن کواصل خطرہ خانہ جنگی سے نہیں بلکہ کرپشن سے ہے۔ ورلڈبینک نے2008میں یمن کوانسانی ترقی اوربہبودکے لیے قرضہ دیا۔صدرکے بیٹے احمدعلی صالح نے اس قرضے کو پراپرٹی کاکام کرمے والی کمپنی میں لگا دیا۔ اس قرضہ سے جوکمپنی کھڑی کی گئی،اس کا مالک یا چوکیدار یا چور،علی عبداللہ کابیٹااحمدعلی صالح تھا۔کرپشن انڈکس کے مطابق یمن دنیاکے کرپٹ ترین ممالک میں اول نمبر پر آچکا تھا۔پورے یمن میں ایک لفظ کوتقویت دی گئی۔یہ لفظ ''واسطہ''تھا۔
پورے ملک کی تمام نوکریاں اس''واسطے''کے ذریعے نیلام کی جاتی تھیں۔یہ دراصل لوٹ مارکا وہ نظام بن گیاجس کی بدولت ملک سے انصاف اورمیرٹ کانظام ختم کردیاگیا۔ویسے دیکھاجائے تویہ نظام دنیاکے تمام مسلمان ممالک میں کسی نہ کسی شکل میں قائم ودائم ہے۔ ہمارے جیسے ہرملک میں تقریباًتمام اہم کلیدی عہدے، نوکریاں اورپوزیشن''واسطے''سے ہی ملتی ہیں۔تلخ بات نہیں کرناچاہتامگرہمارے اپنے پیارے ملک میں بھی رشوت کے بغیرکوئی کام نہیں ہوسکتا۔
پیسے دیے بغیرقبرستان تک میں اپنے پیاروں کودفنانے کی مناسب جگہ نہیں ملتی۔مگرحیرت ہے کہ کافردنیامیں اکثریت بلکہ بیشترکام میرٹ پرسرانجام دیے جاتے ہیں۔ہمارے ملک سے مایوس لوگ جب امریکا اوربرطانیہ ہجرت کرتے ہیں تووہاں ایک صاف ستھرے نظام کے تحت کمال بلندی پرپہنچ جاتے ہیں۔ اگرامریکا میں ہوتو''شاہدخان'' نظرآتاہے اوراگرلندن یاکینیڈامیں ہوں توطاقت کے ہرسرچشمہ پربیٹھے نظرآتے ہیں۔فرق صرف اور صرف ''واسطے'' کا ہے جویمن میں صالح نے کمال عیاری سے''نظام زندگی'' بناڈالا۔
معاملہ یہاں نہیں رُکتا۔صالح کے وسیع وعریض خاندان نے پورے ملک کی تجارت پرقبضہ کرلیا۔ ہر کاروبار، خریدوفروخت یعنی تمام ملکی لین دین صرف اورصرف ایک خاندان کی مٹھی میں چلاگیا۔''چیٹم ہاؤس'' کے متعلق ہمارے ملک میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ لندن میں موجود سوسال سے زیادہ عمرکا یہ چیٹم ہاؤس دنیا کے تمام ممالک کے معاملات بڑی گہرائی سے جانچتا ہے۔یہ بین الاقوامی خلفشار میں ایک فورم بھی مہیا کرتاہے جہاں متحارب حریف بیٹھ کراپنے سنگین ترین مسائل حل کرسکے۔
''چیٹم ہاؤس'' نے یمن کے متعلق رپورٹ میں کہاکہ پورے ملک کا اقتصادی نظام صرف اورصرف آٹھ خاندانوں کے ہاتھ میں آچکا ہے۔پھروہی ہواجویمن یاہمارے جیسے ملکوں میں ہوتا ہے۔صالح نے اپنی طاقت اورپیسے کے زورپرایک اشرافیہ ترتیب دی۔ اس میں پہلی شرط صرف اورصرف حکمران خاندان سے وفاداری تھی۔علی عبداللہ صالح اب ایک شہنشاہ تھا۔ عدالتیں، فوج، انتظامیہ، پارلیمنٹ اورخواص اس کے پاؤں کے انگوٹھے کے نیچے تھے۔عوام کی بربادحالت کا ذکرکیا کرنا،وہ توتمام کرپٹ معاشروں میں یکساں ہے ''ورلڈ فوڈپروگرام'' کے مطابق یمن کی پچاس فیصد آبادی قحط کی حالت میں زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ انھیں کھانا ہفتہ میں ایک یاحددوبارنصیب ہوتاتھا۔وہ بھی بین الاقوامی امدای اداروں کے توسط سے۔مقامی انتظامیہ کو کوئی فکرنہیں تھی۔
اشرافیہ بڑے بڑے محلات میں رہتی تھی۔درجنوں نوکر چاکر،کنیزوں اورہرآسائش کے ساتھ بھرپورزندگی گزار رہے تھے۔ بھوک، غربت، جہالت سے کبھی ملک کے ایک حصے میں فسادات پھوٹ پڑتے ،کبھی دوسرے حصے میں۔ مگر صالح کا خاندان اور اس سے جڑی ہوئی اشرافیہ چین کی بانسری بجارہی تھی۔ تھوڑے عرصے کے بعدصالح نے اپنے آپکو ''فیلڈ مارشل''کاعہدہ دیدیا۔ عام لوگوں میں اشرافیہ کے خلاف نفرت آگ بن کرباہرنکلنے لگی۔ صالح نے کئی الیکشن بھی کرائے۔اس کی جماعت ہرالیکشن میں ووٹ خرید کر اور دھاندلی کے تمام طریقے استعمال کرکے بڑے معتبر طریقے سے الیکشن جیت لیتی تھی۔ پھر جمہوریت کاراگ درباری الاپناشروع کر دیتے تھے۔
ملک میں انتشار اور خانہ جنگی برپا ہوگئی مگر صالح نے اقتدارنہ چھوڑا۔ 2012ء میں اسے اقتدار سے باہر نکال دیاگیا۔حالیہ خانہ جنگی میں وہ حوثیوں کے ساتھ مل گیااوراپنے پرانے حلیف سعودی عرب سے لڑنا شروع کرڈالا۔چندماہ پہلے پھرقلابازی کھائی اور حوثیوں سے علیحدگی کااعلان کردیا۔ایک ہفتہ قبل، یمن کے سابقہ صدر کو بے رحمی سے قتل کردیا گیا۔ اقوام متحدہ جیسے مستندادارے کے مطابق صالح نے یمن سے چونسٹھ بلین ڈالرچوری کیے۔ اس نے دنیاکے اٹھارہ مغربی ممالک میں سرمایہ کاری کی۔ اس کا سالانہ نفع دو بلین ڈالرتھا۔
اپنے ملک کی دولت لوٹ کر دنیا کا پانچواں امیرترین آدمی بن گیا۔تین دن قبل علی صالح کی تدفین ہوئی۔اس کے جنازہ میں صرف اورصرف بیس لوگ تھے۔مغربی ممالک اس کی جائیدادکو یا تو منجمدکرچکے ہیں یا اس کے خاندان کومقدمات کا سامنا ہے۔ سوچنا چاہیے۔ کہ ملک لوٹ کرآخرکچھ حاصل بھی کیا تووہ دولت جو مرتے وقت جنازے کے لیے بیس آدمیوں سے زیادہ مہیانہ کر سکی۔ پرکھیئے،ذہن استعمال کریں،کیا یہ ہماری اشرافیہ کے لیے بھی سب سے کڑوا سوال نہیں ہے؟