پیپلز پارٹی تاریخ کی عدالت میں پہلا حصہ
پیپلز پارٹی گو بار بار اپنے ابتدائی نظریات کے احیاء کے وقتاً فوقتاً دعوے کرتی رہی ہے۔
KARACHI:
پیپلزپارٹی کے قیام کو 50 برس ہوگئے۔ جماعت کی قیادت اور کارکنان جوش وخروش کے ساتھ گولڈن جوبلی کا جشن منارہے ہیں۔ لیکن کیا اس جماعت کی قیادت نے ان پچاس برسوں کے دوران جماعت کی کارکردگی کا احتساب کیا ہے؟ کیا انھوں نے یہ دیکھنے اور جائزہ لینے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ان پچاس برسوں کے دوران ان سے کیا غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں؟ کیا یہ تمام لوگ ایک قومی جماعت کے سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہوجانے پر قانع ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر شاید پارٹی قیادت اور کارکنان کو غور کرنے کی فرصت نہیں ہے۔
پیپلز پارٹی گو بار بار اپنے ابتدائی نظریات کے احیاء کے وقتاً فوقتاً دعوے کرتی رہی ہے۔ لیکن عملاً وہ ان نظریات اور تصورات کو فراموش کرچکی ہے، جو پارٹی کے بانیان نے اس کے قیام کے وقت طے کیے تھے۔ اس بات میں شک نہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ سیاسی جماعتوں کے اہداف اور حکمت عملیاں تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ مگر بنیادی نظریات اور تاریخی حقائق سے صرف نظر نہیں کیا جاتا۔ دسمبر کی 5 تاریخ کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے تاریخ کے ساتھ سنگین مذاق کیا۔ انھوں نے پارٹی کے قیام کا مقام ہالا بتایا۔ حالانکہ تاریخ کا ہر طالب علم اور ہر متوشش شہری اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پیپلز پارٹی کا قیام ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر واقع گلبرگ لاہور میں ہوا۔ ڈاکٹر مبشر سے ان کے سیاسی اختلاف اپنی جگہ، مگر تاریخی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا تاریخ کے ساتھ بھیانک مذاق ہے۔
گزشتہ کئی دنوں کے دوران پیپلز پارٹی کی پچاس سالہ کارکردگی پر کئی اظہاریے شایع ہوئے، مگر سب سے زیادہ فکر انگیز اظہاریہ ایکسپریس ٹریبیون کے سابق ایڈیٹر کمال صدیقی کا ہے، جو اسی اخبار کی 4 دسمبر کی اشاعت میں Fifty Years of Frustration کے عنوان سے شایع ہوا۔ یہ اظہاریہ ان تمام لوگوں کے کرب کا اظہار ہے، جو پیپلز پارٹی سے روشن خیالی، سیکولر طرز عمل اور اچھی حکمرانی کی توقعات میں نظری اور عملی طور پر تباہی کے آخری دہانے تک پہنچ جانے کے باوجود اسے کئی دہائیوں تک ووٹ دیتے رہے، آج شدید مایوسی کا شکارہو چکے ہیں۔ کیونکہ بقول کمال صدیقی اب ان تلوں میں تیل نہیں رہا ہے۔
اگر پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو 1960ء کی دہائی پاکستان کی تاریخ میں سیاسی حبس کا بدترین دور تھا۔ ایسا دور اس کے بعد جنرل ضیا کی حکمرانی میں بھی آیا، جو اس سے زیادہ بھیانک تھا۔ مگر یہ پہلا تجربہ تھا، جو اس ملک کے شہریوں کو ہوا۔ بیشتر سیاسی رہنماؤں کو ایبڈو کے ذریعے سیاست سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ جو پابندیوں سے آزاد تھے، وہ خوف کے عالم میں غیر فعال تھے۔ صرف طلبہ تھے، جو ایوبی آمریت کے خلاف تسلسل کے ساتھ برسرپیکار تھے۔ وہ آمر جس سے پورا ملک دہشت زدہ تھا، وہ خود زیر تعلیم نوجوان سے خوفزدہ تھا۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی، ڈھاکا اور چٹاگانگ طلبا سرگرمیوں کے مرکز بنے ہوئے تھے۔ حکومت کبھی طلبا کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالتی، کبھی ان کے رہنماؤں کو کراچی بدر کرتی۔ مگر یہ سیل رواں تھا کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ عوام حیران و پریشان ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔ ملک میں دائیں اور بائیں بازو کی کئی سیاسی جماعتیں موجود تھیں، مگر عملاً سبھی غیر فعال۔ سیاست ڈرائنگ روموں اور بیٹھکوں میں ہورہی تھی۔ جن میں عوام کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
مختلف شہروں میں البتہ اسٹڈی سرکلز اور اندرون خانہ نشستیں بہرحال جاری تھیں، جن میں دلچسپی رکھنے والے عوام شریک ہوا کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک نشست ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر ہوا کرتی تھی۔ جس میں لاہور کی اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے اہل دانش اور سیاسی کارکن جمع ہوکر ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پر گفت و شنیدکے ساتھ مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں غور وخوض کیا کرتے تھے۔
ڈاکٹر مبشر حسن پاکستان میں سول انجینئرنگ میں پہلے Ph.D ہیں۔ لاہور یونیورسٹی آف انجینئرنگ سے 1964ء میں انھیں ایک احتجاج میں شرکت پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنی ایک فرم چلارہے تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن سوشلسٹ نہیں تھے، البتہ روشن خیالی اور فکری آزادی کے حامی تھے۔
ایوب خان جنوری 1965ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں دھاندلی کے باعث حکمرانی کا اخلاقی جواز کھو بیٹھے تھے۔ 1965ء کی جنگ نے انھیں کسی حد تک سہارا ضرور دیا تھا لیکن جنگ کے بعد معاشی ابتری کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی نے سیاسی حالات کو مزید ابتر کر دیا تھا۔ اس دوران جنوری 1966ء میں تاشقند معاہدے کے بعد ان کے اپنے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے شدید اختلاف ہوگئے (تاشقند معاہدے پر بھٹو مرحوم کا ایوب خان سے اختلاف کس حد تک درست یا غلط تھا، یہ ایک الگ بحث ہے)۔
بہرحال بھٹو نے وزات سے استعفیٰ دیدیا۔ انھیں تین ماہ تک کام کرتے رہنے کا کہا گیا۔ مارچ میں جب منظور قادر نے وزارت خارجہ سنبھال لی، تو بھٹو سے کہا گیا کہ وہ کچھ عرصہ کے لیے بیرون ملک چلے جائیں۔ بھٹو بذریعہ خیبر میل راولپنڈی سے جب لاہور پہنچے تو ریلوے اسٹیشن پر ان کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ لاہور ریلوے اسٹیشن نے اس سے پہلے اور بعد میں کبھی اتنا بڑا اجتماع نہیں دیکھا۔
گزشتہ روز لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر نشستوں میں شریک ہونے والے احباب سے ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ وہ ذہنی طور پر سیاسی جماعت کی تشکیل کے لیے آمادہ ہوچکے تھے۔ لاہور سے کراچی پہنچنے پر ان کی NSF کے صدر معراج محمد خان سے طویل ملاقاتیں ہوئیں، جو اپنی مدت کی تکمیل پر NSF کی صدارت سے الگ ہوکر عملی سیاست میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہے تھے۔ معراج محمد خان نے بھٹو کو اس تقریب میں مدعو کیا ،جس میں NSF کی صدارت ڈاکٹر رشید حسن خان کو منتقل ہونا تھی۔ بعض دوستوں کے پاس تصاویر موجود ہیں، جن میں بھٹو کے دائیں جانب معراج محمد خان اور بائیں جانب ڈاکٹر رشید حسن خان مرحوم بیٹھے نظر آتے ہیں۔
اس زمانے میں بھٹو کو کسی تقریب میں مدعو کرنا گویا اپنے لیے مصیبت کو دعوت دینا تھا۔ کیونکہ جب سے وہ کابینہ سے الگ ہوئے تھے، سرکاری خفیہ ایجنسیاں صرف بھٹو ہی نہیں، بلکہ ہر اس شخص کا تعاقب کیا کرتی تھیں، جو بھٹو سے ملتا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کے قریبی دوست احباب بھی ان سے دامن بچانے لگے تھے۔ بیشتر احباب جو کبھی سائے کی طرح ان کے پیچھے لگے رہتے تھے، اب ان کے سائے سے بھی کترانے لگے تھے۔ ایک ایسے ماحول میں ڈاکٹر رشید حسن خان کا بھٹو کو ڈاؤ میڈیکل کالج (جہاں وہ زیر تعلیم تھے) مدعو کرنا اور سیاسی تقریر کے لیے کہنا جرأت و ہمت کا کام تھا۔
لیکن سیاست میں محسن کشی ایک ایسا عیب ہے، جس نے تاریخ میںخوفناک المیوں کو جنم دیا ہے۔ وہ بھٹو جو طلبا تنظیموں کے کاندھوں پر چڑھ کر سیاسی مقبولیت کے قطب مینار تک پہنچے تھے، اقتدار میں آنے کے بعد انھی تنظیموں کی سب سے زیادہ بیخ کنی کی۔ جن نظریاتی ساتھیوں نے انھیں سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا، انھی کی گردن زدنی پر آمادہ ہوگئے۔ ان کی منتقم مزاج شخصیت کا شاخسانہ تھا کہ انھوں نے یکے بعد دیگرے ان تمام ساتھیوں کی تذلیل کرکے پارٹی سے الگ کر دیا یا علیحدگی پر مجبور کردیا، جنھوں نے پارٹی کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
کراچی میں کچھ عرصہ قیام کے بعد بھٹو جرمنی چلے گئے، جہاں کی ملاقات ایک سینئر سفارتکار جلال الدین عبدالرحیم (جے اے رحیم) سے ہوئی، جو اگلے برس ریٹائر ہونے والے تھے۔ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد Left to Centreجماعت بنانے کے متمنی تھے۔ حالانکہ وہ خود بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے۔ پاکستان میں ان کا اربن دانشوروں، سیاسی کارکنوں اور طالب علم رہنماؤں سے رابطہ تھا۔ انھوں نے نئی جماعت کا ابتدائی مسودہ بھی تیار کر رکھا تھا۔ بھٹو کی ان کے ساتھ کئی طویل ملاقاتیں اور مباحث ہوئے۔
بالآخر جے اے رحیم کے تیارکردہ ابتدائی مسودے (draft) میں چند تبدیلیوں کے بعد بھٹو اس جماعت کی قیادت پر آمادہ ہوگئے۔ معاملات طے ہونے کے بعد لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر 30 نومبر سے یکم دسمبر 1967ء کو دو روزہ کنونشن کا اہتمام کیا گیا، جس میں ملک کے مختلف حصوں سے ہم خیال دوستوں کو مدعو کیا گیا تھا۔
300 کے قریب مندوبین اس کنونشن میں شریک ہوئے، جن میں بھٹو، جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر حسن کے علاوہ میر رسول بخش تالپور، شیخ محمد رشید (بابائے سوشلزم)، معراج محمد خان، احمد رضاخان قصوری، شاہین حنیف رامے، امان اﷲ خان، حق نواز گنڈاپور، حیات محمد خان شیر پاؤ، غلام مصطفیٰ کھر، مختار رانا، ڈاکٹر غلام حسین، کمال الدین اظفر،رفیع رضا، عبدالستار گبول، اسلم گرداسپوری اور دیگر کئی رہنما شامل تھے۔ اس کنونشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نام سے نئی جماعت کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ کنونشن میں شریک مندوبین کی اکثریت کا تعلق اربن مڈل کلاس سے تھا۔
(جاری ہے)