امیر بلوچستان کے غریب طلباء کا مستقبل سولی پر لٹک رہا ہے

حکمرانوں کو یہ پتا ہی نہیں کہ بلوچستان کے بچے اسکولوں میں غیر معیاری تعلیم حاصل کررہے ہیں


دنیا نے آسمان کی بلندیوں کو چھولیا ہے جب کہ بلوچستان کا تعلیمی معیار ابھی تک تختی اور سلیٹ تک محدود ہے۔ (فوٹو: فائل)

اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان ایک قدرتی خزانہ ہے۔ اس کی سنگلاخ چٹانیں معدنی ذخائر سے بھری پڑی ہیں، ہزاروں مربع میل میدانی علاقے بنجر جب کہ زیرِزمین وافر مقدار میں پانی بھی موجود ہے؛ مگر حکمران غافل ہیں۔ پروردگار نے اس صوبے کو قدرتی وسائل اور معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے۔ چھ سو کلومیٹر ساحل سمندر اور گوادر بندرگاہ خالق کائنات کا عظیم تحفہ ہے۔ مگر بلوچستان کو ستر سال سے ہر سطح پر نظرانداز کیا جاتا رہا ہے جس کا خمیازہ آج ہم سب بھگت رہے ہیں۔ احساس محرومی نے بغاوت کی چنگاریاں پیدا کیں اور ان چنگاریوں پر دشمنوں نے تیل چھڑکنا شروع کردیا ہے اور حکمران طبقہ آج بھی جی ٹی روڈ کے سیاسی سحر سے جان چھڑا نہیں پایا۔

قوموں کا عروج و زوال نوجوانوں کے مستقبل سے وابستہ ہوتا ہے مگر بلوچستان میں طلباء کا کوئی مستقبل نہیں، نظام تعلیم تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اس صوبے میں دنیا کے بہترین کالجز اور یونیورسٹیز ہونی چاہیے تھیں مگر فی الحال ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں کچھ تعلیمی ادارے موجود ہیں، مگر ایک غریب کا بچہ وہاں تعلیم حاصل کرنے کے بجائے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر جوتوں کی پالش اور کسی گیراج یا ہوٹل میں کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ وہ اپنے گھر میں غربت دیکھ کر گھر والوں کا سہارا بننا چاہتا ہے۔ کیا ان بچوں کا حق نہیں کہ یہ بھی ڈاکٹر اور انجینئر بنیں؟

معاملہ یہ ہے کہ مالامال بلوچستان کے غریب لوگ جب اپنے اوپر مشکلات کا انبار دیکھتے ہیں تو بچوں کو تعلیم دلوانے کے بجائے گھر کا چولہا جلانا زیادہ ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے بچّوں کو محنت مزدوری پر لگا دیتے ہیں۔ اگر سو لوگوں میں سے چند ایک نے ہمت دکھا بھی دی تو میٹرک تک بچے کو پڑھا کر وہ خوشی سے پھولے نہیں سماتا، بچے کو اپنے ساتھ لے کر گھومتا ہے۔ بیشتر علاقوں میں سرکاری اسکولز تو موجود ہیں مگر وہ چائے خانے کی تصویر پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اگرچہ بلوچستان کے طلباء کالجز اوراسکولز جاتے ہیں مگر وہاں جی لگا کر تعلیم حاصل کرنے کے بجائے لغویات میں پڑجاتے ہیں۔ تعلیمی پسماندگی میں سوشل میڈیا اور اسمارٹ فون کے غلط استعمال کا بھی بڑا عمل دخل ہے جو عام طور پر وقت کی بربادی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے فحش اور عریاں مواد تک بہ آسانی رسائی نوجوانوں کےلیے اخلاقی پستی اور بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہورہی ہے۔ بلوچستان کے پسما ندہ علاقوں میں جہاں تعلیمی نظام کمزور ہے وہاں اکثر نوجوان انتہائی مضرِ صحت منشیات کے استعمال میں بھی مبتلا ہیں۔ اس ناسور کا کوئی مستقل حل موجود نہیں لیکن پھر بھی گرد و پیش کے حالات سے بے خبر یہ نوجوان اپنی دھن میں مگن ہیں۔

دنیا نے آسمان کی بلندیوں کو چھولیا ہے جب کہ بلوچستان کا تعلیمی معیار ابھی تک تختی اور سلیٹ تک محدود ہے۔ بلوچستان کے روشن ستاروں کا برباد مستقبل ایک حساس اور سنجیدہ شخص ہی دیکھ سکتا ہے، مگر افسوس ہمارے حکمران بلوچستان کے طلباء کی بربادی کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔

بلوچستان کے نوجوانوں کے مسائل کا حل قلم اورکتاب میں ہے۔ ہر بچہ اپنا مستقبل اسکول میں دیکھتا ہے مگر بلوچستان میں جب وہ اسکول کی حالت دیکھ کر اپنے ممکنہ مستقبل کا اندازہ لگاتا ہے تو ایک خوف میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ کہیں یہ میرے قیمتی وقت کا زیاں تو نہیں۔ بلوچستان کے اکثر طالب علم اپنا تعلیمی سفر شروع تو کرتے ہیں مگر آخر میں ڈگریوں کی بھاری قیمت ان کے حوصلے کو شکست دے دیتی ہے۔ طالب علموں کے مستقبل کو سولی پر لٹکانے والے حکمران طبقے کو اگر میں اصل ذمہ دار نہ ٹھہراؤں تو میرے قلم کا حق ادا نہ ہوگا۔

بلوچستان میں اگرچہ ثقافت اور روایات بہت اہمیت رکھتی ہیں مگر پھر بھی والدین اپنے بچے بچیوں کو علم کے سفر کا راستہ دکھاتے ہیں۔ پرائمری اسکولوں میں بچیوں کی بڑی تعداد موجود ہے مگر مڈل یا میٹرک کے بعد گھر میں بیٹھنے پر مجبور ہوجاتی ہیں کیونکہ وہ کالج نہیں جا پاتیں۔ ڈھائی لاکھ نفوس پر مشتمل چاغی ضلع جس میں واحد گرلز ڈگری کالج صرف دالبندین میں ہے، یہ ضلع پینتالیس ہزار مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کے ہیڈکوارٹر سے تین سو کلومیٹر کے فاصلے پر اسی ضلع کا شہر تفتان ہے۔ بلوچستان کی تعلیمی صورتحال کو سمجھنے کےلیے صرف طوالت کی یہ ایک ہی مثال کافی ہے۔ یہ وہی ضلع ہے جہاں ایٹمی دھماکا کیا گیا تھا لیکن بلوچستان کے اس بدنصیب ضلع کی قسمت میں بھی صرف جہالت اور بیماریاں لکھ دی گئی ہیں۔

ویسے تو سینڈک اور ریکوڈک منصوبے ہی بلوچستان کے عوام کےلیے خوشحالی کا ذریعہ بن سکتے ہیں مگر افسوس یہ دونوں پروجیکٹس چاغی کے عوا م کو کوئی خاص فائدہ نہیں دے رہے؛ تو پورے بلوچستان کو کہاں سے فائدہ پہنچائیں گے؟ حکمرانوں نے کچھ نوکریاں دے کر اپنا فرض پورا کرلیا ہے مگر انہیں یہ پتا ہی نہیں کہ یہاں کے بچے اسکولوں میں غیر معیاری تعلیم حاصل کررہے ہیں؛ کیونکہ وہاں اساتذہ اسکول جاتے ہی نہیں، اگر جاتے بھی ہیں تو کیا وہ اس قابل ہیں کہ بچوں کو تمام مضامین پڑھاسکیں؟ ان اسکولوں کے بچوں کا مستقبل کیا ہوگا؟

میں مایوس نہیں ہوں۔ اگر آج بھی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جائے تو مستقبل میں بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کے بچوں کو بھی ڈپٹی کمشنر اورڈاکٹر کے روپ میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اس نظام کو بدلنا ہوگا ورنہ آئندہ نسل بھی گیراج میں بیٹھ کر حکمرانوں کی گاڑیوں کی مرمت کرتے ہوئے یا ان کے جوتے پالش کرتے ہوئے یا ہوٹلوں میں میزوں پر چائے رکھتی ہوئی نظر آئے گی۔ اور شاید یہ انقلاب کی صبحِ نو یا پھر بلوچستان کے نوجوانوں کی تباہی کی علامت ہوگی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں