کالا چٹا ڈیم
آج آپ کالاباغ ڈیم کے حق میں بیان دیں کل سے ایسی بمباری شروع ہو جائے گی کہ جیسا کوئی ملک دشمن کام ہونے ولا ہے۔
کالاباغ ڈیم کے بارے میں گزشتہ کالم میں چند معروضات پیش کی تھیں لیکن کالم کی تنگ دامنی کے باعث بات مکمل نہ ہو سکی۔کالا باغ کا ایشوایک ایسا ایشو ہے جو ہر پاکستانی کا ہے، چاہے وہ ملک کے کسی بھی صوبے کا رہائشی ہو،کسی نہ کسی طرح بالواسطہ یا بلا واسطہ اس کا مفاد اس منصوبے سے منسلک ہے۔ ملک میں سیاسی حکومتیں بھی آئیں اور گئیں،کئی فوجی حکمران بھی ہم نے بھگتے لیکن کوئی بھی اس اہم ترین مسئلے کا ٹھوس حل نکالنے سے قاصر رہا۔
سیاستدانوں کی تو اپنی سیاسی مصلحتیں ہوتی ہیں لیکن فوجی حکمران تو ڈنڈے کے زور پر حکومت میں آتے ہیں اور یہ ڈنڈا مسلسل چلتا رہتا ہے تا آنکہ ان کے ساتھ سیاستدان بھی مل جاتے ہیں اور ان کو بھی سویلین کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن دیکھا، یہ گیا جس فوجی نے بھی سویلین بنے کی کوشش کی، اس کوے کی ماند ہو گیا جو ہنس کی چال میں اپنی چال بھی بھول گیا اور اسی چال کے چکر میں سیاستدان اپنا الو سیدھا کرتے رہے۔ کالاباغ کے متعلق سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے یک سو ہو کر نیک نیتی سے کوشش کی، ملک بھر میں اس کے حق میں راہ ہموار کرنے کی کوشش بھی کی لیکن سندھ جا کر وہ اپنا مقدمہ ہار گئے کہ سندھی صحافیوں نے ان کے دلائل سے لاجواب ہونے کے باوجود یہ اعلان کر دیا کہ ان کو حقیقت پر مبنی ان دلائل کے باوجود کالا باغ منظور نہیں۔انھوں نے کئی بار کالا باغ کی اہمیت کے پیش نظر یہ تک کہا کہ کالا باغ ڈیم نہ بنا کر ہم خودکشی کر رہے ہیں ۔
سیاستدانوں کے لیے یہ ایک ایسا سیاسی مسئلہ ہے جس پر وہ جب تک چاہیں اپنی سیاست کو زندہ رکھ سکتے ہیں، آج آپ کالاباغ ڈیم کے حق میں بیان دیں کل سے ایسی بمباری شروع ہو جائے گی کہ جیسا کوئی ملک دشمن کام ہونے ولا ہے حمایت اور مخالفت کے بیانات آتے رہیں گے اور سیاستدان اپنے اپنے سیاسی حلقوں کو مطمئن رکھنے کے لیے باتیں بھی بناتے رہیں گے۔
کالاباغ کا مسئلہ بھی ایسی نوعیت اختیار کر چکاہے کہ اسے سیاستدان اپنے سیاسی مفاد کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں کیونکہ کچھ سیاستدانوں کی سیاست اس مسئلہ کو متنارع بنا کر ہی جاری رہ سکتی ہے اور وہ اس میں کامیاب بھی جارہے ہیں۔ سیاستدانوں کی کیا کہئے کہ جن کو عوام منتخب کر کے اسمبلی میںبھجواتے ہیں، وہ اسمبلی میں بولیں یا نہ بولیں لیکن جب کبھی کالاباغ کے مسئلے نے سراُٹھایا تو وہ اپنی سیاسی اہمیت بنانے کے لیے فوراً میدان میں کود پڑتے ہیں، ان میں ایسے سیاستدان بھی آپ کو نظر آئیں گے جن کو آپ جانتے پہچانتے بھی نہیں لیکن وہ بھی بغیر سوچے سمجھے یا اس مسئلہ کے متعلق پڑھے بغیر اپنی ماہرانہ رائے دے رہے ہوں گے چاہے انھیں کالا باغ کے ہجے بھی معلوم نہ ہوں۔ پاکستان کے مستقبل کے اس اہم ترین منصوبے کو سیاست کی نظر کرکے اسے متنارعہ بنا دیا گیا اور جب یہ متنارعہ بن گیا تو اس پر حسب ضرورت سیاست بھی شروع کر دی گئی ۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے دو پہلو ہیں ایک تکنیکی اور فنی پہلو جب کہ دوسرا سیاسی۔ فنی طور پر اگر بات کی جائے تو واپڈا کے کئی سابق چیئر مین اس پر متفق نظر آتے ہیں کہ ملکی مفاد کے اس منصوبے کو فوری شروع کرنا چاہیے اور اتفاق کی بات ہے کہ واپڈا کے کئی سابق چیئر مین خیبر پختون خواہ سے تعلق رکھتے تھے، اس سلسلے میں شمس الملک جو ایک طویل عرصہ تک واپڈا کے چیئرمین رہے انھوں نے اپنے تازہ بیان میں اس جائز اور ضروری مسئلے کی یاد دلائی ہے، ان کا شمارواپڈا کے امور پر ماہر ترین افراد میں ہوتا ہے، وہ آج بھی پٹھان ہونے کے باوجود کالاباغ ڈیم کے قائل ہیں۔ انھوں نے ماضی میں اس بارے میں اپنے صوبے کے سیاستدانوں سے طعنے بھی سنے کہ پٹھان ہونے کے باوجود کالاباغ کے حمائتی ہو، ان کا جواب آج تک یاد ہے کہ کیا کروں سچی بات یہی ہے۔
میں چونکہ کالاباغ کے قریبی ضلع خوشاب کا رہائشی ہوں، میں نے ڈیم کی مجوزہ جگہ دیکھی ہوئی ہے ، یہ ایک قدرتی ڈیم کی جگہ ہے۔ دونوں طرف پہاڑہیں اور ان کے بیچوں بیچ دریائے سندھ اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ بہہ رہا ہے، اس کو سامنے سے بند باندھ کر اور پہاڑوں سے پیچھے جھیل بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بنانی ہے، وافر سستی بجلی بھی ملے گی اور زمینیں بھی سر سبز رہیں گی۔ سیاسی پہلو کی اگر بات کی جائے تو اس کا سب سے بڑا سبب دوسرے صوبوں کی پنجاب سے بدگمانی کا ہے۔ ان صوبوں میںیہ بات پھیلائی گئی ہے کہ پنجاب ان کا پانی روک لے گا اور سندھ کی زمینیں صحرا میں تبدیل ہو جائیں گی اور سندھی پیاسے مرجائیں گے۔
اس بات کی بھی ضمانت دی گئی ہے کہ اس سے پنجاب کے لیے نہریں نہیں نکالی جائیں گی، ڈیم کے ڈیزائن میں ردو بدل کے بعد خیبر پختون خواہ والوں کے خدشات تو کسی حد تک دور کر دیے گئے لیکن ایک خطرہ ابھی باقی ہے کہ دریائے سندھ پنجاب سے گزر کر سندھ میں داخل ہوتا ہے، اب اس بات کی کوئی صورت نہیں کہ یہ دریا پنجاب سے نہ گزرے نہ تو اس کے لیے کوئی سرنگ بنائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اسے اُڑا کر پنجاب سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ مگر جب پنجاب کو اس سے پانی نہیں ملنا تو دوسرے صوبوں کو اس پر کیوں اعتراضات ہیں حالانکہ پنجاب سب سے زیادہ زرخیز زمینیں رکھنے والا صوبہ ہے اور اس جرم کی پاداش میں یہ سزا بھی برداشت کرنے کو تیار ہے۔ پنجابی مجبوراً بھارتی پنجاب کی سبزیاں کھا لیں گے، اس لیے پنجاب کو اس ڈیم سے کیا ملتا ہے یا نہیں اور اس کی تعمیر سے کیا خوشی اور دلچسپی ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ اس سے پیدا ہونے والی بجلی مل جائے گی۔
فوجی حکومتیں تو گزر گئیں اور شاید اب کبھی دوبارہ نہ آسکیں ، اب یہ بال سیاستدانوں کے کورٹ میں ہے، انھوں نے ہی ملک کے عوام کو کسی مخصمے میں ڈالے بغیر اعتماد میں لینا ہے، اس کے لیے چاہے انھیں جلسے جلوسوں کی مدد لینی پڑے یا آج کی نئی عفریت میڈیا کی جو کہ اچھا برا سب کھول کر دکھا رہا ہے ،ایک بھر پور میڈیا مہم اس سلسلے میں شروع کر دینی چاہیے کیونکہ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ ایک قومی بحث کے ذریعے ا س کاحل نہ نکل سکے کیونکہ آج کے ترقی یافتہ دور میں عوام کو اب مزید بے وقوف بنانا ممکن نہیں رہا اس مسئلے کو حل کی جانب لے جانا چاہیے نا کہ اس میںمزید پیچیدگیاں پیدا کی جائیں، یہ مسئلہ کسی ایک صوبے کا نہیں پاکستان کی بقاء کا ہے، ہمیں اپنی نئی نسل کو ایک اچھا پاکستان دے کر جانا ہے اور کالا باغ اس اچھے پاکستان میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔