جس دیش میں گنگا بہتی ہے

بی جے پی کے راج میں فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کے شعلوں کو بھڑکانے کی نہ صرف کھلی آزادی ہے۔


Shakeel Farooqi December 12, 2017
[email protected]

''ہندوستان میں تاریکی بڑھتی جارہی ہے۔ ہر جانب نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ ملک میں نفرت کی سیاست میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ٹرین سے لے کر سڑکوں، حتیٰ کہ گھر کے اندر تک لوگوں کو بھیڑ (ہجوم) کی جانب سے مارپیٹ کرکے ہلاک کیا جارہا ہے۔ ملک میں عوام کے ایک بڑے حصے کو صرف ان کے عقیدے اور ذات کی بنیاد پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان حملوں کے زیادہ تر شکار مسلمان ہی ہیں۔'' ان خیالات کا اظہار ہرش مندر نے اپنے ایک حالیہ تبصرے میں کیا ہے۔

ہرش مندر بھارت کے ایک جانے مانے بے لاگ صحافی ہیں۔ انڈیا اسپینڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2010 سے گؤ رکھشا تحریک کے نام پر بھارت میں جو حملے ہو رہے ہیں ان میں نصف سے زائد افراد ہلاک ہوگئے ہیں جن میں 86 فیصد مسلمان ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ 2010 سے جاری ان حملوں میں سے 97 فیصد حملے 2014 میں نریندر مودی کے پردھان منتری بننے کے بعد ہوئے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کئی سینئر وزیروں نے ان حملوں کی کھلم کھلا حمایت کی ہے جو بی جے پی اور اس کی حکومت کی مسلم کشی کا واضح ثبوت ہے۔ بی جے پی نے ملک کی باگ ڈور جس شخص کے حوالے کی ہے۔

اس کے ہاتھ بھارت کی ریاست گجرات کے مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں اور وہ کھلے عام گائے کے ذبیحہ کا سخت مخالف ہے۔ انتہا یہ ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی سابق حکمراں اور موجودہ اہم اپوزیشن جماعت کانگریس بھی متاثرہ مسلمانوں کا ساتھ نہیں دے رہی۔ ''الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے'' کے مصداق ہندوستان کی پولیس بھی مسلم متاثرین ہی کے خلاف کیس درج کرتی ہے۔

زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ مویشیوں کے ایک مسلمان بیوپاری پہلوخان کو ہندوستان کی ایک مصروف شاہراہ پر دن دہاڑے بدترین ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن کوئی بھی ان کی مدد کے لیے نہیں آیا۔ اسی قسم کے ایک اور واقع میں محمد اخلاق نامی ایک بھارتی مسلمان کو ان کے پڑوسیوں نے ہی اس بے رحمی سے ہلاک کردیا جسے دیکھ کر شاید درندوں کو بھی شرم آجاتی۔ یہ ہے اس دیش کا احوال جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔ اسی طرح محمد جنید کو ٹرین میں ہلاک کردیا گیا اور پوری ٹرین میں کسی نے بھی اس کا ساتھ نہیں دیا، بلکہ بعض لوگوں نے حملہ آوروں کو مزید تشدد پر اکسایا اور بھڑکایا۔ 16 سالہ جنید کا واحد جرم یہ تھا کہ وہ مسلمان تھا۔

بھارت کی نام نہاد سیکولر سیاسی جماعتیں بھی بہ لحاظ عقیدہ و عمل سیکولر نہیں، بلکہ صرف مصلحت کے تحت مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے سیکولرازم کا پرچار کرتی ہیں۔ اکثر اوقات یہی دیکھا گیا ہے کہ مسلمانوں پر تشدد کے موقع پر پولیس یا تو پہنچتی ہی نہیں ہے یا محض خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔ عوام کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وہ ان واقعات سے بالکل انجان بن جاتے ہیں اور چپ چاپ وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ بے چارے پہلو خان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ انسانیت سوز تھا۔ جب حملہ آور انھیں اپنے تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے تو اس وقت لوگ ان کے ٹرک کو لوٹ رہے تھے۔ ضمیر کے مردہ ہونے کی اس سے بدتر مثال بھلا اور کیا ہوسکتی ہے؟

جیساکہ ہم اس سے قبل بھی عرض کرچکے ہیں بی جے پی اور اس کے حکمران ہندوستان کی تاریخ اور اس کے مسلم کلچر کو تباہ و برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور اسی مذموم مقصد اور ارادے کے تحت وہ نت نئے نئے اقدامات بھی کر رہے ہیں جن میں مسلم ناموں سے مشہور مقامات کی تبدیلی کی حرکات بھی شامل ہیں۔ حال ہی میں اتر پردیش (یوپی) کی صوبائی حکومت کی سفارش پر بھارت کی مرکزی حکومت نے مغل سرائے ریلوے اسٹیشن کا نام بدل کر دین دیال اپادھیائے ریلوے اسٹیشن رکھ دیا ہے۔

بی جے پی کی صوبائی حکومت نے اس ریلوے اسٹیشن کو ایسے شخص سے موسوم کیا ہے، جس کی واحد خصوصیت انتہاپسند ہندو تنظیم آر ایس ایس سے وابستگی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ مغل سرائے کے حوالے سے روایت یہ ہے کہ جب بھی مغل فوج دہلی سے سفر کرتی تو وہ اپنا پڑاؤ اس مقام پر ڈالتی۔ لہٰذا اس کا نام مغل سرائے رکھ دیا گیا۔ مغل سرائے کے قرب میں ہی بھارت کے آنجہانی وزیراعظم لال بہادر شاستری کا پیدائشی مکان بھی ہے۔ کانگریس کی حکومت اگر چاہتی تو مغل سرائے کا نام لال بہادر شاستری ریلوے اسٹیشن رکھ سکتی تھی لیکن اس نے ایسی مذموم حرکت سے اجتناب کیا۔ مگر بی جے پی اور اس کی حکومت تو ہندوستان کی تاریخ کو ہی مسخ کرنے کے درپے ہے، اس لیے وہ اس قسم کی گھٹیا حرکتیں کرنے میں پیش پیش ہے۔

اس قسم کے واقعات ہندوستان میں آئے دن رونما ہوتے رہتے ہیں۔ چنانچہ اتر پردیش میں بی جے پی کی صوبائی حکومت نے مدرسہ بورڈ کے تحت چلنے والے تمام مدارس کے لیے بھارت کے یوم آزادی 15 اگست کو ترنگا لہرانا اور قومی ترانا گانا لازمی قرار دیتے ہوئے یہ حکم بھی جاری کیا کہ اس کی ویڈیو گرافی کرکے انتظامیہ کے سامنے پیش کی جائے، جس پر ردعمل ایک فطری امر تھا۔ امام صاحب عید گاہ عیش باغ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے اس حکم پر شدید اعتراض کرتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ حکومت اس بات کی وضاحت کرے کہ آخر آزادی کے 70 سال کے بعد ایسی ہدایت کی ضرورت کیوں پیش آگئی؟

انھوں نے یہ سوال بھی کیا کہ یہ حکم صرف مدرسوں کے لیے کیوں جاری کیا گیا اور اسکولوں اور کالجوں کو اس ہدایت سے الگ کیوں کیا گیا؟ آر ایل ڈی کے صوبائی صدر ڈاکٹر مسعود نے اسے بی جے پی کی ذہنی پستی کا ایک اور نمونہ قرار دیا اور کہا کہ آر ایس ایس اور تمام بھگوا گروپ مسلمانوں کو ہمیشہ مشکوک بنائے رکھنا چاہتے ہیں اور انھیں اس طرح کے غیر ضروری معاملات میں الجھا کر ان کی توجہ تعلیم، کیریئر اور روزگار سے بھٹکانا ان کی ناپاک حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ اتر پردیش کے بعد بھارت کے ایک اور صوبے مدھیہ پردیش کی حکومت نے بھی صوبے کے مدرسوں کو یہ فرمان جاری کردیا کہ وہ 15 اگست کے موقع پر ہر حال میں ترنگا جھنڈا لہرائیں اور اس کی ویڈیو تیار کرکے متعلقہ محکمے کو ای میل کریں۔

یہ حقیقت اب کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ بی جے پی کے راج میں فرقہ پرستی اور مسلم دشمنی کے شعلوں کو بھڑکانے کی نہ صرف کھلی آزادی ہے بلکہ اس کی کھلم کھلا اور بھرپور حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور بھارت کے مسلمانوں پر ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت مسلسل عرصہ حیات تنگ سے تنگ تر کیا جا رہا ہے۔ حالات کا جبر اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بھارت کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری کو بھی اس بارے میں لب کشائی پر مجبور ہونا پڑا۔ اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں انھوں نے ہندوستانی اقدار کے کمزور ہونے چلے جانے پر تشویش ظاہر کی اور اعلیٰ سرکاری افسران میں نفاذ قانون کی کم ہوتی ہوئی صلاحیت کی نشاندہی کی۔

انھوں نے یہ شکایت بھی کی کہ آج کل ہم اپنے وطن میں اپنے ہی شہریوں کی شہریت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ حامد انصاری نے کہا کہ دلت برادران وطن بھی تسلسل کے ساتھ خبروں میں ہیں۔ سو وہ جانوروں کو ٹھکانے لگانے والے دلتوں کا مارا پیٹا جانا اور گؤ رکھشا کے نام پر انھیں بھی تشدد کا نشانہ بنانا ان کے ساتھ آئے دن اور برسہا برس سے ہونے والے مظالم میں ایک اور اضافہ ہے۔

خواتین کا عدم تحفظ بھی موضوع بحث ہے اور آبادی کا یہ طبقہ بھی حکومت سے خوش نہیں ہے۔ بھارت کے سابق صدر کی ان کھری کھری باتوں پر بی جے پی کے حلقے سیخ پا ہوگئے اور ہاتھ دھو کر ان کے پیچھے پڑ گئے۔ حامد انصاری کی یہ حق گوئی بی جے پی اور آر ایس ایس کے فرقہ پرستوں کو سخت ناگوار گزری ہے اور انھوں نے ان کے خلاف سوشل میڈیا پر طوفان بدتمیزی برپا کر رکھی ہے۔ ان حالات پر علامہ اقبال کا یہ شعر منطبق ہوتا ہے:

یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھناہے

لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں