یروشلم انسانوں کا مقدمہ آخری حصہ
یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا مقدس شہر ہے، اس لیے اس پر کسی ایک کو اختیار نہیں مل سکتا۔
کیا واقعی ڈونلڈ ٹرمپ یروشلم کا اور فلسطینیوں کے مقدر کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟ اس بارے میں آخری فیصلہ وقت کرے گا۔ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو ہوں یا فرانسیسی صدر اور دنیا کے گرد پھیلے ہوئے دوسرے مقتدر مدبرین۔ وہ اس فیصلے کو اس کے سوا کچھ نہیں سمجھتے کہ امریکی صدر نے اپنے سے پہلے گزرنے والے کئی اہم اور ایک بڑے حلقے میں دانشور مانے جانے والے امریکی صدور نے وہ فیصلہ نہیں کیا تھا جس پر ڈونلڈ ٹرمپ اتراتے پھر رہے ہیں۔
اب سے پہلے بھی میں یہ بات کئی بار لکھ چکی ہوں کہ:وہ زمانے اب یاد فراموشی کے طاق پر رکھ دیے گئے ہیں جب ساری دنیا کے باشعور اور باضمیر شہری نسل، عقیدے، رنگ و زبان کی تفریق کے بغیر فلسطینیوں کے ساتھ تھے۔ فلسطین کے حق میں آواز بلند کرنے والوں میں وہاں رہنے والے عیسائی اور معدودے چند یہودی بھی تھے، حنان اشروی، جارج حباش، لیلیٰ خالد اور کئی دوسرے اس صف میں شامل تھے۔ پھر وہ دن آئے جب فلسطین کی آزادی، جمہوری جدوجہد کے بجائے اسلامی تحریک سے جوڑ دی گئی۔
حماس نے اس جدوجہد کی باگ ڈور سنبھال لی، ایران کی حمایت نے اس تحریک کا رنگ بدل دیا اور آزادی اور جمہوری حقوق کی یہ روشن خیال اور دنیا بھر میں اپنے ہمدرد رکھنے والی تحریک، مذہبی رنگ اختیار کرگئی۔ خود بہت سے فلسطینی اس روش سے اتفاق نہیں رکھتے تھے لیکن ان کی مجبوری یہ تھی کہ وہ جدید اسلحے سے مسلح اور اپنے ہی متشدد بھائیوں کے حصار میں آگئے تھے۔ وہ انھیں دلیل اور منطق سے یہ نہیں سمجھا سکتے تھے کہ ان کی غیر مسلح اور پرامن جدوجہد نے سالہا سال کے دوران دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی تحریک کے جو ہمدرد بنائے ہیں، وہ ان کی طرف سے منہ موڑ لیں گے اور ان کی تمام جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی، ان کا شمار بھی دنیا کے عام دہشت گردوں میں ہوگا جب کہ وہ اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں، وہ بھی صرف پتھروں اور غلیلوں سے۔
فلسطین کی آزادی اور اس کی زمیں کو اسرائیل کے قبضے سے آزاد کرانا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ فلسطین کے لیے جدوجہد کرنے والے یہ نہیں سوچتے تھے کہ ان کا مذہب کیا ہے، وہ مسلمان تھے، عیسائی یا ارمنی تھے، اس سے کسی کو غرض نہیں تھی، مسئلہ فلسطین کی آزادی کا تھا۔ تب ہی 1969 میں طیارے کے اغوا کو دہشت گردی کے بجائے جدوجہد آزادی قرار دیتے ہوئے پاپولر فرنٹ کے جارج حباش نے کہا تھا کہ: ''22 سال تک کیمپوں میں رہ کر اور کسی کو اپنا نگہدار یا ہم نوا نہ پاکر، ہم نے اپنے انقلاب کو محفوظ کرنے کا خود ہی ارادہ کیا ہے۔ کون سی چیز ہمارے انقلاب کو آگے بڑھاتی ہے، کون سی تحفظ دیتی ہے، کون سی اضافہ کرتی ہے۔ یہ ہمیں فیصلہ کرنا ہے۔ ہمارے انقلاب کا مطلب ہے انصاف، ہمارے گھروں کی واپسی، ہمارے ملک کی واپسی اور ہمارے بچوں کے لیے پناہ گاہ کا احساس''۔
جارج حباش کے پاپولر فرنٹ سے جڑی ہوئی لیلیٰ خالد دنیا جس کے حوصلے، استقامت اور جان ہتھیلی پر رکھ کر طوفان میں کود جانے کی ادا پر نثار تھی۔ اس نے اپنی انگوٹھی اس ہینڈ گرینیڈکی پن سے بنائی تھی جسے اس نے عسکری تربیت کے دوران پہلی مرتبہ استعمال کیا تھا۔ یہ وہ تھی جس کا چہرہ دنیا بھر کے رسائل و جرائد، اخبارات اور ٹیلی وژن اسکرینوں پر نظر آتا تھا۔ اس نے جب دوبارہ طیارہ اغوا کرنے کی پیشکش کی تو پاپولر فرنٹ کے رہنماؤں نے یہ بات اس لیے رد کردی کہ وہ اسرائیلی ایجنٹوں اور عام لوگوں کے لیے اتنی جانی پہچانی تھی کہ پہلا قدم آگے بڑھاتے ہی اسے گولی مارکر ہلاک کردیا جاتا۔ اور یہ بھی ممکن تھا کہ اسرائیلی خفیہ کے لوگ اسے گرفتار کرکے لے جاتے، اس پر اسرائیل کی کسی عدالت میں مقدمہ چلتا اور وہ تاحیات جیل کی سلاخوں کے پیچھے زندگی گزارتی۔
لیلیٰ خالد کو اپنے مقصد سے دیوانگی کی حد تک وابستگی تھی، اسی لیے وہ ایک پلاسٹک سرجن کے پاس جا پہنچی اور اسے مجبور کردیا کہ وہ اس کے چہرے کو بدل دے۔ اس خوبرو لڑکی کے چہرے پر 6 مرتبہ آپریشن ہوا جس کے بعد اس کا چہرہ لوگوں کو دھوکا دینے کے قابل ہوا۔ اپنے وطن اور اپنے لوگوں سے کسی لڑکی کا اتنا گہرا پیمانِ وفا اس سے پہلے بیسویں صدی کی متعدد تحریکوں میں نظر نہیں آتا۔
لیلیٰ خالد فلسطینی جدوجہد آزادی کا وہ چہرہ تھی جس کو دنیا کے بیشتر حلقے 'دہشت گرد' کے نام سے پکارتے ہیں۔ حنان اشروی کا معاملہ دیگر ہے۔ وہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر فلسطین کی آزادی کا مقدمہ لڑتی رہیں۔ یاسر عرفات کے قریبی ساتھیوں میں تھیں لیکن جب حماس نے اس جدوجہد آزادی کو جہاد سے جوڑ دیا تو حنان اشروی نے بھی اس سے کنارہ کشی کی۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکا نے اپنے اس موقف سے دستبرداری اختیار کی ہے جو اس نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے اپنایا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یروشلم یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کا مقدس شہر ہے، اس لیے اس پر کسی ایک کو اختیار نہیں مل سکتا۔ یہی وجہ رہی ہے کہ امریکا کا سفارت خانہ آج تک تل ابیب میں ہے۔ اس دوران اسرائیل نے 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں فتح مندی کے بعد مسلسل اپنا ناجائز قبضہ بڑھایا ہے جسے امریکا سمیت دنیا میں کسی نے تسلیم نہیں کیا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اعلان کے بعد امریکا نے تمام بین الاقوامی قوانین کی نفی کردی ہے جو انصاف سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسرائیل کے انتہا پسند دائیں بازو کے سیاستدان اس اعلان پر خوشیاں منارہے ہیں اور آبادکاروں کو فلسطینیوں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کے لیے کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔
حنان اشروی جو اس دوران پس منظر میں چلی گئی تھیں، وہ آتش زیرپا ہو کر ایک بار پھر فلسطینی جدوجہد کے پیش منظر میں آئی ہیں اور انھوں نے لگی لپٹی رکھے بغیر یہ کہا ہے کہ ''مسٹر ٹرمپ! یروشلم کے بارے میں آپ نے غلطی کی ہے''۔ ان کا کھلا خط نیویارک ٹائمز میں شایع ہوا جس میں انھوں نے لکھا کہ اس طرح اسرائیلی افسر شاہی کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے کہ وہ ڈنکے کی چوٹ پر فلسطینیوں کے گھروں اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضے کرے اور ان کے انسانی، جمہوری اور شہری حقوق کو اپنے قدموں کے نیچے روند دے۔ اشروی نے اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ 1967 میں جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم پر قبضہ کیا، اس وقت سے اب تک شہر میں فلسطینیوں کے 20 ہزار گھروں پر قبضہ کیا گیا ہے۔
حنان نے لکھا کہ بہت سے خوش امید لوگوں کا وہ خواب خاک میں مل گیا ہے جو وہ دو ریاستوں کے بارے میں دیکھتے تھے۔ حنان اشروی نے امریکی صدر کو یاد دلایا ہے کہ اگر اور کچھ نہیں تو مسٹر میٹس کا 2013 میں دیا جانے والا وہ بیان یاد کرلیں جس میں اس وقت کے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ مسٹر میٹس نے کہا تھا کہ ''ہم قومی سیکیورٹی کی بھاری قیمت روزانہ ادا کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا کو اسرائیل کی متعصبانہ حمایت کرتے ہوئے دیکھا اور سمجھا جاتا ہے''۔
اشروی کا کہنا ہے کہ ہم فلسطینی یہ امید کرتے ہیں کہ امریکا میں زیادہ دانشمند آوازیں غلبہ پائیں گی اور امریکا ایسے اقدامات سے باز رہے گا جو مشرق وسطی کی صورت حال کو غیر متوازن کردے۔ مسٹر ٹرمپ اگر اس علاقے میں امن کی کامیابی کی قدرے بھی امید رکھتے ہیں تو انھیں یروشلم کے بارے میں اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔
حنان اشروی کی یہ امید شاید امید موہوم ہو لیکن آج کی دنیا میں امن کی جدوجہد، اسلحے سے نہیں، تدبر اور تحمل سے ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے بہت سے رہنما موجود ہیں جو ہر جمعہ کو فلسطینیوں کے حق میں مختصر سا جلوس نکال کر اپنے ووٹ بینک کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ تقریریں کرتے ہیں کہ فلسطینیوں کو اسرائیلیوں کے خلاف مسلح جدوجہد کرنی چاہیے۔ ایساکہتے ہوئے وہ تباہ حال فلسطینیوں کے معاملات پر نظر نہیں کرتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ایسے نعروں سے شاید ان کا ووٹ بینک تو محفوظ رہے گا لیکن سفاک اسرائیلی فوجی دستے فلسطینیوں کو مزید بے رحمی سے کچلنے میں خود کو آزاد محسوس کریں گے۔
دنیا بدل چکی ہے، اس کا ایک بڑا حصہ فلسطینیوں کے حق میں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اب وہ حق خود اختیاری کو مکالمے کے ذریعے حاصل کرنے کا موقف رکھتا ہے۔ یہ وقت جب دنیا اور مغرب کے بیشتر اہم مدبرین اور سیاسی رہنما، امریکی صدر سے اختلاف رکھتے ہیں اور ان سے اس فیصلے کو واپس لینے کے بیانات دے رہے ہیں، ہمیں فلسطینیوں کے ساتھ ہمدردی کی ضرورت ہے نہ کہ مذہبی بنیادوں پر انھیں مشتعل کرنے کی۔ فلسطینی آج سے نہیں گزشتہ 70 برس سے مظلوم ہیں۔ ان کی جدوجہد کو انسانوں کا مقدمہ رہنے دیں۔ یہی آخرکار ان کی جیت کا راستہ ثابت ہوگی۔