پی پی حکومت اور کراچی کے تعلیمی ادارے
حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم اور قانون کے محکموں کی اچھی کارکردگی کی بناء پر مالکان اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے۔
ہندوستان کی تقسیم سے پہلے کراچی میں صرف ڈی جے کالج تھا، پھر سندھ مسلم کالج قائم ہوا۔ مگر تقسیم کے بعد کراچی کی آبادی میں اچانک اضافہ ہوا۔ زیادہ تر نوجوان تعلیم حاصل کرنے کے طالب ہوئے۔ مولوی عبدالحق نے اردو کالج قائم کیا۔ پھر ایک مسلم لیگی ایم اے قریشی نے اسلامیہ کالج کی بنیاد رکھی۔ محمد علی جناح کے مزار کے نزدیک شکارپور کالونی میں انھیں متروکہ املاک میں سے ایک وسیع قطعہ اراضی مل گیا، یوں اسلامیہ کالج کی عالیشان عمارت تعمیر ہوئی۔
اسلامیہ کالج میں سائنس، آرٹس اور کامرس کے شعبوں کے علاوہ لاء کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔ ایم اے قریشی نے ایک اسکول میں بتایا کہ تمام تعلیمی ادارے ایک ٹرسٹ کے تحت قائم ہوئے۔ اسلامیہ کالج ایک زمانے میں شہر کے وسط میں سمجھا جاتا تھا۔ ایک طرف ملیر سے آنے والی سڑک جیل کے قریب سے گزرتی تھی تو دوسری طرف ناظم آباد، لیاقت آباد، پی آئی بی کالونی، پی ای سی ایچ ایس سوسائٹی سے یہ تعلیمی ادارہ قریب ترین تھا۔کیماڑی اور لیاری سے بہت زیادہ فاصلہ محسوس نہیں ہوتا تھا۔
اسلامیہ کالج کی خصوصیت یہ تھی کہ یہاں تھرڈ ڈویژن والوں کو بھی داخلہ مل جاتا تھا، اس طرح اسلامیہ کالج جلد ہی شہر کا مقبول ترین کالج بن گیا۔ اس کالج سے طلبا کے علاوہ اساتذہ کی بھی کئی تحریکیں منظم ہوئیں۔ اساتذہ کی نمایندہ تنظیم مغربی پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کا یہ مضبوط گڑھ تھا۔ ایم اے قریشی بنیادی طور پر تاجر تھے۔
انھوں نے اس ادارہ کو بھی تجارتی ادارے کے طور پر چلایا، نامور اساتذہ تو اس کالج میں جمع ہوئے مگر حالات کار خراب رہے۔ ایک زمانہ میں اسلامیہ کالج کے اساتذہ بروقت تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے ترستے تھے، گریجویٹی اور پراویڈنٹ فنڈ ملنا جوئے شیر لانے سے کم نہ تھا۔ پروفیسر رشید پٹیل، انیتا غلام علی، انیس زیدی، رئیس علوی اور حمزہ واحد بشیر وغیرہ نے مغربی پاکستان کالج ٹیچرز ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم پر اساتذہ کو جمع کیا اور اساتذہ نے مطالبہ کیا کہ اسکولوں اور کالجوں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ اساتذہ کی حیثیت سپیریئر سروس (C.S.P) کیڈر کے افسروں کے مساوی کی جائے۔
جب 1968 میں پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف بائیں بازو کی طلبہ تنظیم نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے مزاحمتی تحریک شروع کی تو اساتذہ، مزدوروں، کسانوں، خواتین اور دانشوروں کی تنظیموں نے اس تحریک کی حمایت کی۔ پیپلز پارٹی اپنے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں ایوب آمریت کو پہلے ہی چیلنج کرچکی تھی، کراچی میں کالجوں کے اساتذہ نے بھی تعلیمی اداروں کو قومیانے کے مطالبے کے لیے سرسید کالج کے سامنے تاریخی بھوک ہڑتال کی۔ اس تحریک کی حمایت اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلبا، این ایس ایف، مزدوروں، خواتین اور صحافیوں کی تنظیموں کے علاوہ پیپلز پارٹی نے بھرپور حمایت کی۔
جب دوسرے فوجی آمر جنرل یحییٰ خان نے 1970 کے انتخابات کا اعلان کیا تو پیپلز پارٹی پہلی جماعت تھی جس نے تعلیم کی ذمے داری ریاست کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے تمام تعلیمی اداروں کو قومیانے کا نکتہ اپنے منشور میں شامل کیا۔ جب 20 دسمبر 1971 کو چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تو پیپلز پارٹی نے اپنے منشورپر عمل کرتے ہوئے تعلیم، صحت، زراعت اور مزدوروں کے شعبوں کے لیے بنیادی اصلاحات کا اعلان کیا۔ اس طرح تعلیمی ادارے قومیائے گئے۔ اسلامیہ کالج بھی حکومت سندھ کی تحویل میں چلا گیا۔
بھٹو حکومت نے مارشل لاء ریگولیشن کے تحت تعلیمی اداروں کو قومیایا۔ اس ریگولیشن میں صرف تعلیمی اداروں کا ذکر تھا، اس کی عمارتوں کا ذکر نہیں تھا۔ تعلیمی اداروں کی زیادہ تر عمارتیں ٹرسٹ کے نام تھیں۔ اس بنا پر تعلیمی ادارے تو حکومت کی تحویل میں آگئے مگر عمارتیں ٹرسٹ کے زیر انتظام رہیں۔ قانون کے تحت حکومت نے ان عمارتوں کا کرایہ ادا کرنا شروع کیا۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں بعض عمارتوںکے مالکان نے تکنیکی بنیاد پر رینٹ کو کنٹرول کی عدالتوں میں مقدمات دائر کیے۔ حکومت سندھ کے محکمہ تعلیم اور قانون کے محکموں کی اچھی کارکردگی کی بناء پر مالکان اپنے عزائم میں کامیاب نہ ہوسکے، مگر پیپلز پارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی۔
سینئر اساتذہ کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کے افسروں نے پرانے مالکان سے گٹھ جوڑ کرلیا، کچھ اساتذہ تو یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ تعلیم کی وزارت کی نگرانی کرنے والے وزراء بھی اس گٹھ جوڑ میں ملوث تھے تو عدالتوں میں یکسوئی کے ساتھ مقدمات میں حکومت سندھ نے تعلیم کا دفاع نہیں کیا۔ جب صوبائی اسمبلی میں اس مسئلے کے دائمی حل کے لیے قانون سازی پر توجہ دی گئی تو اس سال سب سے پہلے اعلیٰ عدالتوں نے عائشہ باوانی کالج کی عمارت کو خالی کرانے کا حکم دیا۔ ایک دن اساتذہ اور طالب علم اپنے کالج پہنچے تو انھیں کالج کے دروازے سیل ملے۔ طلبا اور اساتذہ کلاسوں میں جانے سے محروم ہوگئے۔
طلبا نے شاہراہ فیصل پر دھرنا دیا۔ اساتذہ نے اس اہم شاہراہ پر کلاسیں لینی شروع کردیں۔ ٹی وی چینلز نے براہ راست تمام مناظر پیش کرنے شروع کردیے۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو ٹی وی اسکرین کے ذریعے صورتحال کا علم ہوا۔ وزیراعلیٰ کے نوٹس لینے پر کالج کے ڈائریکٹوریٹ کے افسران شاہراہ فیصل پر عائشہ باوانی کالج دوڑے۔ وزارت قانون کے افسروں پر دباؤ پڑا۔ سندھ ہائی کورٹ میں ایمرجنسی کی بنیاد پر عرضداشت داخل کی گئی۔
سندھ ہائی کورٹ نے کچھ وقت کے لیے عائشہ باوانی ٹرسٹ کو پابند کیا کہ وہ کالج کی عمارت خالی نہ کرائیں۔ اب دسمبر کے مہینے میں حکومت سندھ اسلامیہ کالج کا مقدمہ عدالت میں ہار گئی۔ ڈسٹرکٹ ایسٹ کے رینٹ کنٹرولر نے کالج کی عمارت اسلامیہ کالج کے ٹرسٹ کے حوالے کرنے کا حکم دیا۔ اساتذہ اور طلبا نے اپنے حق کے لیے آواز اٹھائی۔ اسلامیہ کالج کے اساتذہ اسلامیہ کالج کے سامنے سڑک پر کلاسیں لے رہے ہیں۔
تعلیمی شعبے کی رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ محکمہ تعلیم کے افسروں کی نااہلی اور کرپشن کی بنا پر گزشتہ30 برسوں میں حکومت کئی قومیائے ہوئے اسکولوں سے محروم ہوچکی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم خوش مزاج اور اسمارٹ شخصیت کے مالک ہیں۔ وہ اپنے کمرے میں مخصوص افراد کے کاموں کو نمٹانے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، ویسے بھی کراچی کے تعلیمی اداروں سے ان کی دلچسپی کم ہی ہے۔ انھوں نے ابھی تک صورتحال کی سنگینی کو محسوس نہیں کیا۔
وزیراعلیٰ سندھ گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہوئے اور سندھ میں صاف پانی کے مسئلے پر شہاب استو کی عرضداشت کی سماعت کے دوران شکوہ کیا کہ لاہور کے پانی میں 100 فیصد فضلہ شامل ہے، سپریم کورٹ صرف سندھ پر کیوں زور دے رہی ہے؟ مگر وہ اس حقیقت کو بھول گئے کہ تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی پیپلز پارٹی کی بنیادی اساس ہے۔
اب اگر طالب علموں کے احتجاج پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا اور وزیراعلیٰ کو طلب کیا تو کیا وہ اپنا یہی موقف پیش کرنے کے قابل ہوں گے؟ وزیراعلیٰ کو فوری طور پر تعلیمی اداروں کی عمارتیں خالی کرانے کے معاملے پر توجہ دینی چاہیے۔ سب سے پہلے محکمہ تعلیم کے ان افسروں کو سرکاری ملازمت سے بے دخل کرنا ہوگا جنھوں نے مالکان سے گٹھ جوڑ کرکے نااہلی کا ثبوت دیا۔
سندھ اسمبلی میں جامع قانون سازی ہونی چاہیے۔ حکومت کے اگلے بجٹ میں ان عمارتوں کی مالکان سے خریداری کے لیے رقم مختص کی جانی چاہیے تاکہ یہ مسئلہ مستقل طور پر حل ہوسکے۔ ایسا وقت نہ آئے کہ پاکستان کا سپریم کورٹ کشمیر کے سپریم کورٹ کی طرح بدترین طرز حکومت، نااہلی اور توہین عدالت کے الزام میں افسروں کو جیل بھیج دے۔