ادب اور انقلاب

1971 میں پاکستان کی تقسیم کے بعد اکیڈمی عبداللہ ہارون روڈ صدر پر تھی جہاں اب اسٹیٹ لائف اور انٹرنیشنل شاپنگ سینٹر ہے۔


Zuber Rehman March 14, 2013
[email protected]

ادب انقلاب سے اور انقلاب ادب سے جدا نہیں، جو باغی نہیں ہے وہ شاعر ہے اور نہ ادیب۔ ادب محکوم اور مظلوم انسانوں کو انقلابی پیش قدمی کے لیے راغب کرتا ہے۔ بقول علامہ اقبال ''جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روزی' اس کھیت کے ہر خوشہ گندم کو جلادو'' اسی طرح کے ایک انقلابی شاعر بنگلہ زبان کے گزرے ہیں جن کا نام ہے باغی شاعر قاضی نذرالاسلام۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں کہا کہ ''زندگی میں جن کے ہر روز روزہ' بھوک سے آئی نہیں کبھی نیند' ادھ مرے اس کسان کے گھر کیا خوشی لائی عید'' قاضی نذرالاسلام مغربی بنگال میں ایک مسجد کے غریب معلم کے گھر پیدا ہوئے۔

چونکہ اس خاندان میں عرصے سے لڑکا پیدا نہیں ہوا اس لیے نذرل کی پیدائش پر گھر والوں نے پیار سے ان کا نام ''دوکھو میاں'' (دکھ والا) رکھ دیا۔ کچھ عرصے بچپن میں وہ مسجد میں اذان دینے اور جھاڑو دینے کا کام کرتے رہے۔ بعدازاں انھوں نے ہوٹل میں ویٹر کا کام کیا اور فٹ پاتھ پر نمک بیچا اور عوام کی فرمائش پر گانا سنا کر 1/2 آنے مل جاتے تھے۔ ان کے چچا فارسی میں شاعری کرتے تھے ان سے متاثر ہوکر نذرل نے بنگلہ میں شاعری شروع کردی۔ بہرحال بنگلہ زبان چونکہ برصغیر کی ایک بڑی بامعنی، پرمغز اور تاریخی زبان ہے اور قاضی نذرالاسلام بنگلہ دیش کے قومی شاعر بھی ہیں۔

وہ نہ صرف شاعر تھے بلکہ غزل گائیکی، کرتن گائیکی، رقاص، طبلچی، دانشور، مصنف، ماہر ہارمونیم موسیقار، فلسفی، ڈراما نگار، صحافی، فوجی اور انقلابی شخصیت کے مالک تھے۔ انگریز استعماریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے 3 بار انھیں جیل جانا پڑا۔ ان کے نام سے منسوب ایک اکیڈمی مغربی پاکستان کراچی میں قائم کی گئی جوکہ نذرل اکیڈمی کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس اکیڈمی کا پہلا اجلاس 1953 میں زیر صدارت بیگم رعنا لیاقت علی خان منعقد ہوا جس میں کراچی کے روشن خیال شہریوں نے شرکت کی۔ ممتاز قانون داں اے۔ کے بروہی اس کے پہلے صدر بنے۔

1971 میں پاکستان کی تقسیم کے بعد اکیڈمی عبداللہ ہارون روڈ صدر پر تھی جہاں اب اسٹیٹ لائف اور انٹرنیشنل شاپنگ سینٹر ہے۔ کئی سال غیر فعال رہنے کے بعد سابق وفاقی وزیر محمود علی مرحوم اور ان کی مرحومہ بیگم حاجرہ محمود نے اسے ازسرنو فعال کیا۔ عبداللہ ہارون روڈ پر واقع نذرل اکیڈمی کی پہلی عمارت کی اراضی کو اس وقت کے سندھ کے وزیر اعلیٰ غلام مصطفی جتوئی کی ایما پر فروخت کردیا گیا تھا۔ نذرل اکیڈمی کی موجودہ عمارت بلاک35 پاکستان سیکریٹریٹ صدر کراچی میں محمود علی کی کوششوں سے حکومت پاکستان نے اکیڈمی کو دی تھی۔

بعدازاں نذرل اکیڈمی کی اپنی عمارت کے لیے قطعہ اراضی الہلال سوسائٹی کی انتظامیہ کے بعض عناصر کی مدد سے ایدھی ٹرسٹ کے حوالے کردیا گیا۔ یاد رہے کہ الہلال سوسائٹی کی اراضی پر اکیڈمی کی عمارت کی تعمیر کے لیے ممتاز آرکیٹکٹ علاؤالدین منشی مرحوم نے اس کا نقشہ مجاز اتھارٹی سے منظور کرایا تھا۔ اس کی عمارت کا ماڈل بھی تیار کروالیا تھا۔ چند سال غیر فعال رہنے کے بعد حاجرہ محمود علی کی صدارت میں اکیڈمی ازسرنو بحال ہوئی۔ حاجرہ محمود علی ایک فعال، ترقی پسند اور ادب دوست خاتون تھیں۔ ان کے نام سے محمدی کالونی میں ایک اسکول بھی قائم ہے۔

حاجرہ محمود علی کے بعد سابق وفاقی وزیر محمود علی اکیڈمی کے صدر منتخب ہوئے۔ محمود علی کی کاوشوں سے بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان میں مقیم بنگلہ زبان بولنے والوںکی تقریباً تمام آبادی بنگلہ دیش منتقل ہوگئی۔ جس کی بناء پر تعلیمی اداروں میں بنگلہ زبان میں شایع شدہ کتب پڑھنے والے موجود نہ ہونے کے برابر تھے۔ لہٰذا محمود علی صاحب کی کوششوں سے ایسی بیشترکتب نذرل اکیڈمی کو عطیے کے طور پر دے دی گئیں۔ حقیقتاً نذرل اکیڈمی کی بحالی محمود علی کا ذاتی کارنامہ تھا۔ اس دوران اکیڈمی نے مختلف رنگارنگ ثقافتی اور ادبی بڑے بڑے پروگرام منعقد کرائے۔ جس میں بنگلہ دیش کے علاوہ دیگر ممالک سے آئے ہوئے مندوبین نے بھی شرکت کی۔ 1999 میں قاضی نذرالاسلام کا صد سالہ یوم ولادت بڑے پیمانے پر منایا گیا، کئی پروگراموں میں رقص و موسیقی کے پروگرام بھی ہوئے۔

جس میں دیگر اداروں کے علاوہ قائد ملت لیاقت علی خان میموریل کمیٹی بھی شامل تھی۔ جس کے زیر اہتمام ظفر حسن عابدی نے ایک یادگاری کیلنڈر بھی شایع کیا تھا۔ 2006 ء میں محمود علی کے انتقال کے بعد محترمہ دلربا یاسمین اکیڈمی کی صدر منتخب ہوئیں جوکہ بنگلہ انگریزی اور اردو ادب میں لاتعداد مقالے لکھ چکی ہیں، انھوں نے فلسطین پر معروف مقالہ بھی لکھا ، وہ پیشے کے اعتبار سے پروفیسر ہیں۔ درمیانے عرصے میں بیگم شیریں رحمت اللہ کے زیراہتمام اکیڈمی میں کوئی قابل ذکر کام نہ ہوسکا اور اسی دوران عمارت میں بھی ضروری مرمت کا کام بھی نہیں ہوا۔ جس کی وجہ سے کئی سال تک اکیڈمی زیادہ متحرک اور فعال نہ رہی۔

راقم (زبیررحمن) جوکہ بنگلہ زبان میں ماسٹر اور پی ایچ ڈی ہیں بھی نذرل اکیڈمی میں محمود علی کے دور صدارت سے ہے وابستہ رہے۔ وہ بالترتیب خزانچی اور جوائنٹ سیکریٹری بھی منتخب ہوئے۔ جس جنرل باڈی کے اجلاس میں یاسمین کو صدر منتخب کرنے کے لیے نام تجویز کیا گیا تھا اسی اجلاس میں جنرل سیکریٹری کے طور پر محفوظ النبی خان کو منتخب کیا گیا۔ اس کے بعد نذرل اکیڈمی کے تحت کراچی آرٹس کونسل میں کیوبا کے سفیر کو مدعو کیا گیا جس میں راقم نے ''بنگلہ ادب اور انقلاب'' پر ایک مقالہ بھی پڑھا۔ نذرل اکیڈمی کے دگرگوں حالات کے باوجود محفوظ النبی، ذوالفقار حیدر صدیقی، آغا سید عطااللہ شاہ، محمد انیس، نذیر احمد چنا، محمد صدیق بلوچ، محمد اسلم جناح (نواسہ قائد اعظم) نعمان فردوسی، ظفر حسین اور عبدالحنان سرگرم رہے۔

ان سب سے بڑھ کر نذرل اکیڈمی کی جنہوں نے خدمت کی وہ ہیں تہمینہ (جوکہ آج کل فٹ پاتھ پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں) انھوں نے بنگلہ ادب میں ماسٹر کیا ہوا ہے۔ اس دوران متعدد تقریبات ہوتی رہیں جن میں دیگر معززین کے علاوہ معروف صحافی ، دانشور حضرات جن میں نذیر لغاری، طاہر نجمی، آرٹس کونسل ادبی شعبے کے چیئرمین اور کراچی یونیورسٹی کے اردو ادب کے پروفیسر سحر انصاری، تاریخ کے پروفیسر علی محمد شاہین، پروفیسر اقبال محسن اور ڈاکٹر محمد رضاکاظمی، تاج حیدر، محمود العزیز اور مہر وجدانی شامل ہیں۔ ابھی چند ماہ پیشتر نذرل اکیڈمی کی عمارت پر قبضہ جما ہوا ہے۔ اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق عمارت پر قابض شخص کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ غیرقانونی طور پر لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے خطیر رقم جھانسہ دے کر وصول کر تا ہے جس کا مقدمہ ایف آئی اے میں درج ہے۔

جب کہ ایک اور شخص بھی غیرملکیوں کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ دلوانے کا دھندہ اکیڈمی کی سرکاری عمارت کو استعمال میں لاتے ہوئے کر رہا ہے۔ ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ جعلی دستاویز حاصل کرکے اکیڈمی کے لاکھوں روپے کا فنڈ ہڑپ کیا گیا ہے۔ جس پر ایف آئی اے اور صدر اکیڈمی دلربا یاسمین نے نوٹس بھی لیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر ثقافت ان غیر قانونی حرکات میں ملوث افراد کا فوری نوٹس لیں۔ ادب ایک ایسا میدان ہے جو کسی سرحد کو نہیں مانتا، ہر چند کہ بددیانتی اور بدامنی کا مکمل حل ایک غیر طبقاتی سماج میں مضمر ہے جوکہ محنت کشوں کے انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہوگا۔ مگر اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے ادب دشمن اور بددیانت افراد کا قلع قمع ہونا ہی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں