شفاف احتساب
معاشروں میں نیب جیسے اداروں کا آزادانہ اور بھرپور انداز میں کام کرنا اس لیے بھی مشکل ہے
''شفاف'' اور ''احتساب'' کے ہم معنی الفاظ دنیا کی ہر زبان میں پائے جاتے ہیں لیکن ان کا جو حشر فی زمانہ ہماری زبان' میڈیا اور معاشرے میں ہو رہا ہے اس کی کوئی موزوں مثال شاید کہیں اور نہ مل سکے اور جہاں تک ان دونوں کو ملا کر یا بطور ترکیب استعمال کرتے ہوئے ان کا مفہوم متعین کرنے کا سوال ہے تو وہ اپنی جگہ پر ایک الگ مسئلہ ہے کہ اس میں شامل ہر متعلقہ پارٹی کے نزدیک ''شفاف'' وہ خود ہے اور ''احتساب'' باقیوں کا ہونا چاہیے اور یہ کہ اگر ''ان'' میں کوئی غیر شفافیت ہے تو اس کی ذمے داری ان کے مخالفین' حالات اور بعض صورتوں میں بین الاقوامی سازشوں پر ہے جب کہ دوسرے از اول تا آخر ہر خرابی کے خود ذمے دار ہیں اور یوں احتساب کے کٹہرے میں صرف ''ان'' کو ہی کھڑا کرنا بنتا ہے۔ یہ زبردستی کا استثنا اگرچہ تاریخ کے ہر دور میں کچھ طاقت ور' خود پرست' خود غرض اور بے ہنر لوگ لیتے رہے ہیں مگر آج کل تو یہ رویہ ایک فیشن اور حق کی شکل اختیار کر گیا ہے
ہوا ہی ایسی چلی ہے ہر ایک سوچتا ہے
تمام شہر جلے ایک میرا گھر نہ جلے
یہ کیسی سوچ ہے امجد یہ کیسا منظر ہے
ہے آگ شہر کی سانجھی' دھواں کسی کا نہیں!
آگ لگائے شہر میں' فتنے جگا کے دہر میں
جا کے الگ کھڑے ہوئے کہنے لگے کہ ''ہم نہیں''
9دسمبر کا دن اینٹی کرپشن کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے بعض احباب اس سے یہ مطلب بھی لیتے ہیں کہ سال کے باقی 364 دنوں میں کرپشن کا مشورہ اور حکم نہ سہی ''اجازت'' بہرحال موجود ہے۔ غلام محمد قاصر مرحوم کا ایک بہت باکمال شعر ہے
کروں گا کیا جو محبت بھی چھوڑ دی میں نے
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
اس میں انور مسعود نے صرف ایک لفظ کی ''کرپشن'' کی ہے یعنی اسے ادھر سے ادھر کیا ہے مگر شعر کا منظر مطلب اور لطف تینوں ایک ساتھ بدل گئے ہیں اور اب اس کی شکل کچھ یوں ہو گئی ہے کہ
کروں گیا کیا جو کرپشن بھی چھوڑ دی میں نے
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا
NAB کا ادارہ یوں تو اپنے آغاز سے ہی خبروں کا موضوع رہا ہے اور اس کی کارکردگی کے بارے میں منفی اور مثبت دونوں طرح کی آرا پائی جاتی ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے میاں نواز شریف کی نااہلی اور ان پر قائم کردہ مقدمات کے ضمن میں اس کا تذکرہ ہمہ وقت ہونے لگا ہے اور یوں میڈیا اور ہماری روز مرہ کی گفتگو میں اس کی شمولیت ہوا اور پانی کی طرح ہماری زندگیوں کا حصہ بن گئی ہے۔
کوئی ایک برس قبل موجودہ ڈی جی نیب لاہور میجر ریٹائرڈ شہزاد سلیم صاحب سے کسی کیس کے حوالے سے میرا ٹیلی فونک رابطہ ہوا (اس وقت وہ پشاور نیب کے انچارج تھے) جس محبت توجہ اور احترام سے انھوں نے میری بات سنی اور مطلوبہ رہنمائی فراہم کی اس کا خوشگوار اثر دیر تک قائم رہا، اس کے بعد بھی ایک دو بار ان سے گفتگو کا موقع ملا مگر بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی سو جب ان کا پیغام اور دعوت نامہ ملا کہ میں الحمرا ہال لاہور کی ایک تقریب میں شامل ہو کر نہ صرف نیب کے بارے میں فرسٹ ہینڈ معلومات حاصل کروں بلکہ بدعنوانی اور احتساب کے ضمن میں اپنے خیالات کا اظہار بھی کروں تو میرے حامی بھرنے کی غالب وجہ ان سے ملاقات تھی کہ نیب کی پکڑ دھکڑ اور فوجی افسران سے متعلق ایک مخصوص اور قدرے خشک انداز سے بالکل مختلف ان کا رویہ اور لہجہ مسلسل اس کی تحریک دے رہا تھا۔
لاہور کی ٹریفک کی موجودہ صورت حال کے باعث گھر سے الحمرا تک میرا تیس منٹ کا سفر ایک گھنٹے پر پھیل گیا سو جس وقت میں ہال میں داخل ہوا تقریب شروع ہو چکی تھی اور وہ بطور ڈی جی اپنے محکمے کی کارکردگی کی رپورٹ کے ساتھ ساتھ عوام اور میڈیا سے متعلق NAB کے امیج کے مختلف پہلوؤں اور مسائل پر روشنی ڈال رہے تھے۔ صدارت لاہور ہائی کورٹ کے ریٹائر چیف جسٹس محترم اللہ نواز صاحب کر رہے تھے اور مقررین میں ان کے اور میرے علاوہ اکرام سہگل اور سہیل وڑائچ صاحب شامل تھے۔ بہت سی معلومات اور خیال افروز باتوں کے ساتھ ساتھ اس ادارے کی بعض پالیسیوں بالخصوص پلی بارگین کی نوعیت پر زیادہ زور رہا کہ اس کے حوالے سے احتساب اور اس کی شفافیت کا ذکر اور تجزیہ بار بار ہوتا رہا۔
صاحب صدر جسٹس اللہ نواز نے اپنے مخصوص سادہ مگر عالمانہ اور دل سوز انداز میں اس کے کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہوئے اس کے آئینی اور قانونی حل کی ضرورت اور طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ ہمیں تنقید اور تنقیص کے ساتھ ساتھ کسی ادارے کی اچھائیوں اور کامیابیوں کا ذکر اور تعریف بھی کرنی چاہیے اور یہ کہ نیب نے مثالی نہ سہی مگر بہت حد تک اپنے فرائض کو عمدہ اور موثر طریقے سے ادا کیا ہے اور اگر اس کے دائرہ عمل' طریقہ کار اور تنظیمی شفافیت سے متعلق مسائل کو مناسب انداز میں طے اور حل کر دیا جائے تو بدعنوانی کی روک تھام' احتساب کی شفافیت اور ادارے کی غیرجانبداری کے ضمن میں اٹھنے والے سوالات بھی خود بخود کم اور پھر ختم ہوتے چلے جائیں گے۔
حکمران طبقوں کی ناجائز دخل اندازی اور دباؤ کے خاتمے کے بغیر ہماری طرح کے معاشروں میں نیب جیسے اداروں کا آزادانہ اور بھرپور انداز میں کام کرنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ ایک طرف تو عوامی نمایندے عمومی انصاف کے بجائے منتخب اور اپنے پسندیدہ انصاف پر زور دیتے ہیں اور دوسری طرف میڈیا اورعوام بھی منفی پراپیگنڈے کی رو میں بہہ کر اس ادارے کی مشکلات کو دور کرنے میں مدد دینے کے بجائے صرف اس کی خامیوں کو ہی اچھالتے ہیں۔ کم و بیش یہی باتیں ایک قدرے مختلف پس منظر میں پنجاب اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ کی اینٹی کرپشن کے حوالے سے منعقد کردہ تقریب میں ایک ہفتے کے بعد اسی ہال میں ایک بار پھر دہرائی گئیں اور اتفاق سے مجھے اس تقریب میں بھی بطور مقرر مدعو کیا گیا تھا۔
سو مجھے بھی ایک بار پھر یہ باتیں کہنے اور سننے کا موقع ملا کہ شفافیت کے ساتھ احتساب اور متعلقہ محکمے کے ''ترقی کا سفر'' کے حوالے سے واقعات' دعوے اور شواہد اپنی جگہ مگر اصل بات یہ ہے کہ ہمیں شفافیت اور احتساب کا یہ درس اورشعور ایک مستقل اور پسندیدہ رویے کے طور پر اپنی اگلی نسلوں کو تعلیم اور تربیت دونوں حوالوں سے منتقل کرنا ہو گا کہ جب تک شہری اپنی سوچ' عمل' رویے اور مدد سے ان اداروں کے پہلو بہ پہلو کھڑے نہیں ہوں گے ان کے قیام کا اصل مقصد حاصل نہیں ہو سکے گا۔ سو ضرورت اس بات کی ہے کہ ''شفاف اور احتساب'' کو الفاظ کے بجائے نظریہ حیات کا درجہ دیا جائے اور اس کا اطلاق نیچے سے اوپر اور فرد سے معاشرے تک ہر سطح پر ایک جیسا ہو اور اس کے لیے ضروری ہے کہ
اپنی پستی کا نہ الزام کسی پر رکھو
پاؤں پھسلے تو اسے پھر سے جما کر رکھو
قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے
اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو