ملک کے وارث

مذہبی عناصر جو قیام پاکستان کے کانگریس سے بھی زیادہ مخالف تھے آج وہ اس ملک کے والی و وارث بن گئے ہیں۔


نجمہ عالم December 15, 2017
[email protected]

لکھنے والے تسلسل کے ساتھ بھارت کے ان منصوبوں اور عزائم پر واضح الفاظ میں لکھ رہے ہیں کہ بھارت ہر حال میں ہر محاذ، ہر فورم پر ہر صورت میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر قدم اٹھانے پر نہ صرف تیار رہتا ہے بلکہ اپنے منصوبوں پر عمل بھی کرتا رہتا ہے۔ بات کلبھوشن کی ہو، پاکستان میں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی، یا سرحد پر بلاجواز اشتعال انگیزی کی، بھارت ہر معاملے میں سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی پوری کوشش کرتا ہے، اور اپنی ان کوششوں کو ہر حال میں کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے اندرونی و بیرونی یعنی اپنی خارجہ پالیسی کو بڑے منظم انداز میں چلا رہا ہے۔

بھارت کا واحد مقصد پاکستان کے خلاف امریکا کے کان بھرنا اور پاکستان کو دہشتگرد یا دہشتگردوں کی پشت پناہی کرنیوالا ثابت کرکے اس کو مزید مشکلات سے دو چار کرنا ہے۔ کمزور پاکستان، مقروض پاکستان، ناخواندہ پاکستان اور معاشی بدحالی کا شکار پاکستان ہی بھارت کے کلیجے کو ٹھنڈ پہنچا سکتا ہے۔کشمیر کا اتنا بڑا اور اہم معاملہ تو طویل عرصے سے عالمی توجہ سے محروم ہے مگر کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت تک پہنچ گیا۔

یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم کیا ہی نہیں۔ بنگلہ دیش بنوا کر جو پیغام وہ ہمیں دے چکا ہے ہم اب تک اس کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں، کیونکہ پاکستان کو دولخت کرکے جو نقصان وہ ہمیں پہنچا چکا ہے وہ تو اب پورا نہیں ہوسکتا، مگر بچے کچھے پاکستان کو غیر مستحکم کرکے کم ازکم خطے میں اپنی برتری تو ثابت کرسکتا ہے، اور اس کوشش میں وہ پوری طرح منہمک ہے۔ یہ مقام حاصل کرنے کے لیے وہ نہ صرف حکومتی سطح پر بلکہ ذرایع ابلاغ وزارت خارجہ، سفارتی طور پر ہمہ وقت ہر ہتھیار، ہر حربے سے لیس رہتے ہیں۔

کوئی ادنیٰ سا موقع بھی پاکستان کو نقصان پہنچانے یا بدنام کرنے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ بلوچستان ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی سرپرستی اور پشت پناہی کھلم کھلا بھارت کر رہا ہے۔ امریکا سے دھمکیاں دلوانا ''ڈو مور'' کا مطالبہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی بڑھانے کا کہنا، امریکا کو ہمارے خلاف کرنا بھارت ہی کا کارنامہ ہے، گویا بھارت اپنے منصوبوں میں پوری طرح کامیاب ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سب کے باوجود کیا ہم ایک آزاد اور خودمختار ریاست نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو آخر ہم خود اپنے دفاع کے لیے (فوجی نہیں سفارتی اور سیاسی سطح پر) کیا کر رہے ہیں؟ بھارت اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کسی سفارتی ضابطے کو خاطر میں لاتا ہے نہ کسی قانون کو، دشمن کے تمام حربوں کو ناکام کرنا تو خود ہماری ذمے داری ہے۔ تقریباً ساڑھے چار سال تک ہم بغیر کسی وزیر خارجہ کے ملک چلاتے رہے۔

جب وزیر خارجہ ہی نہ ہو تو عالمی سطح پر اپنے ملک کے خلاف ہونیوالے پروپیگنڈے کا جواب دینا کیسے ممکن ہے۔ ہمارے یہاں وزیر اپنے اپنے انداز سے ایسے معاملات پر موشگافیاں فرماتے رہے جن پر وزارت خارجہ کو ڈٹ کر دو ٹوک بیان دینا اور متبادل پالیسی اختیار کرنا چاہیے تھی۔ تمام ممالک میں سفارت خانے وزیر خارجہ کے احکامات پر ہی عمل کرتے ہیں۔

بھارت دہشت گردی پر ہماری بڑی حد تک کامیابی کے باوجود جو آئے دن منفی پروپیگنڈہ کرتا رہتا ہے تو سفارتی سطح پر ہماری جانب سے اس کا موثر جواب کیوں نہیں دیا جاتا؟ عملی سطح پر اس پروپیگنڈے کو غلط ثابت کرنا آخر کس کی ذمے داری ہے؟ بلاجواز سرحدی علاقوں پر دراندازی، فائرنگ سے شہادتوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، الٹا بھارت جوابی کارروائی پر بھی احتجاج کرتا ہے اور اتنا شور مچاتا ہے کہ پوری دنیا اس کی جانب متوجہ ہوجائے اور اس کی شرانگیزی اس شور میں دب جائے۔ یہ سب درست، ہر ایک کو عالمی سطح پر اپنا قد بڑھانے کا اختیار ہے، یہ حق ہمیں بھی حاصل ہے، مگر کیا ہمیں اپنے مفادات و مقاصد کے حصول کے لیے منصوبہ بندی سے کسی نے روکا ہوا ہے؟

دشمن کتنا بھی طاقتور، ہوشیار ہو، اس سے بہرحال مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ تاریخ میں ایسے کارناموں کا تذکرہ ملتا ہے جب اسلحہ اور افراد میں کمی کے باوجود اپنے سے کئی گنا طاقتور دشمن پر فتح حاصل کی گئی، اپنے جذبے اور حکمت عملی کے باعث یعنی بیرونی سازشوں کو مختلف اقدام اور حکمت عملی کے باعث ناکام بنانا بڑی حد تک ممکن ہے۔ بڑی بڑی افواج کو اندرونی دشمنوں اور سازشی عناصر کے باعث ہی شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے، یعنی جب ملک کے اندر خود ملکی مفادات پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو اندر سے کھوکھلا کرنے پر کچھ عناصر کمربستہ ہوں تو ملک کا دفاع اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ہم خود اپنے ملک میں پناہ گزین ہیں، اور مفاد پرست عناصر ہی اس کے مالک و مختار ہیں، اکثریت چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے۔ جوں جوں 2018 کے انتخابات قریب آتے جا رہے ہیں، ملک میں افراتفری پھیلاکر اپنے مقاصد کا حصول ممکن بنانے کی کوششیں بھی عروج پر ہیں۔

چار چھ افراد پر مشتمل نام نہاد پارٹیاں بھی اقتدار میں آنے کے خواب دیکھ رہی ہیں۔ شدت پسند مذہبی عناصر سادہ لوح افراد کو ان کی سیاسی لاعلمی اور مذہبی کم علمی کے باعث ان کے دینی جذبات کو ابھار کر حکومت کے خلاف دھرنے، ریلیاں، مظاہرے، جلاؤ گھیراؤ سے ملک کو اندرونی طور پر بدنظمی کا شکار کرکے جو نقصان پہنچا رہے ہیں وہ نقصان بیرونی سازشوں سے بھی بڑھ کر ہے اور تو اور حکمران اپنی حکومت بچانے کے لیے ملک کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ ملک کے تمام اہم ادارے اپنے معاملات کے سوا باقی ہر معاملے میں بے حد فعال ہیں، لہٰذا کوئی ادارہ بھی اپنے فرائض دلجمعی سے ادا کرنے سے قاصر ہے۔ دارالحکومت کا گھیراؤ کرکے دنیا کو باقاعدہ مطلع کیا جارہا ہے کہ ہمارا حکومتی ڈھانچہ اتنا کمزور ہے کہ چند ہزار خواندہ و ناخواندہ افراد اس کا سارا نظام درہم وبرہم کرسکتے ہیں۔

مذہبی عناصر جو قیام پاکستان کے کانگریس سے بھی زیادہ مخالف تھے آج وہ اس ملک کے والی و وارث بن گئے ہیں۔ تمام مذہبی جماعتیں دین کی خدمت سے زیادہ سیاست میں سرگرم ہیں، اب چاہے وہ چند سو یا چند ہزار ہی کا گروہ کیوں نہ ہو، خوش گمانی یہی ہے کہ جب ہم اقتدار میں آئیں گے تو یہ کریں گے وہ کریں گے۔ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں 2018 کے انتخابات میں بھرپور کامیابی کی دعویدار ہیں، ایک پارٹی تو سوائے کسی شہر میں ہر روز ''عظیم الشان'' جلسے کرنے کے سوا اور کوئی کام کر ہی نہیں رہی ہے اور ان جلسوں میں ملک و عوام کی بہتری کا دور دور ذکر نہیں، البتہ تمام مخالفین میں دنیا کی ہر برائی ہر عیب ثابت کرنا ہی مقاصد اولین ہے۔ جو ملک پر ایک بار نہیں کئی بار جھاڑو پھیر چکے ہیں وہ بھی گنگا اشنان کرکے ازسرنو ملک کی باقی ماندہ صفائی پر کمربستہ ہوچکے ہیں اور اعلانیہ طور پر انتخابات مکمل طور پر جیتنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔

ہوس اقتدار نے ان سب کو اس قدر مضطرب کر رکھا ہے کہ چند ماہ کا انتظار بھی ممکن نہیں کہ انتخابات اپنے مقررہ وقت پر پرسکون ماحول میں ہوجائیں، تاکہ متفقہ نتائج سامنے آئیں اور جمہوریت چند قدم آگے بڑھ سکے (مگر یہی تو یہ عناصر نہیں چاہتے) بے صبری کا عالم یہ ہے کہ قبل ازوقت انتخابات کے لیے حکومت کو گرانے یا کام نہ کرنے دینے کے لیے جس کا جی چاہتا ہے اہم مقامات پر دھرنا دے کر بیٹھ جاتا ہے۔

دین اور اہل وطن کی خدمت کا مقدس کام چھوڑ کر ہر کوئی وزیراعظم بننے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ حالانکہ وزیراعظم بے چارہ تو ہر وقت مخالفت اور الزامات کی زد پر رہتا ہے۔ یہ بات وہ خوب جانتے ہیں کہ اقتدار انھیں نہیں ملے گا مگر حصول اقتدار کی آڑ میں جو ان کا ایجنڈا ہے وہ پورا ہوجائے گا، دنیا کو یہ ضرور باور کرادیا جائے گا کہ ملک و حکومت بے حد کمزور ہیں، چند افراد اس کو یرغمال بناسکتے ہیں، تو عالمی طاقتیں جو کچھ اس کے ساتھ کرنا چاہتی ہیں باآسانی کرسکتی ہیں، بس وہ آگے بڑھیں، اندر سے ہم ان کا ساتھ دینے کو موجود ہیں۔ یوں ان کی قیام پاکستان کی مخالفت طشت از بام ہوچکی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں