لازوال دھنوں کا خالق موسیقار خیام

موسیقار خیام کی پہلی اردو فلم ’’فٹ پاتھ‘‘ ان کے نئے نام سے تھی اور اب یہ شرما جی سے موسیقار خیام بن چکے تھے۔


یونس ہمدم December 15, 2017
[email protected]

ہدایت کار ضیا سرحدی نہ صرف ایک بہترین ہدایت کار تھے اور بمبئی کی فلم انڈسٹری میں ان کا بڑا نام تھا، وہ ابتدا میں انڈیا کے نامور فلمساز و ہدایت کار محبوب کی پروڈکشن سے وابستہ رہ چکے تھے، یہ وہی ہدایت کار محبوب تھے جنھیں ان کی فلم ''مدر انڈیا'' نے لازوال شہرت عطا کی تھی۔

ضیا سرحدی شاعر بھی تھے اور انھوں نے فلموں کے لیے گیت بھی لکھے تھے۔ موسیقار خیام کی پہلی اردو فلم ''فٹ پاتھ'' ان کے نئے نام سے تھی اور اب یہ شرما جی سے موسیقار خیام بن چکے تھے، یہ 1953 کا زمانہ تھا۔ فلم ''فٹ پاتھ'' کے لیے شاعر مجروح سلطان پوری نے ایک گیت لکھا تھا اور اس گیت کو موسیقار خیام نے اس وقت کے نامور گلوکار اور غزل سنگر طلعت محمود سے گوایا تھا۔ گیت کے بول تھے:

شام غم کی قسم آج غمگیں ہیں ہم
آ بھی جا آ بھی جا آج میرے صنم

دل پریشان ہے رات ویران ہے
دیکھ جا کس طرح آج تنہا ہیں ہم

یہ خوبصورت اور درد میں ڈوبا ہوا گیت دلیپ کمار پر فلمایا گیا تھا اور پھر گیت کی دھن کے ساتھ ساتھ دلیپ کمار کی اداکاری نے اس گیت کو بڑی شہرت بخشی تھی۔ فلم ''فٹ پاتھ'' کی موسیقی کے بعد موسیقار خیام لائم لائٹ میں آگئے تھے۔ مذکورہ فلم میں مجروح سلطان پوری کے ساتھ علی سردار جعفری نے بھی گیت لکھے تھے۔ حالانکہ ضیا سرحدی خود بہت اچھے شاعر تھے اور انھوں نے جب ہدایت کار محبوب کی فلم ''اعلان'' کا اسکرپٹ لکھا تھا تو ہدایت کار محبوب کو پروگریسیو انداز کا ایک گیت چاہیے تھا۔ کئی شاعروں کو سچویشن سنائی گئی مگر کوئی بھی شاعر محبوب کے معیار پر پورا نہ اترا تھا، پھر انھوں نے اسکرپٹ رائٹر ضیا سرحدی سے کہا تم بھی شاعر ہو ایک ترانہ لکھ کر دو ۔ پھر خاص طور پر ضیا سرحدی نے ایک ترانہ لکھا تھا جس کے بول تھے:

انسان کی تہذیب پہ احسان ہمارا۔۔۔ احسان ہمارا

چند ایک فلموں میں گیت نگاری کے بعد ضیا سرحدی نے پھر اپنی تمام تر توجہ اسکرپٹ اور ہدایت کاری کی طرف مبذول کردی تھی۔ اب میں پھر موسیقار خیام کی طرف آتا ہوں۔ فلم ''فٹ پاتھ'' بزنس کے اعتبار سے بہت زیادہ کامیاب نہیں ہوسکی تھی، مگر موسیقار خیام کی شہرت کا سفر شروع ہوگیا تھا۔ اور فلم ''پھر صبح ہوگی'' کی موسیقی نے موسیقار خیام کو بڑا عروج دیا تھا۔

اس کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ ''پھر صبح ہوگی'' کے ہدایت کار رمیش سہگل کو جب راج کپور پروڈکشن کے آفس میں موسیقار خیام نے اپنی چند دھنیں سنائیں جو ڈمی بولوں پر بنائی گئی تھیں تو رمیش سہگل کچھ دیر کے لیے ان دھنوں میں کھو گئے تھے، پھر وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور آگے بڑھ کر موسیقار خیام کا ماتھا چوما اور کہا ارے بھئی! اب تک تم کہاں تھے ہمیں کیوں نہیں ملے۔ پھر خیام نے ان کی فلم ''پھر صبح ہوگی'' کی موسیقی دی تھی، تو اس فلم کے ہر گیت نے سارے ہندوستان میں اپنی دھاک بٹھا دی تھی ۔ ''پھر صبح ہوگی'' کے سارے گیت شاعر ساحر لدھیانوی نے لکھے تھے۔ یوں تو فلم کے گیتوں کی تمام دھنیں خوب تھیں مگر فلم کا تھیم سانگ اور اس کی موسیقی اپنا جواب آپ تھی۔

تھیم سانگ کے بول کچھ یوں تھے:

جب دکھ کے بادل پگھلیں گے
جب سکھ کے ساغر چھلکیں گے

جب دھرتی نغمے گائے گی
وہ صبح کبھی تو آئے گی

اور اسی فلم کا ایک اور گیت جس میں ادب کا رنگ بھی نمایاں تھا اور جس کی موسیقی بھی خیام نے کیا خوب دی تھی۔ گیت کے بول تھے:

پھر نہ کیجیے مری گستاخی نگاہی کا گلہ
دیکھیے آپ نے پھر پیار سے دیکھا مجھ کو

فلم ''پھر صبح ہوگی'' کی بے مثال کامیابی نے موسیقار خیام کو ایک دم سے صف اول کے موسیقاروں میں کھڑا کردیا تھا۔ اور موسیقار خیام معروف ترین موسیقار ہوگئے تھے، اور پھر خیام کی یہ خوش قسمتی کہ انھیں ساحر لدھیانوی، جاں نثار اختر، کیفی اعظمیٰ، مجروح سلطان پوری اور ندا فاضلی جیسے شاعروں کا ساتھ میسر آیا۔ موسیقار خیام نے فلم ''شگون'' سے لے کر فلم ''سلسلہ'' اور فلم ''رضیہ سلطان'' سے لے کر فلم ''کبھی کبھی'' تک ان گنت فلموں کی موسیقی دی اور ایسے ایسے گیت منظر عام پر آئے جو دل میں اترتے چلے گئے تھے۔ ان گیتوں میں جہاں ادب تھا وہاں موسیقی کا حسن بھی اپنی مثال آپ تھا، جیسے چند مندرجہ ذیل گیت جو لازوال گیتوں کا درجہ رکھتے ہیں:

٭ اے دلِ ناداں، آرزو کیا ہے، جستجو کیا

٭ یہ کیا جگہ ہے دوستو یہ کون سا دیار ہے

٭ دکھائی دیے یوں کہ بے خود کیا

٭ دل چیز کیا ہے آپ میری جان لیجیے

٭ ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں

٭ جلتا ہے بدن پیاس بھڑکی ہے سرِ شام سے جلتا ہے بدن

٭ کبھی کبھی مرے دل میں خیال آتا ہے

٭ میں پل دو پل کا شاعر ہوں، پل دو پل میری جوانی ہے

ویسے تو اور بھی بہت سے ہٹ گیت ہیں، مگر یہاں میں ایک اور ایسے گیت کا تذکرہ کروں گا جو لکھا تھا ساحر لدھیانوی نے اور گایا تھا ایک سکھ گلوکارہ جگجیت کور نے اور فلم تھی ''شگون''۔ گیت کے بول تھے:

تم اپنے رنج و غم ساری پریشانی مجھے دے دو
تمہیں ان کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو

اور پھر ہوا یوں کہ جگجیت کور نے موسیقار خیام کی ساری پریشانیاں اپنے دامن میں بھرلی تھیں۔ جگجیت کور خیام کی شریک زندگی بن چکی تھی اور پھر نہ صرف گھریلو زندگی میں بلکہ موسیقی کے شعبے میں بھی جگجیت کور نے خیام کا آدھا کام بانٹ لیا تھا، اور دونوں ایک دوسرے کے درد و غم بھی بانٹ رہے تھے اور سروں کی مالا بھی ایک دوسرے کو پہنا رہے تھے۔

جگجیت کور موسیقار خیام کی اسسٹنٹ بھی بن چکی تھیں اور کئی فلموں میں دونوں کی صلاحیتوں کا نچوڑ منظر عام پر آیا تھا۔ ''شگون'' کے ساتھ شعلہ و شبنم، بازار، آخری خط اور کبھی کبھی کی لازوال دھنیں موسیقار خیام کی زندگی کا قیمتی سرمایہ تھیں اور ان فلموں میں گیتوں کے ساتھ گیتوں کی سحر انگیزموسیقی نے بھی بڑی دھوم مچائی تھی۔ موسیقار خیام کو کئی فلموں میں فلم فیئر ایوارڈز کے ساتھ ساتھ نیشنل ایوارڈ اور 2010 میں لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔

میری بھی موسیقار خیام سے ایک یادگار ملاقات رہی تھی۔ جب وہ پاکستان آئے تھے، وہ کراچی میں اپسرا اپارٹمنٹ میں اپنے چھوٹے بھائی کے گھر ٹھہرے تھے۔ اپنی بیوی جگجیت کور اور نوعمر بیٹے کے ساتھ آئے تھے۔ میں نے اس ملاقات میں انھیں اپنی چند غزلیں سنائی تھیں، جنھیں سن کر انھوں نے کہا تھا آپ کو ہمدم صاحب ایک چکر بمبئی کا ضرور لگانا چاہیے۔ آپ کی غزلوں میں بھی بڑی جان اور نغمگی ہے۔

اور پھر پاکستان فلم انڈسٹری کے شاعر ہندوستان کی فلم انڈسٹری کے لیے کافی کچھ لکھتے رہتے ہیں، بس ایک بار ہمت کرکے کچھ عرصہ بمبئی میں آپ بھی ٹک جائیں تو آپ کے لیے بھی وہاں راہیں کھل سکتی ہیں۔ انھوں نے میری شاعری کو بھی بڑا سراہا تھا۔ پھر انھوں نے اپنے بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اس بچے کی خواہش ہے کہ یہ فلموں میں کام کرے میری طرف سے اسے اجازت ہے، بس میں یہ چاہتا ہوں کہ پہلے یہ اپنی تعلیم کی طرف توجہ دے پھر فلمی دنیا میں آنے کا سوچے۔ پھر جب خیام واپس بمبئی گئے تو کچھ عرصے بعد ان کے بیٹے پردیپ خیام نے فلم ''جان وفا'' میں ہیرو کا کردار ادا کیا تھا، اس کے ساتھ ہیروئن رتی اگنی ہوتری تھی۔

مگر پھر قسمت کی ستم ظریفی یہ ہوئی کہ 2012 میں خیام کے بیٹے پردیپ کا عین جوانی ہی میں ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا تھا۔ اور موسیقار خیام کی زندگی میں اندھیرے چھا گئے تھے۔ بڑی مشکل سے وہ دوبارہ سے اس قابل ہوئے تھے کہ نارمل زندگی گزار سکیں۔ خیام جیسے عظیم موسیقار انڈین فلم انڈسٹری میں بہت کم آئے ہیں۔ موسیقار خیام نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد ایک ٹرسٹ قائم کیا جس میں اپنی تمام آمدنی ٹرسٹ کو دے دی تھی جو آرٹسٹوں اور فنکاروں کی بہبود کے کام میں آج بھی استعمال ہو رہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔