نظامِ تعلیم کب آزاد ہوگا
مذہب کو علم اور ترقی کے راستے کی دیوار قرار دے کر اسے مذہبی اداروں میں محصور کردیا گیا۔
PESHAWAR:
ابتداء میں مدارس اعلیٰ تعلیم کے ادارے بھی ہوا کرتے تھے جہاں قانون، علوم اسلامی اور فلسفے کی تعلیم دی جاتی تھی۔ انگریز کی آمد سے قبل ہندؤںاور مسلمانوںکے روایتی مکاتب میں ہی انھیں مذہبی اور دنیاوی دونوں طرح کی تعلیم دینے کا رواج تھا۔ مدرسوں میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تفسیر، منطق، کلام، حکمت و فلسفہ کی تدریس ہوتی۔ اس کے علاوہ بعض مدارس میں ریاضی، فلکیات اور طب کے مضامین بھی پڑھائے جاتے تھے۔ ہندو اپنے مکاتب اور پنتھ شالاؤں میں مذہبی تعلیم کے ساتھ دیگر علوم بھی حاصل کرتے۔
ایسٹ انڈیا کمپنی نے کنگ جارج سوئم کی جانب سے 1813ء میں جاری کردہ چارٹر کے بعد تعلیم کی جانب توجہ دی، جس میں اسے تعلیم پر مالی وسائل خرچ کرنے کا پابند بھی بنایا گیا تھا۔ کمپنی کے ابتدائی نمایندوں نے عربی، فارسی اور سنسکرت میں دی جانے والی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا، لیکن 1835ء میں لارڈ میکالے کے تحریر کردہ ''میکالے منٹ'' آنے کے بعد میکالے نے فارسی کی جگہ انگریزی رائج کی۔
مذہبی اور غیر مذہبی تعلیم کی تفریق پیدا کی گئی اور برطانوی راج کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے تعلیمی پالیسی تشکیل دی جس میں ہندوستانی زبانوں اور علمی روایت کو پست تر دکھایا گیا اور انگریزی کی بالادستی قائم کرنے کے لیے نوآبادیاتی ''احکامات'' کی زبان بھی انگریزی رکھی گئی۔ ان اقدامات کا مقصد تھا ''ایک ایسے طبقے کی تشکیل تھا جو انگریز اور لاکھوں محکوموں کے مابین ترجمان کا کردار ادا کرے، یہ طبقہ رنگ و نسل کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہو لیکن اپنے ذوق، رائے اور اخلاق میں انگریز۔۔۔''
مذہب کو علم اور ترقی کے راستے کی دیوار قرار دے کر اسے مذہبی اداروں میں محصور کردیا گیا۔ آج مدرسہ ایک اسلامی مذہبی تعلیمی ادارہ بن کر رہ گیا جہاں نو دس برس یا اس سے بھی کم عمر طلبا مذہبی تعلیم حاصل کرنے جاتے ہیں۔ انھیں پہلے اسکول کی تعلیم دی جاتی ہے جس میں وہ پڑھنا لکھنا سیکھتے ہیں اور پھر مذہبی علوم کی۔
ابتداء میں مدارس مساجد ہی کا حصہ تھے، اب الگ ادارے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ جب کہ تعلیمی اقدار میں ہمدردی اور خیر کی روح کے ساتھ شخصیت و کردار کی تعمیر، تہذیبی اور سماجی اقدار سے روشناسی اور مذہبی اصولوں کی بنیاد پر قومی کلچر و روایات کے فروغ جیسے عناصر شامل تھے، اب اس کا دامن ان تمام خصوصیات سے خالی ہے یہ تعلیم محض ''احکامات'' تک محدود ہوچکی ہے۔
سلطنت عثمانیہ میں ''تنظیمات'' کے عنوان سے شروع ہونے والے اصلاحاتی دور میں جو نظام تعلیم تشکیل دیا گیا اس کی بنیاد جدید خطوط پر رکھی گئی۔ یکم ستمبر 1869ء کو جاری ہونے والے عمومی تعلیمی ضوابط میں ابتدائی یا ثانوی تعلیم سے متعلق احکامات جاری کیے گئے۔ اس میں اساتذہ کی بھرتی وغیرہ جیسے امور کے ساتھ پوری سلطنت میں تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات بیان کیے گئے۔
ابتدائی تعلیم لازمی قرار دی گئی اور اس کے لیے چار سالہ تعلیم (صبیان/ابتدائیہ) اسکول کا نظام بنایا گیا۔ اس کے بعد اپر پرائمری تعلیم کے لیے (رشدیہ) اسکول بنائے گئے۔ تین سالہ لوئر سیکینڈری اسکول (اعدادیہ)، تین سال کے لیے اعلیٰ ثانوی تعلیم (سلطانیہ)اسکول اور اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے اسکول(عالیہ) بنائے گئے۔ صبیان مکاتب میں حروف تہجی کی شناخت، خوش خطی، حساب کتاب اور عثمانی تاریخ کی تعلیم دی جاتی تھی۔یہاں داخلے کی عمر تین برس تھی اور چار برس مکمل ہونے کے بعد امتحانات لیے جاتے۔
صبیان درجے کے ادارے مخیر حضرات کے تعاون سے چلائے جاتے تھے اور ہر قصبے، شہر اور گاؤں میں ایسے ادارے قائم تھے۔صبیان مکاتب کی کئی خصوصیات آج بھی تعلیمی نظام میں موجود ہیں جیسے مخلوط تعلیم، غریب طلبا کو کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کی اشیاء کی فراہمی، تعلیم کے آغاز پر ''امین پریڈ'' جس کی اس سے پہلے مثال نہیں ملتی تھی، موسیقی اور فن قرأت کے ساتھ ساتھ ذہین طلبہ کو سائنس کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں بھیج دیا جاتا، طلبا کو اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کی آزادی تھی طلبا و طالبات میں برداشت کے کلچر کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس کے بعد ''رشدیہ'' کے درجہ میں جیومیٹری اور اگلے مرحلے کے مضامین پڑھائے جاتے اور قرآن بھی حفظ کروایا جاتا تھا۔
''اعدادیہ'' کے درجے میں طلبا سماجی یا سائنسی علوم میں مزید اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے اور اس کے بعد (کالج کے فرانسیسی ماڈل سے قریب تر) ''سلطانیہ'' میں سماجی و سائنسی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس نظام میں ''مکاتب عالیہ'' اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے ہوا کرتے تھے۔
پاکستان میں مدارس عام طور پر خیراتی اداروں کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوتے ہیں اور انھیں ٹیکس سے بھی استثنا حاصل ہوتا ہے۔ پسماندہ اور محروم طبقات کے لیے یہ مدارس غنیمت ہیں کیونکہ یہاں ان کے بچوں کو بلا معاوضہ کھانے پینے، تعلیم اور رہائش دستیاب ہیں۔ انھیں مستقبل میں روزگار کی بھی آس ہے جب کہ سرکاری اسکول کئی علاقوں میں وجود ہی نہیں رکھتے۔ شہریوں میں ملک کے ساتھ مخلصانہ تعلق استوار کرنے کے لیے نظام تعلیم کی ضرورت کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔
ہمارا پبلک سروس کمیشن آج بھی امیدواروں سے برطانوی تاریخ کی مضحکہ خیز تفصیلات تک ازبر ہونے کا مطالبہ کرتا ہے اور میکالے کی روح زندہ رکھے ہوئے ہے۔ مدارس میں اصلاحات کے سلسلے میں کوئی کامیابی نہیںکی ہوئی۔ مدارس میں طلبہ کی بڑھتی ہوئی تعداد کے مطابق تیس برس قبل سات ہزار پاکستانی بچے مدارس میں زیر تعلیم تھے اور آج یہ تعداد بیس لاکھ سے متجاوز ہے۔
چند خاص مدارس میں مخالف مذہبی گروہوں کے خلاف متشددانہ تشریحات اورعسکریت پسندی کا دفاع کرنے والے پمفلٹ نصاب میں شامل ہیں۔
2009ء میں ایک تحقیق کے مطابق 18فی صد مدارس بعض فرقہ ورانہ تنظیموں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس تحقیق میں پاکستانی مدارس اور شدت پسندی و فرقہ وارانہ منافرت کے مابین پریشان کُن ربط کی نشاندہی بھی کی گئی۔ یہ بات بھی درست ہے کہ مدارس کی اکثریت، نفرت انگیز سرگرمیوں سے دور ہے لیکن وہیں یہ اکثریت مطلوبہ معیاری تعلیم فراہم کرنے میں بھی کام یاب نہیں۔ البتہ صرف مدارس کو جہادی فکر کے فروغ کے لیے مطعون کرنا خلاف انصاف ہے۔
حال ہی میں کوئٹہ میں ہونے والے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جنرل قمر باوجوہ نے اس بات پر فکر مندی کا اظہار کیا کہ مدارس کی تعلیم صرف مذہب تک محدود ہے، انھوں نے مدارس کے نصاب میں بہتری لانے کی تجویز پر بھی زور دیا۔ تعلیم چاہے مذہبی ہو یا سیکیولر، طلبا میں تعمیرِ شخصیت کا اہم ترین پہلوہمارے ہاں مسلسل نظر انداز کیا جا رہا ہے، جس پر نظر ثانی کی اشد ضرورت ہے۔ تعلیم کے یکساں مواقع کی فراہمی اور جدید علوم کے ذریعے طلبا کو بہتر انسان بنانے کے لیے اقدامات آج پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہو چکے ہیں۔
(فاضل مصنف دفاعی اور سیکیورٹی امور کے تجزیہ کار ہیں)