بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔


جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

کرکٹ کارنر

مصنف: سلیم خالق
صفحات:288، قیمت:1000روپے

کرکٹ کے موضوع پر تحریر سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ یہ کھیل کی تیکنیک، تجزیے اور اعدادوشمار کے بیان پر محیط ہوگی، مگر تمثیلی ابتدائیے، رواں اسلوب اور تحریر پر گرفت اس کتاب میں عام قاری کے لیے کشش پیدا کرتی ہے۔ کالموں کی اس کتاب میں کرکٹ سے جڑے دیگر ہلکے پھلکے امور بھی شامل ہیں، 22 سالہ صحافت میں چوں کہ فیچر بھی مصنف کا میدان رہا، اس لیے کالموں میں یہ رنگ بھی نمایاں دکھائی دیتا ہے۔

سلیم خالق 'ایکسپریس' میں 2004ء سے کالم لکھ رہے ہیں، کالموں کا ایک مجموعہ 'کرکٹ کارنر' کے عنوان سے منصۂ شہود پر آچکا ہے، زیرتبصرہ کتاب اس سلسلے کی دوسری کتاب ہے، جس میں ان کے اگست 2016ء تا ستمبر 2017ء کے کالم شامل ہیں۔ ثقلین مشتاق کہتے ہیں کہ'' سلیم خالق بے خوف ہو کر سچ لکھتے ہیں۔'' سلیم خالق کے اِن کالموں میں کرکٹ بورڈ کے امور بھی زیربحث آتے ہیں، وہ کرکٹ میں کسی وائرس کی طرح سرائیت کرتی میچ فکسنگ پر کھل کر بات کرتے ہیں، تو کھلاڑیوں کے چناؤ اور ان کے برتاؤ پر بھی ببانگ دہل رائے دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر یہ اُن کی ساتویں تصنیف ہے۔ سیاہ سفید تصاویر سے سجی، چکنے کاغذ پر بڑھیا طباعت سے آراستہ اس مجلد کتاب میں کرکٹ سے دل چسپی رکھنے والے قارئین کو ایک بھرپور نقطۂ نظر ملتا ہے۔

اجرا(کتابی سلسلہ25)
مدیر: اقبال خورشید
صفحات:403، قیمت:500 روپے
ناشر: بیانڈ ٹائم پبلی کیشنز، کراچی
بانی مدیر 'اجرا' احسن سلیم کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد یہ اس کتابی سلسلے کا دوسرا پرچا ہے، جو کہ سلور جوبلی نمبر ہے۔ یہ خوش آیند امر ہے کہ اُن کے بعد بھی اس ادبی سلسلے کو جاری رکھا گیا ہے۔ زیرتبصرہ پرچے میں صرف شعروسخن اور نثری نگارشات ہی نہیں، بلکہ مختلف ادبی اصناف، نظریات اور شخصیات پر بھی مضامین شامل ہیں۔ 'خیابان خیال' میں اداریے درج ہیں۔۔۔ 'نشاط باریابی' کے عنوان تلے حمد ونعت سجی ہیں، 'موضوع سخن' میں ادبی مباحث لیے گئے ہیں۔۔۔ 'اشاعت خصوصی' میں معروف ادیب انتظار حسین پر مستنصرحسین تارڑ کا مضمون جگمگا رہا ہے۔۔۔ 'کہانی سے مکالمہ' میں اقبال خورشید کا شکیل عادل زادہ سے خصوصی مکالمہ شامل ہے۔

ایک گوشہ 'مشرق ومغرب' کا ہے، جس میں پانچ ترجمے اردو کے قارئین کے منتظر ہیں۔۔۔ 'فلک آثار' میں ہائیکو اور نظمیں ہیں۔۔۔ 'نافۂ نایاب' میں یادوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔۔۔ 'خرد افروزیاں' میں علمی وفکری مضامین رقم ہیں۔۔۔ جب کہ 'سخن سخن' میں 26 غزلیں منصۂ شہود پہ آئی ہیں۔ سو لفظوں کی کہانیوں میں مبشر علی زیدی کی مسترد شدہ کہانیوں کو 'قبول' کیا گیا ہے، دیگر گوشوں میں گوشۂ احسن سلیم، وسعت بیاں، حرکت فکر اسلامی فی الہند، اور دل آویزیاں شامل ہیں۔ گویا تفصیل سے ادبی لوازمات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جہاں بہت سے لکھنے پڑھنے والے اپنے رشحات قلم سے اس پرچے کی زینت ہیں، تو وہیں بہت سے اہل علم وادب کی نئی تصنایف کو مشتہر کرنے کا بھی خاص اہتمام کیا گیا ہے۔ سید شہزاد مسعود کے تخلیقی سرورق پر اہم مندرجات کی سرخیاں دی گئی ہیں۔



منتخب سندھی کہانیاں
مترجم:شاہد حنائی
صفحات:223، قیمت:450 روپے
ناشر:فضلی بک سپر مارکیٹ، کراچی
یہ سماج سے جُڑی وہ زندہ کہانیاں ہیں، جنہیں نہایت خوبی سے ترجمہ کر کے اردر کے قارئین کی نذر کیا گیا ہے۔ ورق گردانی کے بعد بجا طور پر زاہدہ حنا کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں کہ ''پاکستانی زبانوں کے ادب کی تاریخ لکھی جائے گی، تو اس میں سب سے چوکھا رنگ سندھی ادب کا ہوگا۔'' مترجم شاہ حنائی لکھتے ہیں کہ میری تراجم کی پہلی کتاب ''شاہ کار سندھی کہانیاں'' کی اکثر کتھائیں مزاحمتی رنگ کی تھیں، جسے بہت سراہا گیا، گزشتہ تین دہائیوں کے دوران سندھی کہانی میں روایتی موضوعات سے ہٹ کر کہانی لکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔'

اس کتاب میں 23 قلم کاروں کی 30 کہانیاں اردو کے قالب میں ڈھالی گئی ہیں، جن میں بہت سی جگہوں پر بین السطور اِبلاغ کی پرتیں کھلتی ہیں اور الفاظ کاری ہوتے چلے جاتے ہیں۔ 'ایک شخص کے جنازے کے پیچھے' (آدرش) تعزیت کرنے والوں کی سوچوں کا بیان ہے۔۔۔ چاند کہاں ہے (اکبر لغاری) میں قاری کو ایک اور طرح دنیا کی نفسانفسی سے روشناس کرایا گیا ہے۔ اس کتاب کی اکثر کہانیوں میں علامت نگاری گہرے اِبلاغ کی حامل ہے۔ بہت سی کہانیاں گتھی ہوئی ہونے کی بنا پر شاید عام قاری تک اُس طرح اِبلاغ نہ کر پائے جس طرح ادب کے قارئین تک پہنچتی ہے، لیکن قرطاس ادب میں یقیناً ان کا مرتبہ بلند ہے۔

حاصل سفر
مصنف: سید ارتفاق علی
صفحات:95 ، قیمت: درج نہیں
ناشر: سید ارتفاق علی
اس مختصر کتاب میں آزاد اور پابند نظموں کے علاوہ کچھ قطعات بھی شامل ہیں۔ جن میں حمدونعت کے ساتھ دھرتی سے محبت کا اظہار بھی ہے اور جمہور کے درد کا بیان بھی۔ اکثر کلام پر کوئی عنوان دیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی سرخی، تب ہی شاید مشمولات کی فہرست بھی مرتب نہیں کی گئی، ورق گردانی کرتے ہوئے اس کی خاصی کمی محسوس ہوتی ہے۔ مصنف 1990ء تا 1994ء جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ رہے۔

یہ شعروسخن کی دنیا میں اُن کی پہلی کاوش ہے، بہت سے کلام کے آخر میں اس کا تاریخ اظہار بھی درج کیا گیا ہے، جس سے معلوم چلتا ہے کہ وہ وقتاً فوقتاً اس میدان میں طبع آزمائی کرتے رہے، جسے اب انہوں نے قارئین تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔ پیش لفظ میں مصنف ڈاکٹر اسلم فرخی اور ڈاکٹر یونس حسنی کی حوصلہ افزائی کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ مختار اجمیری کے بھی شکر گزار ہیں، جنہوں نے کلام کی ضروری اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔

راہ وصل
مصنف: فضا بلوچ
صفحات:171، قیمت:300روپے
ناشر: فرید پبلشر، کراچی
یہ 'راہ وصل' دراصل براستہ ہجر ہے۔۔۔ نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی یہ کہانی یوں تو ایک محبت کی کتھا ہے، لیکن اس کے پیچ وخم کے بعد اس کا نصف آخر اسے دیگر پریم کہانیوں سے زیادہ متاثر کُن اور منفرد بناتا ہے۔ اس ناول میں سلمان کی متلاشی 'جنت' کے اپنی مراد پانے کا احاطہ کیا گیا ہے۔۔۔ کہانی میں بہت سے موڑ آتے ہیں، مگر کوئی راہ اس سمت نہیں جاتی، جسے عام لحاظ سے وصل قرار دیا جا سکے۔۔۔ اگرچہ محبت کی آس دو طرفہ ہو جاتی ہے، مگر الجھنیں اور رکاوٹیں آڑے ہیں۔۔۔

دھیرے دھیرے جنت، سلمان کی ایسی 'موجودگی' کی قائل ہوجاتی ہے، جسے دنیا کی زبان میں 'شیزوفرینیا' کے نام سے جانا جاتا ہے، پھر وہ اسی پر قانع ہو جاتی ہے، مگر کچھ اس طرح کہ اپنے نام کے ساتھ اپنے محبوب کا لاحقہ نتھی کر لیا اور زندگی کے اس لاحقے کی نذر اپنے آخری نامے میں لکھتی ہے کہ ''میں نے تمہیں کھو کر بھی پا لیا ہے، مجھے بھلا اور کیا چاہیے، مجھے تم وہاں بھی یاد رہو گے۔'' رومان کی یہ داستان تشنگیوں میں سفر کرتے ہوئے یوں تمام ہوتی ہے کہ جنون اپنی چاہ کے ہجر میں وصل کی راہ تلاش کر صابر ہو جاتی ہے اور کہتی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے لیے کیا سوچ رہے ہوتے ہیں اور مالک نے ہمارے لیے کیا لکھا ہوا ہوتا ہے۔

سرسید کا تصور ثقافت
مصنف: پروفیسر ابوسفیان اصلاحی
صفحات:256، قیمت:350
ناشر: سرسیدیونیورسٹی، کراچی
جدید سیاسی تاریخ میں جب مسلمانان ہند کا تذکرہ ہوگا، اس میں سرسید احمد خان سب سے نمایاں دکھائی دیں گے۔ وہ صرف میدان دینی و ملی کے ہی شہ سوار نہیں، بلکہ سیاست، تعلیم اور ادب وصحافت سے ثقافت تک پر ان کے اثرات نمایاں ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب سرسید احمد خان کے صد سالہ پیدائش کے سلسلے میں شایع ہوئی ہے، وہی صد سالہ پیدائش جس کی سُن گُن اس ریاست خداداد میں ذرا کم کم ہی سنائی دی۔۔۔ لیکن جتنا بھی ہوا اُس کا اعتراف بھی واجب ہے۔

جب سرسید کے ہاں ثقافت کے تصور پر بات کی جاتی ہے تو وہ عام طور پر سب سے نمایاں ثقافتی عناصر سمجھی جانے والی زبان ولباس سے بہت بڑھ کر ہمہ جہت ہو جاتا ہے اور عمرانیات کی اس تعریف میں شامل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے کہ ثقافت سے مراد ہر وہ چیز یا عمل ہے جو انسان نے اپنے لیے بنائی۔ پھر کتاب کے مصنف خود سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ عربی کے معلم ہیں، جس سے یہ کتاب اور بھی اہمیت کی حامل ہو جاتی ہے۔ کتاب میں تحقیقی حوالوں کو بھی جگہ دی گئی ہے، جو اس موضوع میں تحقیق سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے خاصے معاون ومددگار ثابت ہوتے ہیں۔



روداد ریل کی
مصنف: فضل الرحمن قاضی
صفحات:311، قیمت:670
ناشر:ایمل پبلی کیشنز،اسلام آباد
رومان وموسیقیت سے جدت تک، ہجر ووصل سے رنج والم کے سمے تک۔۔۔ سفر کے اس جدید ذریعے نے ہماری زندگیوں میں ایک عجب جگہ پائی ہے۔ کہنے کو یہ جدید وسیلۂ سفر ہے، مگر یہ کچھ اس سلیقے سے ہمارے روزوشب کا حصہ بنا کہ نہیں لگتا کہ کبھی اجنبی بھی رہا ہوگا۔۔۔ مصنف کے والد بھی اس محکمے سے منسلک رہے، اس لیے یہ ماحول ان کے ہوش سنبھالنے سے شعور کا حصہ رہا، اس کتاب میں وہ نہ صرف اپنی یادوں اور باتوں کو بیان کرتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ ریلوے کی تاریخ، ارتقا اور اس سے جُڑی دیگر معلومات بھی قارئین کو فراہم کرتے جاتے ہیں، پھر وہ خود بھی ریلوے کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس تعلق سے وہ اپنے مشاہدات اور تجربات بھی قارئین تک پہنچائے ہیں۔ بالخصوص ہمارے خطے میں ریلوے کی شروعات اور وسعت کے حوالے سے یہ کتاب خاصی اہم ہے، جو موجودہ صورت حال اور مسائل کا احاطہ کرتی ہے، کتاب میں بہت سی تصاویر بھی شامل ہیں، جن کے باقاعدہ ماخذ بھی مذکور کیے گئے ہیں۔

امّاں نامہ(مزاحیہ مضامین)
مصنفہ:نشاط یاسمین خان
صفحات:128، قیمت:300 روپے
ناشر:رنگ ادب پبلی کیشنز، کراچی
22مضامین پر استوار اس تصنیف کے پہلے مضمون کو کتاب کا عنوان کیا گیا ہے۔ زیادہ تر مندرجات گھرداری، رشتوں ناتوں اور سماجی ساجھے داری کے گرد گھومتے ہیں۔ 'ساس' کے زیر عنوان وہ اس امر کا خوب بیان کرتی ہیں کہ 'ساس کبھی ماں نہیں بن سکتی، 'انجمن قدردان اردو' کے خرچے پر شاعرات کے ملکوں ملکوں مشاعرے پڑھنے کے ماجرے کو مزاحیہ پیرائے میں بیان کیا، مگر حقیقت سے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔

آخری حصے میں مصنفہ کے قلم کی روانی خواب واضح ہو جاتی ہے اور وہ مزاح کے ذیل میں طنز کے گہرے نشتر لگاتی ہیں۔ جس میں دراصل سماجی منافقت کا پردہ چاک ہوتا ہے۔ مصنفہ کے اس سے قبل ایک ناول اور دو افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ مزاح کے میدان میں یہ اُن کی پہلی کاوش ہے، جس میں بطور خاتون خانہ سماجی رکھ رکھاؤ کا اپنی نوک قلم پر پوسٹ مارٹم کرتی ہیں۔ شاعر علی شاعر لکھتے ہیں کہ اگر وہ سنجیدگی سے مزاح لکھیں، تو ملک کی نمائندہ خاتون مزاح نگار بن سکتی ہیں۔

شہدائے وطن
مصنف: اعظم معراج،
صفحات:127، قیمت:290 روپے
ناشر: معراج پبلی کیشنز، کراچی
یہ کتاب 'شناخت نامہ' کے ایک باب سے مرتب کی گئی ہے، جس کا مقصد مڈل اور سیکینڈری اسکول کے طالب علموں کو ملکی سپاہ کی جانب سے جان نچھاور کرنے والے مسیحیوں سے متعلق آگاہ کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے سوال نامے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب میں شامل وطن پر جان نچھاور کرنے والے 70 مسیحیوں میں سے 58 کا تعلق زمینی فوج سے ہے، اس میں بحریہ کے آٹھ اور فضائیہ کے چار سپاہی شامل ہیں۔ اس میں بہت سے سپاہیوں کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان کے حوالے سے لواحقین کی یادیں اور باتیں بھی شامل کی گئی ہیں۔ کتاب کے مصنف یوں تو ریئل اسٹیٹ کے پیشے سے وابستہ ہیں، لیکن جب انہوں نے سماج میں مسیحی برادری کی بے گانگی پائی، تو اسے دور کرنے کے لیے کمر کس لی۔ اس میدان میں انہوں نے نہ صرف براہ راست مکالمہ شروع کیا، بلکہ خود مشقت کرتے ہوئے ایسی کتابیں مرتب کیں، جس کی نظیر اس سے پہلے دکھائی نہیں دیتی۔



میں بس اک دیوار
شاعر:محمد عثمان جامعی
صفحات:320، قیمت:450روپے
ناشر: رواں اکیڈمی، کراچی

یہ عثمان جامعی کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جس کا بہت سا کلام 'روزنامہ ایکسپریس' کی زینت بن چکا، جب کہ بہت سی شاعری غیرمطبوعہ ہے۔ نہایت وسیع موضوعات کے حامل اس مجموعے میں محبوب، عشق اور ہجر ووصل کے روایتی موضوعات کا برتاؤ آٹے میں نمک کے برابر ہے؎

بہت آگہی کے ستم بڑھ گئے ہیں

چلو عشق کر لیں کہ غم بڑھ گئے ہیں

یہ نظمیں اور غزلیں کیا ہیں، عوامی مدعے اور ظالموں کے لیے للکار ہیں۔ کہیں اندر جاگزیں کسی درد کا کاٹ دار اظہار۔۔۔ کہیں یہ لفظ جابروں پر قہر ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ روزمرہ کے واقعات پر بے باک کلام کے ساتھ بہت سے حساس و نارسا موضوعات پر بھی جرأت مندی سے طبع آزمائی کی گئی ہے۔۔۔ کہیں تقسیم سندھ کے مطالبے پر منظوم احساسات ہیں، تو کہیں پرویز مشرف کی رخصتی، ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب، افتخار چوہدری کے انکار، سانحہ 12 مئی 2007ء، موبائل فون کی بندش اور سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور 2014ء وغیرہ پر اظہار خیال دکھائی دیتا ہے۔ فیڈل کاسترو، عبدالستار ایدھی، شوکت صدیقی، امجد صابری اور ارفع کریم رندھاوا کو خراج عقیدت بھی کتاب کا حصہ ہے۔ یہاں آزادیٔ اظہار کا باب بھی ایک مختلف ڈھب پہ استوار ہے، جیسے؎

لفظ جو لب پہ آنہیں سکتے۔۔۔ دل کی حالت دکھا نہیں سکتے۔۔۔ چپ ہیں کچھ بھی بتا نہیں سکتے۔۔۔ سچ کا چہرہ دکھا نہیں سکتے!

یہ عثمان جامعی کا عمیق مشاہدہ ہی ہے کہ وہ عام سے مناظر سے بھی 'کچرا کچرے دان میں ڈالیں' جیسی نظمیں کشید کر لیتے ہیں۔ آگے بڑھیے تو شریک حیات کی سال گرہ، والدہ اور بھائی کی رحلت پر منظوم افسوس بھی شامل ہیں۔ اس کتاب میں آپ کو بہ یک وقت اردو کے بہت سے بڑے شعرا کا ذائقہ محسوس ہوگا۔ اردو تراکیب کا خاص لحاظ قاری کو اور بھی لطف دیتا ہے، عثمان جامعی کے کلام میں بارش بھی رومان کے روایتی تصور کے سوا دکھائی دیتی ہے، جب کہ رات بھی وصل وہجر اور تنہائی کے بہ جائے ظلمت کے استعارے کے طور پر برتی گئی ہے۔ وصیت اور اضافی جیسی نظموں میں ان کے بے کراں خیالات کا بھرپور اظہار ہے۔ 'انتباہ' میں وہ کچھ باغی ہوتے دکھائی دیتے ہیں؎

تمہاری ہنسی التجا میں ڈھلے گی

یہ فرعونیت منہ کے بل گرے گی

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں