ٹرمپ کا وبال امریکا کا زوال
ٹرمپ کے باؤلے پن کی وجہ سے کئی امریکی ارکان کانگریس بھی ان کے مواخذے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
جس شخص پر دشمن ملک کی مدد سے انتخابی معرکے میں کامیابی حاصل کرنے کا الزام ہو، جس کی فتح کا جشن منانے کے بجائے عوام جسے پہلے دن سے ہی صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئیں، جس نے اپنی پوری زندگی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے ناجائز طریقوں کو جائز سمجھا ہو، جس کی دولت میں جوئے اور بلیک میلنگ کی کمائی کی آمیزش ہو اور جو خود مذہب سے مبرا ہو، مگر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مذہبی جنونیت اور تعصب کو فروغ دیتا ہو، اس سے بھلا کیا کسی بھلے کی امید کی جاسکتی ہے؟ اس نے تو اپنی انتخابی مہم کے دوران ہی یہودیوں کی مالی امداد کے عوض بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کا وعدہ کرلیا تھا۔
یہودیوں نے اس مفاد پرست شخص کی فرمائش پر دولت کی برسات کردی تھی۔ پھر اگر یہ اپنا وعدہ پورا نہ کرتا تو یقیناً یہودی سازش کا شکار ہوجاتا، یا تو قتل کرا دیا جاتا یا پھر ذلیل و خوار کراکے عہدہ صدارت سے برخاست کرا دیا جاتا۔ بی بی سی نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے اسرائیلی لابیوں سے رابطہ کیا تھا۔ امریکا میں اسرائیل نواز لابیوں کا اہم ستون ''کرسچنز یونائیٹڈ فار اسرائیل'' نامی ایک گروپ ہے۔
اس گروپ کے بانی یہودی نواز پادری جان ہیگی ہیں، جنھوں نے ٹرمپ اور نائب صدر مائک پینس کی انتخابی مہم کے لیے اس گروپ سے بھرپور سرمایہ مہیا کرایا تھا۔ الیکشن کے بعد انھوں نے ٹرمپ کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کا وعدہ یاد دلایا اور زور ڈالا کہ وہ جلد ازجلد اپنا وعدہ پورا کریں۔ اس سے بھی پہلے الیکشن مہم کے دوران ایک اور اسرائیل نواز لابی جسے ''امریکا اسرائیل افیئرز کمیٹی'' کا نام دیا جاتا ہے، کے ایک اجلاس میں ٹرمپ نے ہزاروں یہودیوں کے سامنے یروشلم کو اسرائیل کا کیپیٹل قرار دینے کا وعدہ کیا تھا، اس لابی کا تعلق ایک ارب پتی یہودی ادارے سے ہے جو ''شیلڈین ایڈلسن'' کہلاتا ہے۔
یہ دراصل ایک کھرب پتی جوا خانہ ہے جو اسرائیل کی سپورٹ کرنے والوں کی دل کھول کر مدد کرتا ہے۔ اس جوئے خانے نے ٹرمپ کی الیکشن مہم کے لیے کروڑوں ڈالر کی مدد کی تھی۔ چنانچہ اس طرح ٹرمپ نے اپنا وعدہ پورا کرکے یہودیوں کو تو ضرور خوش کردیا ہے مگر امریکی ڈپلومیسی کا جنازہ نکال دیا ہے۔
یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کا مسئلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ یہ تو 1948 سے ہی اسرائیل کے ناجائز قیام سے چل رہا ہے۔ اس سے پہلے کئی امریکی صدور نے اپنی انتخابی مہمات کے دوران یہودیوں کے ووٹ اور فنڈز حاصل کرنے کے لیے یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کرنے کے وعدے ضرور کیے تھے مگر انھیں کبھی وفا نہیں کیا تھا۔
اسرائیلی حکومت نے جب 1967 میں یروشلم پر قبضہ کرکے اسے اپنا دارالخلافہ قرار دے دیا تھا تب بھی کسی امریکی صدر نے اسرائیل کے اس اقدام کو تسلیم نہیں کیا تھا، اس کے ساتھ ہی دنیا کے کسی بھی ملک نے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل نہیں کیا تھا۔ امریکی حکومت نے ہمیشہ عربوں سے اپنے تعلقات خوشگوار رکھنے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ اس کے عربوں سے وابستہ مفادات ہیں، جن میں تیل کو اولیت کا درجہ حاصل ہے۔ وہ اسرائیل کی بقا کا ضرور ضامن ہے مگر اسرائیل کی خاطر اس نے عربوں سے اپنے تعلقات کبھی نہیں بگاڑے۔
اب ٹرمپ نے اپنے پاگل پن سے امریکا کی برسوں پرانی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ان کی بے وقوفی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات کو زبردست دھچکا لگا ہے، جس کی بھرپائی کا ہونا اب اس وقت تک مشکل نظر آتا ہے جب تک امریکی حکومت یروشلم سے متعلق اپنے فیصلے کو واپس نہیں لیتی۔ ٹرمپ کے اس بے وقوفانہ فیصلے سے پوری مسلم دنیا میں شدید اضطراب پیدا ہوگیا ہے، ساتھ ہی عالمی برادری بھی حیران و پریشان ہے کہ ٹرمپ نے اچانک یہ کیا غضب کردیا۔ ٹرمپ کے اس فیصلے سے تو امریکا کی سپرپاور کی حیثیت ہی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے اپنے باؤلے پن سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کی دنیا کے مختلف ممالک کے تنازعات کے بارے میں حکمت عملی کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ وزارت خارجہ سے لے کر سنجیدہ تھنک ٹینکس تک سب ہی ٹرمپ کے اقدام سے برہم ہیں۔ ہلیری کلنٹن تو پہلے سے ہی ٹرمپ کو ایک ناکام صدر قرار دے رہی ہیں، اس سے پہلے وہ انتخابی مباحثوں کے دوران ٹرمپ کو بدعقل، بداخلاق اور بدکردار انسان قرار دے چکی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف امریکی عوام بلکہ خود ری پبلکن پارٹی کے ممبران ان کے خلاف ہیں۔ ٹرمپ کے بارے میں پہلے سے ہی ان کے دماغی توازن پر شکوک و شبہات کیے جا رہے تھے اب وہ بالکل درست ثابت ہوچکے ہیں۔ ایک تازہ خبر کے مطابق طبی ماہرین نے انھیں ایک خاص قسم کی دماغی بیماری میں مبتلا ہونے کا شبہ ظاہر کیا ہے۔
ٹرمپ نے اپنے کئی خطابات میں ''یونائیٹڈ اسٹیٹس آف امریکا'' کے لفظ اسٹیٹس کو اسٹیٹٹ کہا تھا، ان کے اس غلط تلفظ سے بعض طبی ماہرین نے انھیں Nutty نامی بیماری کا مریض ہونے کی تصدیق کردی ہے۔ ان کے دماغ کے غیر متوازن ہونے کے کئی ثبوت بھی سامنے آچکے ہیں۔ انھوں نے امریکا کا وفادار رہنے کا حلف اٹھانے کے باوجود دشمن ملک روس کے صدر سے دوستی قائم کر رکھی ہے۔
انھوں نے امریکی پالیسی کے خلاف مسلمان ممالک سے دشمنی کو فروغ دیا ہے۔ چھ مسلم ممالک کے شہریوں کا امریکا میں داخلہ روکنے کا فیصلہ بھی امریکی مفاد میں نہیں ہے۔ انھوں نے شام میں روس کی برتری کو تسلیم کرلیا ہے اور شمالی کوریا کو اپنے جارحانہ بیانات کے ذریعے اکسا کر دنیا کے لیے بالعموم مگر امریکا کے لیے بالخصوص ایک بڑا خطرہ پیدا کردیا ہے جس سے نمٹنے کے لیے اس وقت امریکا قطعی تیار نہیں ہے۔
اکثر امریکیوں کی رائے ہے کہ امریکی ایٹمی ہتھیاروں کی کمانڈ سے ٹرمپ کو فوراً دستبردار کردینا چاہیے کیونکہ وہ ذہنی طور پر اس قابل نہیں دکھائی دیتے کہ اس اہم ذمے داری کا بوجھ اٹھا سکیں۔ کچھ امریکیوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی اکھڑ طبیعت، بڑھاپے اور کم عقلی کی وجہ سے کسی وقت بھی پوری دنیا کو ایٹمی جنگ کی آگ میں جھونک سکتے ہیں۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا کیپیٹل قرار دینے کے ان کے خطرناک فیصلے نے جہاں اقوام متحدہ کے چارٹر کی دھجیاں بکھیر دی ہیں وہاں یہ فیصلہ ان کی جیسی خصلت کے مالک ان کے دوست مودی کو کشمیر پر ناجائز قبضے کو قائم رکھنے میں مزید ڈھٹائی کی جانب مائل کرسکتا ہے۔
سابق صدر اوباما نے ٹرمپ کے فیصلے کو ہٹلر کے دنیا کو جنگ کی تباہی میں دھکیلنے کے فیصلے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کے اس فیصلے کے دوررس منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ لگتا ہے مستقبل میں اسلامی ممالک امریکا کو دوست کے بجائے دشمن ہی خیال کرنے لگیں گے۔ ٹرمپ کی مسلم کش پالیسیوں کی وجہ سے مسلم ممالک پہلے سے ہی ان سے محتاط تھے مگر اب ٹرمپ کی کھلی مسلم دشمنی سے تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔ اب انھیں امریکی خدمت گزاری سے نکل کر مسلم امہ کے مسائل کے حل کے لیے کسی غیر کی مدد لینے کے بجائے خود ہی جدوجہد کا لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا۔
سنی شیعہ ممالک کی تفریق کو ختم کرکے باہم شیر و شکر ہونا ہوگا، ورنہ اب نوشتہ دیوار ان کے سامنے ہے۔ ٹرمپ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں روس کو خاص اہمیت حاصل ہوتی جا رہی ہے۔ روس شام میں پہلے ہی بشارالاسد کو ہٹانے کی امریکی خواہش کو پامال کرچکا ہے۔ ٹرمپ کے باؤلے پن کی وجہ سے کئی امریکی ارکان کانگریس بھی ان کے مواخذے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لگتا ہے امریکا کا زوال جو پہلے سے ہی شروع ہوچکا ہے اب ٹرمپ کے ہاتھوں مکمل ہونے والا ہے۔
یہ تو خیر امریکیوں کا اپنا اندرونی معاملہ ہے تاہم ٹرمپ کی وجہ سے تو پوری دنیا کا ہی امن کسی بھی وقت تہہ و بالا ہوسکتا ہے، چنانچہ امریکیوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنے صدر کے پاگل پن کا تسلی بخش علاج کرائیں یا پھر انھیں لمبی رخصت پر بھیج کر دنیا کو تباہی سے بچالیں۔