سوچتا ہوں کہ چپ رہوں لیکن

ایک چھوٹا سا غلط قدم، دو چار منٹ کی تاخیر ہماری زندگی کے سفر کا رخ بدل دیتی ہے۔


شاہد سردار December 17, 2017

نگاہ غلط چاہے تصویر ہی پر کیوں نہ ڈالی جائے اس کی شریعت میں سخت ممانعت ہے اور اس سے اجتناب دین کا بنیادی تقاضا ہے، اس لیے کہ ساری خرابی کی ابتدا سب سے پہلے آنکھوں کے سہارے ہی کی جاتی ہے۔ بدنظری بہت سے حرام کاموں کو جنم دیتی ہے جو انسان کے لیے مہلک ثابت ہوتی ہے اور اسے معاشرے اور گھر والوں میں ذلیل کردیتی ہے۔ بدنظری سے بچ کر ہی انسان سیکڑوں نگاہوں اور آفتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ بدنظری بلاشبہ اپنے دامن میں گناہوں کا سمندر رکھتی ہے۔

بدنظری صرف اس کا نام نہیں ہے کہ غیر محرم مردوں اور عورتوں کو دیکھ لیا بلکہ بدنظری ایک وسیع عنوان ہے جو بہت سے طریقوں اور صورتوں کو اپنے اندر جذب کیے ہوئے ہے۔ ''سورۃ النور'' میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ اے نبی! مومن مرد اور مومن عورتوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اور ''حدیث قدسی'' میں اللہ کا ارشاد ہے کہ ''نگاہ'' ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا میں اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب بے حیائیوں پر قدغن لگانے والا نہیں ہے اور قرآن و حدیث میں فحاشی یا بگاڑ کی ابتدا اور بنیاد آنکھوں کو قرار دیا گیا ہے اور آنکھوں کی بے احتیاطی کو سختی سے قابو میں کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ ایسی بنیاد ہے کہ اگر صرف اسی پر ہی قابو پالیا جائے تو ساری بے حیائیاں دنیا سے رخصت ہوسکتی ہیں۔ ہمارے حضور اکرمؐ کا فرمان ہے کہ بے حیائی جب کسی میں ہوتی ہے تو اسے عیب ناک بنا دیتی ہے اور شرم و حیا جب کسی میں ہو تو اسے زینت دے دیتی ہے۔

نگاہ غلط کے ساتھ ساتھ سترپوشی یعنی جسم ڈھانپنے پر بھی اسلام میں بہت زور دیا گیا ہے۔ لباس کا جہاں تک تعلق ہے تو اسے انسانی شخصیت کا آئینہ دار بھی کہا جاتا ہے۔ حیا اور ادب کا تقاضا تو یہ ہے کہ ہم تنہائی کے عالم میں بھی حتیٰ الامکان اپنے ستر کو چھپانے کا اہتمام کریں۔ افسوس دور جدید کے لوگ تنہائی میں اس کا کیا اہتمام کرتے آج شاپنگ سینٹرز، ماڈل پارکس، اسپتالوں، شادی ہالز اور بالخصوص سمندر اور دریاؤں پر بھی ستر کا خیال نہیں کرتے اور سیکڑوں لوگوں کی نگاہیں خواتین کے جسموں کو ٹٹول رہی ہوتی ہیں۔

شرم و حیا سے دوری اور بدنظری کا عمل اپنے نفس کی اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے اور یہ عمل انسان کے باطن کے لیے تباہ کن ہے کہ دوسرے گناہوں سے یہ بہت آگے بڑھا ہوا ہے اور انسان کے باطن کو خراب کرنے میں اس کا بہت دخل ہے۔ جب تک اس عمل کی اصلاح نہ ہو اور نگاہ قابو میں نہ آئے اس وقت تک باطن کی اصلاح کا تصور محال ہے۔ کاش ہم خاکی انسان اس روشن حقیقت کو جان پاتے کہ نظر کی حفاظت کے بعد ہی انسان کو رتبہ اور توقیر حاصل ہوسکتی ہے۔

آج ہمارے معاشرے میں چاروں طرف بے پردگی، بے حجابی، عریانی اور فحاشی کا بازار گرم ہے، ایسے میں انسان اپنی نظروں کو کہاں تک اور کیسے بچائے۔ یہ ایک کڑوا گھونٹ ہے جسے پینا نہایت دشوار کام ہے، مگر اللہ کے نیک بندوں کو جنھیں باطن کی صفائی، طہارت اور تزکیہ نفس مدنظر ہوتی ہے وہ اس کڑوے گھونٹ کو ہمت کرکے پی جاتے ہیں۔ کیونکہ شرم و حیا اسلام اور مسلمانوں کا بنیادی شعار ہے اور انسان ان پر عمل کرکے ہی ایمان کامل کی دولت پاسکتا ہے۔

شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا کہ جس قوم نے عورتوں کو ضرورت سے زیادہ آزادی دی وہ کبھی نہ کبھی اپنی غلطی پر ضرور پشیمان ہوتی ہے۔ افسوس ہمارے آج کے دور کی غالب اکثریت اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے بجائے آرائش و زیبائش میں پڑ کر معاشرے کی قدروں کو درہم برہم کرنے کی افسوس ناک کوشش میں مصروف ہے اور مبلغ، سدھار کے ذمے دار اس شعر کی عملی تصویر بنے ہوئے ہیں:

سوچتا ہوں کہ چپ رہوں لیکن
چاہتا ہوں کہ سب سمجھ جائیں

علامہ اقبال کے نزدیک عورت شمع محفل نہیں ہے بلکہ صرف شمع خانہ ہے۔ قدرت نے جو فرائض اس کے ذمے عائد کیے ہیں وہ ان فرائض کی بجا آوری ہی کی کوشش کرے تو یہی اس کی سب سے بڑی قومی اور ملکی خدمت ہوگی۔ جدید تہذیب میں رنگی الٹراماڈرن خواتین کو اس کڑوی سچائی پر ایمان لے آنا چاہیے کہ عورت بہرطور تمدن کی جڑ ہے۔

ماں اور بیوی دو ایسے ہمارے معاشرتی معتبر اور پیارے الفاظ ہیں کہ تمام مذہبی اور تمدنی نیکیاں ان میں پوشیدہ ہیں اور اسی لیے عورتوں کی تعلیم اور اس کے شعور کی ضرورت پر بہت زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ مرد کی تعلیم صرف ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کی تعلیم حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دینا ہے۔ اور یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی اگر اس قوم کا آدھا حصہ جاہل مطلق رہ جائے، لیکن اس ضمن میں یہ ضروری ہے کہ ''مشرقی طریقے'' کے مطابق خواتین کو تعلیم دی جائے تاکہ ان میں شریفانہ اطوار قائم رہیں، جو مشرقی دل و دماغ کا خاصہ ہیں۔

دنیا کا یہ دستور ہے کہ ہر قیمتی چیز کی سختی کے ساتھ حفاظت کی جاتی ہے۔ عورت کی عصمت، عفت اور عزت بھی قیمتی متاع ہے۔ مہذب لباس میں عورت کی شناخت ہوتی ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ عورت کی عزت و عصمت کی حفاظت ''پردے'' میں ہے، اس لیے رب کائنات نے عورت کو حجاب میں رہنے کا حکم دیا ہے۔ اور یہ بھی غلط نہیں کہا کسی نے کہ اگر کسی کی پگڑی پھاڑ کر کسی برہنہ کی سترپوشی ہوسکے تو یہ کسی عبادت سے کم نہیں ہوتی۔ لیکن کیا ہے کہ ہم اس قسم کی باریکیوں میں پڑنے کے کبھی عادی نہیں رہے اور بدلے میں مسائل و مصائب کی فصلیں کاٹتے چلے آرہے ہیں، کاش ہم اس بات کو گرہ سے باندھ لیں کہ جو مصیبت اللہ کی طرف لے جائے وہ آزمائش ہے اور جو مصیبت اللہ سے دور کردے وہ سزا ہوتی ہے۔ ہم اللہ کی طرف نہیں جارہے، اللہ سے دور ضرور ہوتے جارہے ہیں۔

ہم آخر یہ سامنے کی حقیقت تسلیم کیوں نہیں کرلیتے کہ جب غلط پاس ورڈ سے موبائل لاک (تالا) نہیں کھلتا تو پھر غلط طریقہ زندگی سے بہشت کے دروازے کیسے کھل سکتے ہیں؟ ہم اپنے طرز عمل سے، اپنے کردار سے، اپنے طور اطوار سے اپنی فہم میں یہ بات بٹھا سکتے ہیں کہ حیا کے ساتھ تمام نیکیاں اور بے حیائی کے ساتھ تمام برائیاں وابستہ ہوتی ہیں، لیکن ہم جان بوجھ کر اس سے صرف نظر کرتے چلے آرہے ہیں۔ اور یہی ہمارا معاشرتی اور سماجی المیہ بھی ہے کہ عوام الناس کی غالب اکثریت کے اختیار کیے ہوئے راستے یا تو صریحاً غلط ہیں یا پھر بند۔ اور ویسے بھی بے سمت راستے منزل کی جانب نہیں جاتے۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ہر بشر کا ایک غلط قدم، غلط فیصلہ، غلط موڑ، ایک لمحاتی غلط رویہ، ایک معمولی سی زبان کی لغزش، ایک چھوٹا سا غلط قدم، دو چار منٹ کی تاخیر ہماری زندگی کے سفر کا رخ بدل دیتی ہے اور پتا ہی نہیں چلتا کہ ہم اپنی اصل منزل سے کتنے دور نکل گئے ہیں۔

احساس ہوتا ہے تو تب جب جیتے جی ہماری سانس بند ہونے لگتی ہے، زمینی رشتے ہم سے روٹھ جاتے ہیں اور ہم اپنوں کے بیچ اجنبی بن کر شب و روز کی مشقت میں الجھے رہتے ہیں۔ اپنے کسی ایک طرز عمل، کسی ایک غلط فیصلے سے ہم اپنی عمر قید کے وارنٹ پر خود دستخط کر ڈالتے ہیں اور پھر اپنی زندگی کی بیرک، اپنی کال کوٹھری سے تمام عمر باہر نہیں نکل پاتے۔ پچھتاوے کے بچھو ہمارے تن من پر رینگتے رہتے ہیں، ندامت کی دیمک ہمارے دل و دماغ کے دالانوں کو چاٹتی رہتی ہے اور ہم بے بسی سے اپنے وجود کو ذرہ ذرہ مٹی میں رلتا دیکھتے رہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں