حکمرانوں کی بدعملی اور دھرنوں کی سیاست
اقتدار کی ہوس اور بھوک بڑی ہی ظالم ہوتی ہے، یہ بھوک گناہ کبیرہ اور ایمان کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہے۔
دھرنے دینے کا رواج حکومت وقت کی غفلت اور اپنی عوام سے دوری کے سبب وجود میں آیا۔ کوئٹہ اور ہزارہ میں بے شمار لوگوں کو قتل کیا گیا، شہادتیں ہوئیں، ان کے لواحقین نے میتوں کے تابوتوں کے ساتھ دھرنا اس وقت تک دیا جب تک کہ انھیں تحفظ کی یقین دہانی نہ کرائی گئی۔ اسی طرح معاشرتی جبر اور تشدد، ناانصافی کی فضا دھرنوں کی سیاست اور ضرورت کو پروان چڑھایا، جہاں کسی کا قتل ہوا، ظلم و ستم کی گرم ہوائیں چلیں وہیں متاثرہ خاندان، پریس کلب، چوراہوں، شاہراہوں پر دھرنا دینے کے لیے بیٹھ گئے۔
سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈروں کے حکم پر خواتین و حضرات موسموں کی سنگینی کے باوجود راتوں کو دھرنا دینے پر مجبور ہوئے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے الیکشن کی دھاندلی اور شفاف الیکشن اور تین حلقے کھولنے کے لیے احتجاج کیا، کچھ سنوائی نہ ہوئی تو آخرکار دھرنا دینے پر یہ جماعت مجبور ہوگئی، اگر پہلے ہی حکومت کو اگر اقتدار کا زعم نہ ہوتا کہ ہمارا تو کوئی بال بیکا نہیں کرسکتا ہے تو یہ حالات نہ ہوتے، جو آج ہیں۔
ادارہ منہاج القرآن کے بانی و سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اپنی جماعت کے ساتھ دھرنا دیا، خود کنٹینر میں رات گزاری جب کہ جماعت کے سیکڑوں لوگ بارش کے موسم میں بھیگتے رہے، ان میں بچے، بوڑھے، جوان سب شامل تھے، ان سب نے نیک مقاصد کے لیے طاہرالقادری کا پورا پورا ساتھ دیا۔ لیکن حکومت کے مقتدر حضرات ٹس سے مس نہ ہوئے۔ انھوں نے شاید تاریخ نہیں پڑھی، غروب ہوتے ہوئے سورج کو نہیں دیکھا اور خزاں کے موسم نے انھیں یہ خبر نہیں دی کہ سرسبز و شادابی کا عرصہ اتنا ہی مختصر ہوتا ہے جتنا کہ انسان کی زندگی کے ادوار کا، انھیں بھٹو کی پھانسی، بے نظیر بھٹو کی اچانک ہونے والی شہادت بھی عیش و طرب کی دنیا سے باہر نہ لاسکی، تو پھر آج انھوں نے دیکھا حالات نے کیسے رخ بدلا؟ اور زمانے نے نگاہیں کیسے پھیریں۔ اقتدار کی ہوس اور بھوک بڑی ہی ظالم ہوتی ہے، یہ بھوک گناہ کبیرہ اور ایمان کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہے اور انسان اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھودتا ہے اور لذت ایمان کے مزے بھول جاتا ہے۔
تب ہی وہ اس ملک کے قانون میں تحریف کرنے سے بھی نہیں چوکتا ہے، جو لاالہ الااللہ کے نام پر بنایا گیا تھا اور شرط بھی یہ کہ اہل اقتدار کا سچا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ لیکن انھوں نے جاتے جاتے مذہب کے ساتھ اتنا بڑا سنگین مذاق کیا کہ الامان، ختم نبوت کا قانون ہی بدل ڈالا، لیکن جب حکومت کی باگ ڈور ہاتھوں سے پھسلنے لگی تب قانون تو اصل حالت میں آگیا لیکن اس کے بعد کے حالات نے شہریوں کی زندگیوں میں زہر گھول دیا، تحریک لبیک کے سربراہ خادم حسین رضوی اور ان کے کارکنوں نے 21 روز تک دھرنا دیا، تاکہ قانون میں ترمیم کرنے والے کیفرکردار تک پہنچیں۔ اگر اس نازک موڑ پر فوج ساتھ نہ دیتی اور ملک کو بحران سے نہ نکالتی تو نہ جانے کیا ہوتا۔
دین اسلام بڑا آسان سا مذہب ہے، راہ چلتے ہوئے کانٹے، پتھر یا دوسری تکلیف دہ چیزیں ہٹا دینا حقوق کی ادائیگی ہے، لیکن آج کی صورتحال افسوسناک اور اذیت ناک ہے، راہ چلنے والوں کو سخت مشکل کا سامنا اس وقت کرنا پڑتا ہے، جب دھرنے دیے اور راستے بند کیے جاتے ہیں، اس طرح پیدل گاڑیوں میں سوار لوگوں کو متبادل راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، اور یہ کٹھن گزار راستوں کی طویل مسافت کسی کی جان لے لیتی ہے، مریض اسپتال نہیں پہنچ پاتے ہیں، طالب علم تعلیمی اداروں اور کام کرنے والے دفاتر و کارخانوں میں جانے سے قاصر رہ جاتے ہیں، ان حالات میں بھی پرائیویٹ اداروں کے مالکان اور منتظمین ان پریشان حال حضرات کی تنخواہ کاٹ لیتے ہیں، دیر سے پہنچنے پر سرزنش کرتے ہیں، وہ حقائق کو نظرانداز کرکے جارحانہ سلوک کرتے ہیں۔
میرا خیال ہے کہ آیندہ سے دھرنوں کی سیاست کو خیرباد کردینا ہی اسلامی طرز ہوگا۔ مطالبات منوانے کے بہت سے طریقے ہوتے ہیں، دھرنا راستہ چھوڑ کر بھی چند خاص افراد کی معیت میں بھی دیا جاسکتا ہے۔ لیکن ایک بڑے ہجوم کو جمع کرلینا محض عوام کو تکلیف دینے کے سوا کچھ نہیں، یہ اسلامی شعار ہرگز نہیں ہے۔
ایسی ہی صورتحال بعض مخصوص ایام کے موقع پر پیش آتی ہے، تمام راستوں پر کنٹینر لگادیے جاتے ہیں، ان حالات میں اکثر ایمرجنسی کے مسائل پیش آتے ہیں، مریض کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے یا اچانک کہیں جانا لازمی ہوجاتا ہے، تب تمام راستے بند، اسی طرح بعض مواقعوں پر گلیوں اور شاہراہوں پر شامیانے لگے نظر آتے ہیں، وہاں بھی تھوڑا سا راستہ چھوڑنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جلوسوں کے لیے تمام راستے بلاک کرنا لوگوں کو مسائل و پریشانی میں گھیرنے کے مترادف ہے۔
اگر راستہ ایک مقرر کرلیا جائے تو گاڑیوں اور بسوں کے سفر میں مشکلات پیدا نہ ہوں، پھر ہماری رینجرز اور فوج نہایت خلوص و دیانت داری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتی ہے، اور جلوس کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ ایک مسلمان بھائی کو اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے لیے راحت و تسکین پہنچانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اسلامی تعلیم اور تاریخ پر نظر ڈالیں تو حضرت محمد ﷺ کا عدل و انصاف، عفو و درگزر، صبر و استقلال دوسروں کے لیے نمونہ ہے۔
اسلام ڈنڈے کے زور سے نہیں بلکہ اعلیٰ صفات، امن و آشتی کی روشنی میں ترقی پاتا رہا۔ لوگ بہت تیزی کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوتے رہے، پھر خلفائے راشدین اور شہدائے کربلا کی زندگیوں اور حکومتی امور پر نظر دوڑائیے تو ہمیں صدق اور کذب میں شب و سحر کی طرح نمایاں فرق نظر آئے گا، ہماری سابقہ اور موجودہ حکومتوں کے لیے تو معاشرتی اسلامی ڈھانچہ موجود تھا، بس قوانین نافذ کرنے اور تعلیمات کو عام کرنے کی ضرورت تھی، حضرت عمر فاروقؓ کا نظام حکومت آج بھی کئی ملکوں میں رائج ہے۔
حضرت عمر فاروقؓ نے بچے کی پیدائش کے وقت سے ہی وظیفہ مقرر فرمادیا تھا۔ لاوارث بچوں کی پرورش کا انتظام بھی بیت المال سے تھا، جن بچوں کی مائیں انھیں راستوں پر پھینک جاتی تھیں ایسے بچوں کے لیے ابتدا میں دو سو درہم سالانہ مقرر ہوتے تھے اور عمر کے ساتھ اس میں اضافہ ہوجاتا تھا، آج ہمارے ملک میں بچے سڑکوں پر رل رہے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے، قوانین کی آبرو پیسے کے بل پر خرید لی جاتی ہے، قاتل رہا کردیے جاتے ہیں، چوروں اور ڈاکوؤں کو مکمل تحفظ حاصل ہے، لیکن فلاحی کام کرنے والوں کی راہوں میں رکاوٹیں کھڑی کردی جاتی ہیں۔
تھانوں کا نظام بھی رشوت پر چل رہا ہے، اگر محض گمشدہ شناختی کارڈ کی ایف آئی آر بھی کٹوانے جایا جائے تو اس کے بھی پیسے، حیلے بہانے سے طلب کیے جاتے ہیں۔ اتنے برے حالات میں دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ اﷲ ایسے حکمران اس ملک پر حکومت کرنے آئیں جنھیں موت اور مکافات عمل کا سبق ازبر ہو۔