ہم اور ہٹلر کے عقائد و افکار
ہٹلر کے فن و اشاعت میں جس شے کو نصب العین کی حیثیت حاصل تھی وہ بڑے جھوٹ کا اصول ہے۔
ہٹلر اس لحاظ سے تو خوش نصیب رہا ہے کہ اس کے عقائد و افکار اور طور و طریقے آج بھی دنیا میں بہت سے حکمرانوں کے خوب کا م کررہے ہیں۔ آپ دوسروں کو تو چھوڑیں خود ہمارے ملک میں طاقتوروں اور بااختیاروں کی اکثریت آج بھی اس کے ہی عقائد و افکار اور طور طریقوں پر عمل پیرا ہے۔ یہ ہم سب کی بدقسمتی ہے کہ ہٹلر کے عقائد و افکار اس کے ساتھ قبر میں نہ گئے اور دنیا بھر میں پھیل گئے، ان کے متاثرین میں ہم بھی شامل ہیں۔ آئیں پہلے ہٹلر کے عقائد و افکار اور طورو طریقوں سے آگاہی حاصل کرتے ہیں۔
ہٹلر عوام کو بہت حقیر سمجھتا تھا، اس کا اظہار اس نے مختلف صورتوں میں باربار کیا ہے، ایک جگہ وہ انھیں ''بھیڑوں کا بے دماغ ریوڑ'' کہتا ہے، دوسرے مقام پر وہ انھیں ''مجسمہ حماقت'' قرار دیتا ہے۔ وہ کہا کرتا تھا کہ عوام سست، بزدل اور جذباتی ہوتے ہیں، وہ معقول انداز میں سوچ ہی نہیں سکتے۔ ہٹلر کے فن و اشاعت میں جس شے کو نصب العین کی حیثیت حاصل تھی وہ بڑے جھوٹ کا اصول ہے۔
ہٹلر نے صاف صاف کہا کہ یہ اصول بالکل درست ہے، چونکہ جھوٹ بہت بڑا ہوتا ہے، اس لیے وہ لوگوں کو قائل کرنے کا حامل بن جاتا ہے۔ عوام حد درجہ سادہ لوح ہوتے ہیں لہٰذا چھوٹے جھوٹ کے مقابلے میں بڑا جھوٹ ان کے لیے زیادہ موثر ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے معاملات میں تو وہ خود جھوٹ بولنے کے عادی ہوتے ہیں، لیکن بڑا جھوٹ بولتے ہوئے انھیں شرم آتی ہے۔ جھوٹ جتنا بڑا ہوگا عام لوگ اتنی ہی بے تکلفی سے اسے قبول کرلیں گے۔
پروپیگنڈا کا ایک اور بڑا اصول یہ ہے کہ معاملہ ایک ''شیطان'' تک محدود رکھا جائے، عوام کے سامنے بہ یک وقت نفرت کے لیے دشمنوں کی زیادہ تعداد پیش نہ کرو۔ وہ کہتا تھا ہنرمندانہ اور مسلسل پروپیگنڈے کے ذریعے سے یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ بہشت کو دوزخ اور دوزخ کو بہشت سمجھنے لگیں اور جو پروپیگنڈا سب سے زیادہ موثر ہونا چاہیے لازم ہے کہ اسے زیادہ عاقلانہ و دانشمندانہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ ایسا پروپیگنڈا ہمیشہ اور اولاً جذبات پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ عقل و استدلال پر۔
پروپیگنڈے کا علمی صحت و درستی سے اتنا ہی تعلق ہے، جتنا کہ پوسٹر کو فن سے ہوسکتا ہے۔ عوام کی جتنی زیادہ تعداد کو متاثر کرنا منظور ہے پروپیگنڈے کی ذہنی سطح اتنی ہی نیچی ہونی چاہیے۔ اس کے خیال میں عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے اور عقل کوتاہ، لیکن ان کی صلاحیت فراموش گاری کی کوئی حد و نہایت نہیں ہوتی۔
ان حقائق کے پیش نظر تمام موثر پروپیگنڈا صرف چند نکتوں تک محدود رہنا چاہیے اور خاص باتوں پر باربار زور دینا چاہیے، یہاں تک کہ عوام میں سے ہر فرد سمجھ لے تم اسے کیا سمجھانا چاہتے ہو۔ جب تم اصل حرف مدعا کو نظرانداز کردو گے اور بہ زعم خود مختلف پہلوؤں پر گفتگو کرنے لگو گے تو سارا اثر زائل ہوجائے گا، کیونکہ عوام اس قسم کی غذائیں ہضم کرنے کے عادی نہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مقصد کو ضعف پہنچتا ہے، یہاں تک کہ وہ بالکل ختم ہوجاتا ہے۔
آپ چونکہ سب سے زیادہ سمجھ دار ہیں، اس لیے یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آج کل حکمران جماعت کے عوامی جلسوں، ریلیوں میں جو تقریریں کی جارہی ہیں، ان کا مقصد کیا ہے اور ایک جیسی ہی تقریریں باربار کیوں کی جارہی ہیں یا حکمران جماعت کے سرکر دہ رہنما اپنی پریس کانفرنس میں ایک ہی بات باربار مختلف انداز میں کیوں کیے جارہے ہیں اور یہ بھی بتانے کی اب کوئی بھی ضرورت باقی نہیں رہتی ہے کہ یہ سارے طور و طریقے انھوں نے کہاں سے سیکھے ہیں اور اس پروپیگنڈے اور طور طریقے کے پیچھے کون کھڑا مسکرا رہا ہے۔
اصل میں یہ ہی طور طریقے اور پروپیگنڈے ہیں جو ہم پچھلے ستر سال سے بھگت رہے ہیں اور ہم سب اس کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ ان طور طریقوں کے بغیر اب مزا بھی نہیں آتا ہے۔ اگر ہم اپنے حکمرانوں سے باربار یہ نہ سنیں کہ ملک میں خوشحالی آنے والی ہے، بجلی، گیس اور پانی کی لوڈشیڈنگ اور قلت کا خاتمہ ہونے والا ہے، ملک میں روزبروز جمہوریت مستحکم ہورہی ہے، عوام کو حقوق ملنے والے ہیں، اب عوام کو انصاف اور روزگار ان کی دہلیز پر ملے گا، ملک سے غربت کا خاتمہ ہونے والا ہے، ہم نے کشکول توڑ دیا ہے، ہم نے ملک کو صحیح راستے پر ڈال دیا ہے، ہم نے ملک سے کرپشن کا خاتمہ کردیا ہے، تو ایسا لگتا ہے کہ سانس گھٹنے والا ہے۔ یہ ہی باتیں سننے کے بعد طبیعت ہشاش بشاش ہوتی ہے اور جب ہمارے حکمران اپنے کارناموں کی وجہ سے پکڑ میں آجاتے ہیں اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں تو پھر وہ ہمیں کیوں نکالا، تمہیں کیا، کا ورد کرنا شروع کردیتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں تو پھر ان باتوں کا سننے کا مزا ہی الگ آتا ہے۔
ہمیں تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب ایک بہت بڑے چوراہے پر بیٹھے ہوئے ہیں اور چاروں طرف سے لاؤڈ اسپیکروں پر مسلسل لگاتار پروپیگنڈے پہ پرو پیگنڈا سنے جارہے ہیں، سنے ہی جارہے ہیں۔ ایک بات تو طے ہے کہ ہماری اشرافیہ اور حکمرانوں نے ہٹلر کے عقائد و افکار اور طور طریقے اپنا کر پاکستان کے بیس کروڑ لوگوں کو معاشی طور پر تباہ و برباد کردیا ہے اور یہی وہ نکتہ تھا، جسے ہٹلر بھی سمجھ نہیں پایا تھا کہ کسی کو بے بس کرنے کے لیے اس کے ہاتھ پاؤں توڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اسے صرف معاشی طور پر کنگال کردو، وہ خودبخود بے بس ہوجائے گا اور آپ کے خلاف اٹھنے کا کبھی سوچے گا بھی نہیں، پھر آپ مزے سے طاقت، اقتدار، اختیار کے مزے لیتے رہو، خو ب لوٹ مار کرتے رہو۔
اگر ہٹلر یہ نکتہ سمجھ لیتا تو پھر اتنی قتل و غارت ہرگز نہ کرتا۔ اس معاملے میں تو ہماری اشرافیہ اور حکمران اس سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ اگر ہٹلر آج زندہ ہوتا تو وہ اس معاملے میں ٹریننگ حاصل کرنے کے لیے پاکستان ضرور آتا۔ ذرا تصور کریں جب وہ اپنے عقائد و افکار اور طور طریقوں کا پاکستان میں اس قدر بول بالا دیکھتا تو کس قدر خوش ہوتا اور ہماری اشرافیہ اور حکمرانوں کو کسی قدر شاباشی دیتا، لیکن افسوس کہ اسے اتنا خوش ہونے کا موقع ہی نہ مل سکا، اب صرف ہم ہیں اور ہٹلر کے عقائد و افکار، طور طریقے ہیں اور ہماری بے بسی ہے۔