نتیجے کے مطابق
پاکستان میں ہونے والے انتخابات کی روداد.
2013ئمیں پاکستان میں ایک تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔
ملک کی65سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت اپنی مدت پوری کرکے عنان اقتدار دوسری جمہوری حکومت کے حوالے کرے گی۔ چوںکہ انتقال اقتدار کا یہ مرحلہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملے گا، لہٰذا سیاسی ماہرین، مبصرین اور تجزیہ کار اسے ایک روشن پاکستان کی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ اقتدار کی یہ منتقلی اس سے پہلے پاکستان کی تاریخ میں جمہوری طریقے سے نہیں آئی ہے، بلکہ یہاں پر اقتدار منتقلی نہیں اقتدار پر قبضہ بار بار ہوا ہے۔
فوجی جرنیلوں نے بزور شمشیر اقتدار پر قابض ہوکر اس ملک پر 35سال تک حکم رانی کی اور اقتدار کے مزے لیے۔ ان مارشلائوں کے حوالے سے جہاں تک فوجی جرنیل ذمے دار ٹھہرتے ہیں، وہیں ہماری بعض سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اور اپنی نااہلیوں کے ذریعے ڈکٹیٹروں کو اقتدار پر قابض ہونے کی راہ دکھاتی رہی ہیں۔ لیکن آج پاکستان کی عوام اور سیاسی جماعتیں بہت تلخ تجربات سے گزر کر ہر صورت میں جمہوریت کا دفاع کرنے کے لیے پر عزم دکھائی دیتے ہیں۔
اگر تاریخی حقائق کو مد نظر رکھ کر پاکستان میں جمہوریت کی صورت حال کا ماضی کے تناظر میں تجزیہ کریں تو اس کی مثال اس شیر خوار بچے کی مانند ہے جو اٹھنے اور چلنے کی آرزو میں بار بار اپنے پائوں پر کھڑا تو ہوجاتا ہے، لیکن ہر بار منہ کے بل گر پڑتا ہے۔ پاکستان کی 65سالہ تاریخ میں جمہوریت کی صورت حال کچھ ایسی ہی رہی ہے۔ جب بھی جمہوریت نے سنبھلنا شروع کیا تو کسی فوجی جرنیل نے اس کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں دہائیاں مارشلائوں پر محیط گزری ہوں وہاں پر کسی جمہوری حکومت کا آئینی اور پُرامن انتقال اقتدار خوش آئند ہے۔
اس وقت پاکستان میں جمہوریت کا پودا نشونما پارہا ہے اور اب یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ جمہوریت مخالف نادیدہ قوتوںکی خواہشات کے برعکس یہ ایک تناور درخت میں تبدیل ہونے کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف جمہوریت مخالف عناصر اپنے لائحہ عمل پر گام زن آئے دن پاکستان کے طول وعرض میں مختلف شکلوں میں نمودار ہورہے ہیں۔
کبھی دہشت گردوں کی صورت میں تو کبھی غیر ملکی اسپانسرڈ اور غیر ملکی ہدایات پر مشتمل لانگ مارچوں کی صورت میں، لیکن ان سب عوامل کے ہوتے ہوئے بھی جمہوریت کی گاڑی ہچکولے کھاتی ہوئی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ پاکستان میں جمہوریت پر ڈھائے گئے ظلم وستم کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہوگا اور جمہوریت کی داستان کا تفصیلی جائزہ لینا پڑے گا، تاکہ ہم جان سکیں کہ وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے یہاں جمہوریت کا راستہ روکے رکھا اور جرنیل اقتدار پر قابض ہوتے رہے۔
1954 کے انتخابات:
پہلی آئین ساز اسمبلی قیام پاکستان سے قبل 1935کے آئین کا حصہ تھی جس کا انتخاب1946کی صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے عمل میں آیا تھا۔ 79ارکان پر مشتمل اس اسمبلی کا کام آئین کی تیاری اور قانون سازی تھا۔1954میں مرکز میں محمد علی بوگرہ کی وزارت تھی کہ مشرقی بنگال میں صوبائی انتخابات کی ضرورت پیش آئی، جو کہ مارچ1954میں ہوئے۔ ان انتخابات کی وجہ سے ملکی فضاء مزید خراب ہوگئی۔ صوبے کو مختلف فسادات اور خونیں واقعات سے دو چار ہونا پڑا۔
اس انتخاب میں1947ء سے برسر اقتدار رہنے والی جماعت مسلم لیگ کے علاوہ کئی اور دوسری جماعتوں نے بھی حصہ لیا تھا۔ انتخابات سے قبل حسین شہید سہروردی، مولانا بھاشانی اور مولوی فضل الحق نے مسلم لیگ کا مقابلہ کرنے کے لیے متحدہ محاذ (یونائیٹڈ فرنٹ) قائم کیا، جس کا 21نکاتی منشور صوبائی خود مختاری کی اساس پر بنایاگیا تھا۔ اس اثناء میں کمیونسٹ پارٹی نے بھی اپنا کام شروع کردیا۔
مسلم لیگ کی مدد کے لیے مغربی پاکستان سے بھی مختلف نمائندے پہنچے، جن میں قابل ذکر محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت تھی۔ اس کے باوجود 309ارکان کی اسمبلی میں223 نشستیں متحدہ محاذ نے، باقی دوسری چھوٹی جماعتوں نے حاصل کیں۔ مسلم لیگ نے بہ مشکل10نشستیں حاصل کیں۔ مسلم لیگی وزیراعلیٰ نور الامین کو ایک نوجوان طالب علم کا ہاتھوں شکست ہوئی۔ انتخابات کے نتائج مکمل ہونے بھی نہ پائے تھے کہ صوبے کے اہم صنعتی علاقوں میں فسادات کا بازار گرم ہوگیا۔
صوبے میں متحدہ محاذ کی مخلوط حکومت قائم ہونے میں بہت دیر لگی۔ صوبے میں افراتفری اور انتشار رہا۔ ان حالات کے پیش نظر گورنر جنرل غلام محمد نے اس نئی وزارت کو معطل کرکے آئین کی دفعہ93کے تحت مشرقی بنگال میں گورنر راج نافذ کردیا۔ چوہدری خلیق الزماں کو ہٹاکر سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا کو صوبے کا گورنر مقرر کردیا گیا۔ مولوی فضل الحق کی قیادت میں متحدہ محاذ کی وزارت دو ماہ کے اندر ختم ہوگئی۔
1955 کے انتخابات:
دوسری آئین ساز اسمبلی بالواسطہ طور پر صوبائی اسمبلیوں کے ذریعے1955میں تشکیل پائی۔ اس اسمبلی کے80 ارکان کا انتخاب مارچ1955میں ہوا۔ اس نئی اسمبلی کا پہلا اجلاس7جولائی1955کو مری میں منعقد ہوا۔ انتخابی نتائج کی رو سے پارٹی پوزیشن یہ تھی: مسلم لیگ26، کرشک سرامک پارٹی16، عوامی لیگ13، کانگریس4، پروگریسیو پارٹی2، اچھوت فیڈریشن3، اور باقی آزاد ارکان۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی سیٹیں مساوی تھیں۔
پہلے ہی اجلاس میں مختلف جماعتوں کے ارکان نے مخلوط وزارت میں حصہ دار ہونے کے لیے اپنی کوششیں تیز کردیں۔ دریں اثناء گورنر جنرل ملک غلام محمد علیل ہوگئے۔ ان کی جگہ اسکندر مرزا نے16اگست1955کو قائم مقام گورنر جنرل ہوتے ہی چوہدری محمد علی کو وزیراعظم نامزد کردیا۔ عوامی لیگ کے12ارکان نے اس کو بد عہدی سے تعبیر کیا اور مسلم لیگ پر الزام لگایا کہ اس نے اس روایت کی خلاف ورزی کی ہے کہ جب گورنر جنرل مغربی پاکستان کا ہو تو وزیراعظم مشرقی پاکستان کا ہوگا۔
اس نئی آئین ساز اسمبلی کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ اس نے 1956کا آئین تیار کیا، جس کی رو سے آئین ساز اسمبلی آئین منظور کرتے ہی قومی اسمبلی میں تبدیل ہوگئی۔ 1958 میں اس آئین کے تحت نئے انتخابات ہونے والے تھے اور سیاسی جماعتوں نے انتخابی تیاریاں بھی شروع کردی تھیں کہ7اکتوبر1958کو مارشل لا نافذ کردیا گیا۔
1962 کے انتخابات:
چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل محمد ایوب خان نے7اکتوبر1958 کو اقتدار مطلق حاصل کرنے کے بعد 1956کا آئین منسوخ کردیا۔ انہوں نے اگلے سال27اکتوبر 1959کو ایک نیا سیاسی نظام ''بنیادی جمہوریتوں،، کے نام سے متعارف کرایا، جس کے تحت پارلیمانی طرز نظام کو ختم کرکے صدارتی نظام رائج کیا گیا اور اس کی بنیاد پر 1962میں ایک نیا دستور بھی نافذ کیا جس کے تحت وہ ''صدر،، منتخب ہوئے۔
اس مارشلائی آئین کے تحت مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں چالیس چالیس ہزار انتخابی حلقے بنائے گئے جو صدر مملکت کا براہ راست انتخاب کرتے تھے۔ چناںچہ1962میں اس طرز انتخاب کے تحت 2جنوری1965کو ملک میں صدارتی انتخابات ہوئے، جن میں محترمہ فاطمہ جناح، محمد ایوب خان، کے ایم کمال اور میاں شبیر احمد نے حصہ لیا، ایوب خان نے کام یاب ہوکر 23مارچ1965کو صدر مملکت کے عہدے کا حلف از سر نو اٹھایا۔ 6ستمبر کو پاک بھارت جنگ چھڑ گئی، اس کے بعد صدر ایوب کے عہد حکومت کا بتدریج زوال شروع ہوگیا۔
1970 کے انتخابات:
ایوب خان نے25مارچ 1969کو تمام اختیارات کمانڈر انچیف جنرل آغا خان کے سپرد کردیے۔ انہوں نے فوراً ملک میں مارشل لا نافذ کردیا، آئین منسوخ کردیا گیا، اسمبلیاں توڑدی گئیں، ون یونٹ توڑدیا گیا۔ 20مارچ1970کو لیگل فریم ورک جو نئی قومی اسمبلی کے لیے آئین سازی کی بنیاد قرار دیا گیا۔ اس آرڈر کے تحت 7دسمبر1970ء کو بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات منعقد ہوئے، امن وامان برقرار رہا،300ارکان کے ایوان میں انتخابی نتائج کی صورت یہ برآمد ہوئی: عوامی لیگ151، پیپلزپارٹی81، مسلم لیگ کونسل7، جمعیت علمائے اسلام7، نیپ (نیشنل عوامی پارٹی)6، جماعت اسلامی4، جمہوری پارٹی1، آزاد ارکان16، ان میں سے کوئی بھی سیاسی پارٹی ملک کے دوسرے حصے میں ایک بھی نشست حاصل نہ کرسکی۔
پیپلزپارٹی نے صرف دو صوبوں یعنی پنجاب اور سندھ میں نمایاں کام یابی حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں آئینی بحران پیدا ہوا، عوامی لیگ کو اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود اقتدار نہیں دیا گیا، جس کے باعث مشرقی پاکستان میں احتجاج شروع ہوگیا، مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن ہوا، جس کے بعد پاک بھارت جنگ شروع ہوگئی، سقوط مشرقی پاکستان ہوا،93ہزار پاکستانی فوجی بھارت نے قیدی بنالیے۔
2دسمبر1971 کو پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے عنان حکومت سنبھالی۔
1977 کے انتخابات:
پاکستان پیپلزپارٹی کے پہلے دورِحکومت میں 7جنوری1977کو عام انتخابات ہوئے۔ اس الیکشن میں برسراقتدار پاکستان پیپلزپارٹی اور حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل ''پاکستان قومی اتحاد'' کے مابین اصل مقابلہ تھا۔الیکشن کمیشن کے جاری کردہ نتائج کے مطابق 200نشستوں میں سے پی پی پی نے 155 نشستیں حاصل کیں، جب کہ پاکستان قومی اتحاد کو 36 نشستیں ملیں۔ انتخابات میں دھاندلیوں کا الزام لگا کر پاکستان قومی اتحاد نے زبردست احتجاجی تحریک چلائی، جس کے نتیجے میں جنرل محمد ضیاء الحق نے5جولائی1977کو مارشل لا نافذ کردیا۔
1984 کا ریفرنڈم:
جنرل ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپنی پہلی نشری تقریر میں نوے دن کے اندر اندر عام انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ یہ وعدہ بار بار دہرایا گیا، انتخابات ملتوی ہوتے گئے، حتیٰ کہ1984میں انہوں نے انتخابات کی بجائے ایک ریفرنڈم کرانا منظور کیا، جو19دسمبر1984کو منعقد ہوا۔ مندرجہ ذیل طویل سوالوں کا جواب رائے دہندگان سے صرف ہاں یا نہیں کی صورت میں دریافت کیا گیا تھا،''کیا آپ صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کے اس عمل کی تائید کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان کے قوانین کو قرآن حکیم اور سنت رسولؐؐ کے مطابق اسلامی احکامات سے ہم آہنگ کرنے اور نظریہ پاکستان کے تحفظ کے لیے شروع کیا اور کیا آپ اس عمل کو جاری رکھنے مزید استوار کرنے اور منظم اور پُرامن طریقے سے اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقلی کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔
ریفرنڈم کے لیے پہلے ہی یہ شرط عائد کردی گئی تھی کہ اگر نتیجہ ہاں کی صورت میں برآمد ہوا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ مزید پانچ سال کے لیے جنرل ضیاء الحق ہی صدر مملکت کے عہدے پر فائز رہیں گے۔عام ووٹروں نے ریفرنڈم میں دل چسپی نہیں لی۔ بہت کم حق رائے دہندگی کے ساتھ جنرل صاحب آئندہ پانچ سال کے لیے صدر مملکت منتخب ہوگئے۔
1985 کے انتخابات:
یہ انتخابات ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غیرجماعتی بنیاد پر منعقد کرائے گئے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مرکز اور چاروں صوبوں میں منتخب سول حکومتیں قائم ہوئیں اور اس کے بعد ملک تیزی سے جمہوریت کی راہ پر گام زن ہوا۔ 25مارچ کو محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ 30دسمبر1985کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 5جولائی1977کا فرمان منسوخ کردیا گیا ہے۔ تمام فوجی عدالتیں منسوخ کردی گئی ہیں، مارشل لا کے دفاتر بند کردیے گئے ہیں۔30دسمبر ہی کو پارلیمنٹ میں نئے وزیراعظم محمد خان جونیجو نے مارشل لا کے خاتمے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ملک سے بیس سال بعد ہنگامی حالات کا خاتمہ کیا جارہا ہے، لیکن ان جمہور نواز عزائم کو صدر ضیاء الحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے29مئی1988کو ختم کردیا اور جونیجو کی وزارت عظمیٰ کا بھی خاتمہ ہوگیا۔
1988 کے انتخابات:
17اگست1988کو جنرل ضیاء الحق بہاولپور کے قریب ایک فضائی حادثے میں جاں بہ حق ہوگئے۔ ان کی جگہ سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے صدر مملکت کا عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ جیسا کہ مرحوم جنرل ضیاء الحق نے وعدہ کیا تھا عام انتخابات16نومبر ہی کو منعقد ہوںگے۔ چناںچہ سپریم کورٹ کے ایک آئینی فیصلے کی رو سے یہ انتخابات جماعتی بنیاد پر امن وامان کی بہتر فضاء میں منعقد ہوئے۔ انتخابی نتائج کی تفصیل یہ ہے: پاکستان پیپلزپارٹی93 نشستیں، اسلامی جمہوری اتحاد55، آزاد امیدوار27، جمعیت علمائے اسلام7، جمعیت علمائے پاکستان3، پاکستان عوامی اتحاد3، بلوچستان نیشنل الائنس2، عوامی نیشنل پارٹی2، نیشنل پیپلزپارٹی1، پی ڈی پی 1، حق پرست (ایم کیو ایم)13 اور فاٹا کے منتخب اراکین2۔ پیپلزپارٹی نے حق پرست گروپ اور فاٹا کے اراکین کے اشتراک سے حکومت بنائی۔
محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 6اگست1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے ان کی حکومت کو ختم کردیا۔ غلام مصطفی جتوئی کو نگراں وزیراعظم مقرر کیا اور 24اکتوبر کو عام انتخابات کرانے کا اعلان کیا۔
1990 کے انتخابات:
24اکتوبر1990کے انتخابی نتائج کی روشنی میں6نومبر1990کو آئی جے آئی میں شامل سب سے بڑی اور موثر جماعت مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا۔207ارکان کے ایوان کی صورت حال یہ ہوئی، پی پی پی، پی ڈی اے44، آئی جے آئی106، ایم کیو ایم15، عوامی نیشنل پارٹی6، جمعیت علمائے اسلام6، جمعیت علمائے پاکستان3، جمہوری وطن پارٹی2، پاکستان نیشنل پارٹی2، پختون خواملی عوامی پارٹی1، آزاد ارکان22، 18اپریل1993کو صدر غلام اسحاق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے میاں نواز شریف کی حکومت برخواست کردی اور مہر بلخ شہر مزاری کو نگراں وزیراعظم نام زد کردیا۔
میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ میں صدر مملکت کے اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کردی جو منظور ہوئی۔ 26مئی1993کو وہ دوبارہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ صدر مملکت سے تنازعہ اب ناقابل حل ہوچکا تھا۔ اس لیے آرمی چیف عبدالوحید کاکڑ کی مصالحت سے صدر اور وزیراعظم دونوں نے اقتدار سے علیحدگی اختیار کی۔ نئے انتخابات کا اعلان ہوا نئی اسمبلی کے قیام تک سینیٹ کے چیئرمین وسیم سجاد قائم مقام صدر مملکت اور معین قریشی نگراں وزیراعظم مامور ہوئے۔
1993 کے انتخابات:
اکتوبر1993کے عام انتخابات کے نتیجے میں پانسا پھر پیپلزپارٹی کے حق میں پلٹ گیا۔ محترمہ بینظیر بھٹو وزیراعظم منتخب ہوئیں، ان کے نمائندے سردار فاروق احمد خان لغاری صدر منتخب ہوئے، اعداد وشمار کی کیفیت یہ ہوئی۔ پی پی پی، پی ڈی اے86، آئی جے آئی، مسلم لیگ73، اے این پی3، جے یو آئی4، جے یو پی2، جے ڈبلیو پی2، جے آئی3، پی ایم اے پی3، مسلم لیگ (ج) 6، بی این ایم2، آزاد16۔ ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کے الیکشن کا بائیکاٹ کیا، مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ جماعت اسلامی نے ''اسلامی جمہوری اتحاد،، سے علیحدہ ہوکر انتخاب لڑا۔ 5نومبر1996کو صدر مملکت سردار فاروق لغاری نے زبردست بدعنوانیوں کے الزام میں آٹھویں ترمیم ہی کے ذریعے اس اسمبلی کو منسوخ کیا اور 3فروری1997کو نئے انتخابات کا اعلان کرتے ہوئے ملک معراج خالد کو نگراں وزیراعظم نام زد کردیا۔
1997 کے انتخابات:
3فروری1997کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں میاں محمد نواز شریف دوبارہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے، انتخابی نتائج کی صورت حال یہ رہی: پاکستان مسلم لیگ اور اتحادی134، پی پی پی، پی ڈی اے18، ایم کیو ایم12، جمعیت علمائے اسلام2، اے این پی9، جمہوری وطن پارٹی2، بی این پی، بی این اے3، آزاد ارکان 22اور دیگر پارٹیاں2۔ میاں نواز شریف کی اس بھاری مینڈیٹ والی سرکار کو انہی کے نام زد کیے گئے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے12اکتوبر1999کو چلتا کیا۔ پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجینسی نافذ کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ مارچ 2000 میں پرویزمشرف نے بلدیاتی انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ مئی2000میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے مشرف کی کارروائی کو جائز قرار دیتے ہوئے انھیں تین سال کی مہلت دی۔
2002 کے انتخابات:
20جون2001کو مشرف نے صدر کا عہدہ سنبھالا اور اکتوبر2002میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ اپریل2002میں مشرف نے ایک متنازعہ ریفرنڈم کروایا اور خود کو مزید پانچ برس کے لیے صدر بنالیا۔ انہوں نے آئین میں بھی ترمیم کرواکر وزیراعظم کی نام زدگی کا حق صدر کو دے دیا گیا۔ اس نے آئین میں کل29 ترامیم نافذ کروائیں۔ ان ترامیم کے تحت پارلیمینٹ کی نشستوں میں اضافہ کیا گیا۔ یوں قومی اسمبلی کی نشستیں بڑھ کر342 ہوگئیں، جن میں سے 272 پر اراکین براہ راست منتخب ہوتے ہیں اور 70خصوصی نشستیں ہیں۔
مشرف کے اعلان کردہ انتخابات میں ان کے من پسند افراد کی اکثریت جیت گئی اور مشرف انہی من پسند ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ سے اپنے اقدامات کی توثیق کرواتے رہے۔ 2002کے انتخابی نتائج کی صورت حال کچھ یوں رہی: مسلم لیگ (کیو) 118، ایم ایم اے59، پی پی پی80، پی ایم ایل (این)18، ایم کیو ایم پی 17، نیشنل الائنس16، پی ایم ایل (ایف)5، پی ایم ایل (جے)3، پی پی پی (شیرپاؤ)2، بی این پی1، پی اے ٹی1، پی ایم ایل(زیڈ)1، پاکستان تحریکِ انصاف1، آزاد1۔ ان انتخابات کے کئی ہفتوں اور طویل بحث ومباحثے کے بعد پاکستان کی 21نومبر2002کو پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والے میر ظفر اﷲ جمالی کو نگراں وزیراعظم منتخب کیا گیا۔
یوں پہلی بار وزارت عظمیٰ بلوچستان کے حصے میں آئی۔ 26 جون 2004 میں چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ اختلافات کی بنا پر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے اور نگراں وزیراعظم کے طور پر چوہدری شجاعت حسین وزیراعظم بن گئے۔ مشرف کابینہ کے وزیر خزانہ شوکت عزیز کو تھرپارکر سے جتواکر28 اگست2004 کو وزیراعظم بنایا گیا۔ اپنی مدت پوری کرنے کے بعد انہوں نے پاکستان کو خیر باد کہہ کر امریکا میں رہائش اختیار کرلی۔ جنرل مشرف نے اپنے من پسند پارلیمنٹ سے اپنی صدارت کی مدت میں توسیع بھی کرالی، جس کی وجہ سے وہ2007تک اس عہدے پر فائز رہے۔ مشرف نے2004کے آخر تک فوجی وردی چھوڑنے کا وعدہ کیا، جو نمبر2007سے پہلے پورا نہ کیا۔
2008 کے انتخابات:
وکلاء برادری کی عظیم تحریک، بین الاقوامی برادری کے دباؤ، پاکستانی سیاسی قوتوں کے ملاپ، پاکستان کی آزاد میڈیا اور خاص کر دختر مشرق محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت نے پرویزمشرف کو انتخابات منعقد کرانے اور بعدازاں صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کردیا۔ وردی کے بغیر پرویزمشرف کی طاقت کم ہوگئی تھی، لہٰذا وہ فروری2008میں انتخابات کرانے پر مجبور ہوگئے۔ ان انتخابی نتائج کی صورت حال یوں رہی: پی پی پی125، پی ایم ایل (نواز)92، پی ایم ایل (کیو)50، اے این پی13، ایم ایم اے8، پی ایم ایل ایف5، بی این پی (عوامی)1، پی پی پی شیرپائو1، این پی پی 1، آزاد ارکان20۔
ان انتخابی نتائج میں کسی جماعت کو واضح اکثریت نہ مل سکی اور البتہ پاکستان پیپلزپارٹی نے پاکستان مسلم لیگ (کیو)، عوامی نیشنل پارٹی اور ایم کیو ایم کے اشتراک سے حکومت بنائی۔ ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق اسپیکر قومی اسمبلی یوسف رضا گیلانی25مارچ کو وزیراعظم منتخب ہوئے۔ مشرف دور میں برطرف کیے گئے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چوہدری اور ان کے ساتھی ججز کو بحال کردیا گیا، سپریم کورٹ کی بحالی کے بعد سوئس حکام کو خط کے معاملے میں اسی سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو سزا سناکر وزارت عظمیٰ سے مستعفی کروایا اور وزارت عظمیٰ کا قرعہ راجہ پرویز اشرف کے نام نکل آیا۔
2013میں پاکستانی عوام ایک بار پھر پاکستانی عوام الیکشن کے مرحلے سے گزریں گے۔ پاکستان جمہوریت کی شاہراہ پر گام زن ہوچکا ہے۔ عوام اپنی سوچ کے مطابق اپنی پسند کے نمائندوں کو کام یاب کریں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار انتخابات کے نتائج کی رہتے ہیں اور اقتدار کے ایوانوں میں کون سی جماعت داخل ہوگی۔