حکومت جاتے جاتے دو غیر معمولی کام کرگئی
پاک ایران پائپ لائن اور گوادر پورٹ کی چین کو حوالگی ہمیں حقیقی خودانحصاری کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے.
کئی دہائیوں کی سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے بعد انتخابات کے نتیجے میں قائم ہونے والی پیپلزپارٹی کی مرکزی حکومت نے ایک کارنامہ تو یہ انجام دیا ہے کہ اپنی آئینی مدت پوری کرلی ہے (ممکن ہے کہ جب یہ تحریر قارئین تک پہنچے ملک میں نگران حکومتیں قائم ہوچکی ہوں)۔
اِس حکومت کا دوسرا امتیاز یہ رہا کہ شاید ہی ماضی میں کسی حکومت نے اتنی بدنامی سیمٹی ہو جتنی اِس حکومت کی جھولی میں پڑی ہے۔ اِس کے باوجود یہ بات انتہائی مثبت رہی کہ ملک کے سب اہم اداروں نے کوشش کی کہ حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں کامیاب ہو جائے۔ پیپلزپارٹی کے اِس پانچ سالہ دور میں عوام کو بہت سے صدمے برداشت کرنے پڑے۔ رینٹل پاور کیس ، حج میں کرپشن، ایفی ڈرین کیس ، تیل اور گیس کے قومی ادارے اوگر ا کے سابق چیئرمین توقیر صادق کے ہاتھوں قومی خزانے کو 83 ارب روپے کے نقصان کا الزام اور اِس جیسے اور کئی اسکینڈل اخبارات اور پرنٹ میڈیا پر چھائے رہے۔
امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے میمو گیٹ اسکینڈل کے باعث ذلت اُٹھانا پڑی، ڈرون اٹیک مسلسل جاری رہے ، دہشت گردی میں بے پناہ اضافہ ہوا، امریکی ایجنٹ ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں تین پاکستانیوں کی ہلاکت اور اِس کے بعد قاتل کو باحفاظت امریکہ پہنچانے کی شرمناک صورتحال سے بھی ملک کے عوام کو گزرنا پڑا، مہنگائی میں ہوشربا اضافہ، امن و امان کی انتہائی خراب صورتحال ، بجلی اور گیس کی قلت سمیت ہر طرح کے مسائل عوام کے درپے رہے ۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ بجا ہیں لیکن اِس حکومت نے اپنے آخری دنوں میں دو ایسے کام کردکھائے ہیں جو ملک کیلئے انتہائی دورس مثبت اثرات کے حامل ہوں گے۔
اِن میں سے پہلا فیصلہ گوادر پورٹ کو چین کے حوالے کرنا اور دوسرا ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہے۔ عام لوگوں کیلئے یہ دونوں فیصلے غیر متوقع بھی تھے کیونکہ عوام میں پیپلزپارٹی کی اِس حکومت کے امریکہ نواز ہونے کا تاثر عام تھا۔ سب سے پہلے کچھ تذکرہ پاک ایران گیس پائپ لائن کا ہو جائے۔ اسے آئی پی پائپ لائن یا پھر امن پائپ لائن بھی کہا جاتا ہے۔ جب اِس پر ابتدائی سوچ بچار ہو رہی تھی تو بھارت بھی اِس منصوبے میں شامل تھا ۔ یوں ابتدائی طور پر اسے آئی پی آئی پائپ لائن کہا جاتا تھا۔ یعنی ایران پاکستان انڈیا پائپ لائن) جب بات آگے بڑھی تو امریکہ کے دبائو پر بھارت نے اِس منصوبے سے ہاتھ کھینچ لیا۔ بھارت کے اِس فیصلے سے بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اِس خطے میں ملکوں کے باہمی تعلقات کا نقشہ بڑی حد تک تبدیل ہوچکا ہے۔
ابتدائی طور پر اِس پائپ لائن کا خیال 1950 کے وسط میں ایک نوجوان پاکستانی سول انجینئر ملک آفتاب احمد خان کے ذہن میں آیا تھا۔ اپنے اِس خیال کا اظہار انہوںنے ملٹری کالج آف انجینئرنگ رسالپور کے میگزین میں شائع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل کے ذریعے کیا ۔ اِس آرٹیکل میں اِس گیس پائپ لائن کے تحفظ کے قابل عملی انتظامات کا تفصیلی ذکر بھی موجود تھا جس کے مطابق پائپ لائن کے راستے میں آنے والے سندھ اور بلوچستان کے اُن علاقوں میں جہاں گڑبڑ کا اندیشہ ہو، پائپ لائن کے ساتھ ساتھ ایک بٹالین کی گنجائش والی چھوٹی چھوٹی چھاونیاں بنائی جائیں گی۔
اِس منصوبے کو عملی صورت میں لانے کے لئے ابتدائی کام بھارت کے نوبل انعام یافتہ انجینئر اور انٹرنیشنل پینل آن کلائمیٹ چینج کے سابق چیئرپرسن راجندر کمار پاچوری اور ایران کے سابق نائب وزیر خارجہ علی شمس اردکانی نے کیا۔ راجندر کمار نے یہ منصوبہ ایران اور بھارت دونوں کے لئے تجویز کیا تھا ۔ مہندر انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف انرجی اکنامکس کی 2012 میں ہونے والی سالانہ کانفرنس میں ایران نے پاچوری کی تجویز کی حمایت کا اعلان کیا۔ بعد میں امریکہ سے بڑھتی ہوئی قربت کے باعث بھار ت کو اِس منصوبے سے کنارہ کشتی اختیار کرنا پڑی۔
ایران کی سرحد سے پاکستان کے اندر پائپ لائن کی لمبائی 785 کلو میٹر ہوگی۔ یہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کے علاقے خضدار سے گزرے گی ۔ مین پائپ لائن سے ایک شاخ نکل کر کراچی جائے گی جبکہ بنیادی پائپ لائن ملتان پہنچے گی۔ اِس پائپ لائن کے ذریعے سالانہ 310 ارب کیوبک فٹ قدرتی گیس پاکستان پہنچے گی جبکہ اِسے بڑھا کر 1.4 کھرب کیوبک فٹ کیا جاسکتا ہے۔ 56 انچ قطر کی اِس پائپ لائن کی تعمیر پر ساڑھے سات ارب امریکی ڈالر خرچ آئے گا۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک امریکہ کے ساتھ پاکستان کے بالادست طبقات کی قربت رہی اور یہ قربت کبھی بھی عوامی سطح تک نہیں پہنچ پائی، کیونکہ امریکہ اور اِس کی ہاں میں ہاں ملانے والے مغربی ممالک کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ پاکستان اُن کا دست نگر رہے۔ ساری دنیا کے پسماندہ ممالک کو ایک خاص حد سے اوپر ابھرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ امریکہ اور اِس کے حواری چاہتے ہیں کہ انہیں اِن پسماندہ ممالک سے سستا خام ملتا رہے جسے وہ اپنی ٹیکنالوجی کی مدد سے مصنوعات میں بدل کر سونے کی قیمت پر فروخت کریں۔ پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں ایک بھی ایسا منصوبہ امریکہ اور مغربی ممالک کی جانب سے پاکستان میں نہیں لگایا گیا جس کا مقصد خود کفالت ہو۔ ایسے سب کے سب منصوبے چین کی مدد سے قائم ہوئے۔
حتیٰ کہ روس نے بھی پاکستان میں سٹیل ملز کا منصوبہ مکمل کیا جس کا مقصد پاکستان کو فولاد سازی میں خودکفالت کے راستے پر گامزن کرنا تھا۔ حیرت کی بات ہے کہ اِس کے باوجود پاکستان کی اشرافیہ اور حکمران طبقات کا جھکائو ہمیشہ امریکہ کی جانب رہا ۔ ہماری سیاسی جماعتیں ہمیشہ اقتدار میں آنے کے لئے امریکی آشیر باد کے متلاشی رہیں۔ خاص طور پر حزب اختلاف والے بڑھ چڑھ کر یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ حکومت سے زیادہ بہتر انداز میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ پاک ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے کے افتتاح کے بعد زیادہ تر شخصیات نے اِس کا خیرمقدم ہی کیا ہے ۔
دوسری جانب امریکہ مسلسل پاکستان پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ اِس تنائو والے ماحول میں مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان کی طرف سے یہ بیان منظر عام پر آیا ہے کہ ن لیگ برسر اقتدار آکر اِس منصو‚ے کا ازسرنو جائزہ لے گی اور اگر یہ ملکی مفاد میں ہوا تو اِسے جاری رکھا جائے گا ۔ یقینا اِس طرح کے بیان کا قطعی کوئی جواز نہیں بنتا۔ اِس کا عمومی تاثر تو یہ بنتا ہے کہ امریکہ کو ابھی مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ ہم اقتدار میں آکر اسے ختم بھی کرسکتے ہیں۔ اِس بیان کے حوالے سے یقینا ن لیگ کی اعلیٰ قیادت کو وضاحت کرنی چاہئے۔
امریکہ اِس پائپ لائن کی مخالفت کیوں کر رہا ہے؟
پہلی بات یہ کہ ایران کا ایٹمی پروگرام امریکہ کیلئے ناقابل قبول ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی برتری کو زائل کرنے والی کوئی بھی تبدیلی امریکہ کو پسند نہیں۔ دوسرے یہ کہ خطے کی حالیہ صورتحال میں پاکستان کو معاشی دبائو سے نکالنے والا کوئی بھی اقدام امریکہ کو گوارا نہیں ۔ وہ رینٹل پاور جیسے اقدامات کا مشورہ دے سکتا ہے جس سے ملکی معیشت پر غیر معمولی بوجھ پڑے لیکن اگر سستی گیس دستیاب ہو تو اِس میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔
امریکہ پاکستان کو اِس بات پر مجبور کرتا رہا ہے کہ پاکستان کو ترکمانستان کے دولت آباد گیس فیلڈ سے افغانستان کے صوبے ہرات اور قندھار کے راستے کوئٹہ اور ملتان تک لائی جانے والی مجوزہ پائپ لائن، باوجود اس کے کہ یہ منصوبہ بہت مہنگا ہے اور اس پائپ لائن کو جنگ میں گھرے افغانستان سے ہو کر پاکستان پہنچنا ہے جہاں پر پہلے ہی پاکستان کے لئے انتہائی غیر موافق حالات پیدا ہوچکے ہیں ، پاکستان کو اس منصوبے میں شریک ہونے کے لئے قائل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی جسے امریکی خود غرضی کے سوا اور کوئی نام نہیں دیا جاسکتا ۔
حکومت کے ان آخری مہینوں میں دوسرا بڑا کام گودار پورٹ کی چین کو حوالگی کا فیصلہ ہے۔
رابرٹ ڈیون کپلان امریکہ کے ممتاز صحافی ہیں۔ وہ دی اٹلانٹک نامی میگزین کے ساتھ وابستہ ہیں جبکہ ان کے آرٹیکل واشنگٹن پوسٹ، دی نیویارک ٹائمز، دی نیوز پبلک، دی نیشنل انٹرلیٹ، فارن افیئرز اور وال اسٹریٹ جرنل جیسے موقر جریدوں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انہوں نے گوادر پورٹ کے حوالے سے کہا تھا '' اگر یہ بندرگاہ پوری طرح سے متحرک ہوگئی تو پھر یا تو وسطی ایشیاء کے خزانے پوری آب و تاب کے ساتھ منظر عام پر آ جائیں یا پھر اِس بندرگاہ کی تعمیر پاکستان کو انتہائی ہولناک اور تباہ کن خانہ جنگی کی طرف دھکیل دے گی۔''
یہ بات بڑ ی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ کیونکہ جوں جوں ہم ان منصوبوں کو مکمل کرنے کے قریب پہنچ رہے ہیں ملک کے اندرونی حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔ گوادر کی بندرگاہ کی کامیابی سے پورے خطے کی تجارت میں پاکستان کو اہم مقام حاصل ہو جائے گا جو پاکستان کے دشمنوں کو ہرگز گوارا نہیں۔ گوادر کے لئے جاری کشمکش میں وہ ملک بھی شریک ہوگئے ہیں جن کی بندرگاہوں پر ہونے والی تجارت گوادر کی کامیابی سے متاثر ہوگی۔ بھارت کو اِس سلسلے میں سرکاری سطح پر اپنی تشویش کا اظہار کرچکا ہے۔
یہاں پر بھی امریکہ کو اپنے مفادات خطرے میں نظر آ رہے ہیں کیونکہ وہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ وسطیٰ ایشیاء کے تیل کی تلاش اور ترسیل پر چین کی اجارہ داری قائم ہو۔ چین کے لئے گوادر کی جغرافیائی، تزویراتی (سٹرٹیجک ) اور اقتصادی اہمیت غیر معمولی ہے صرف اِس بندرگاہ کی مدد ہی سے چین اپنے مستقل کی توانائی کی ضروریات کے حصول کو یقینی بناسکتا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاک ایران گیس پائپ لائن اور گوادر کی چین کو حوالگی کے اِن دو اہم اقدامات کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ دونوں فیصلے ایک ہی پالیسی کا حصہ ہیں ۔ اگر چین کے تزویراتی مفادات عملی طور پر پاکستان کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں تو پھر مخالفین کے لئے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش میں ایک حد سے آگے جانا مشکل ہوگا۔
پیپلزپارٹی کی حکومت کے یہ دونوں فیصلے ملک کی تاریخ میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ مخالفت برائے مخالفت کرنے والے تو ان فیصلوں کی تحسین کرنے کے بجائے حکومت کی بدنیتی تلاش کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ اِس وقت ضرورت اِس بات کی ہے کہ ساری قوم اور تمام سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کا سایہ اِن فیصلوں پر نہ پڑنے دیں اور یک جان ہو کر اِن اقدامات کی کامیابی کو یقینی بنائیں۔
گوادر پورٹ
گوادر کے ساحل پر ایک تجارتی بندرگاہ کے قیام کے منصوبہ کا خیال پہلے پہل 1964ء میں سامنے آیا لیکن سرمائے کی کمی کے باعث اس پر کام کا آغاز نہ ہو سکا۔ ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد 2001ء میں چین نے اس منصوبے کی تکمیل کے لئے سرمایہ کاری کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ اس بندرگاہ کے قیام کے پیچھے جو سب سے اہم مقصد ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہ بندرگاہ کام کرنے لگے تو اس سے چاروں طرف سے خشکی میں گھری ہوئی وسطی ایشیائی ریاستوں اورافغانستان کو سمندر تک آسان اور قریب ترین رسائی میسر آ جائے گی۔
یہ بندرگاہ نہ صرف مذکورہ ممالک کو سہولت دے گی بلکہ اس سے روس کو اپنے منجمد سمندروں کے ذریعے تجارت کے بجائے آسان اور کئی گنا چھوٹا تجارتی روٹ میسر آ جائے گا جس کی مدد سے وہ باقی یورپی ممالک سے مقابلے کی بہتر پوزیشن میں آ جائے گا۔ گوادر پورٹ کے ساتھ مجوزہ سڑک اور ریل نیٹ ورک مکمل ہو جانے کے بعد پاکستان کو صرف تجارتی سرگرمیوں سے حاصل ہونے والا سرمایہ ملک کو تمام معاشی مسائل سے نکال لینے کے لئے کافی ہو گا۔
پائپ لائن کی ٹائم لائن
1994 ، پاک ایران حکومتوں کے درمیان بات چیت کا آغاز
1995، ابتدائی معاہدے پر دستخط
1999، فروری میں پائپ لائن کو بھارت تک توسیع کے ابتدائی معاہدے پربھارت ایران دستخط
2004، یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق منصوبے کا از سر نو اجراء
2007 ، پاکستان اور بھارت کا قیمتوں کے مسئلے پر ایران سے تنازعہ
2008، اپریل میں ایران کا چین کو بھی منصوبے میں شامل کرنے پر اظہاردلچسپی
2009، قیمتوں کے تنازعے پر بھارت کی منصوبے سے علیحدگی
2010، مئی میں ایران کی بنگلہ دیش کو بھی معاہدے میں شامل ہونے کی دعوت
2010، بھارت کا پاکستان اور ایران کو سہ فریقی مذاکرات کا مشورہ
2013، جنوری میں پاکستان کی جانب سے پائپ لائن سودے کی منظوری
2013 ،فروری میں منصوبے کے پاکستان سیکشن کی تعمیرکا افتتاح
2013 ،گیارہ مارچ کو پاکستانی اور ایرانی صدورکی جانب سے منصوبے کا باقاعدہ افتتاح