بُک شیلف
فارسی زبان کا تعلق ہمارے ادب ، زبان ، ثقافت اور تاریخ سے بہت گہرا، وسیع اور ہمہ گیر ہے۔
ISLAMABAD:
علامہ اقبال اور فارسی زبان وادب
مصنف : ڈاکٹرظہیر احمدصدیقی
صفحات: دوسو دس ،قیمت : دوسو روپے
ناشر : تخلیقات ، لاہور
علامہ اقبال کی شاعری دنیائے اردو میں زبان زد خاص و عام ہے، لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ علامہ اقبال کی شاعری کا بڑا حصہ فارسی زبان پر مبنی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ ان کے کلام کابیشتر حصہ فارسی زبان میں ہے تو غلط نہ ہو گا۔ فارسی زبان کا تعلق ہمارے ادب ، زبان ، ثقافت اور تاریخ سے بہت گہرا، وسیع اور ہمہ گیر ہے ۔ علامہ اقبال کی فارسی شاعری بھی بہت بلند پایہ ہے اور فارسی زبان نہ سمجھنے والے افراد بھی بعض اوقات اس کو شوق سے پڑھتے اورسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے ممتاز پروفیسر ہیں۔
یہ کتاب جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ مقالات پر مبنی ہے۔ اس میں انہوں نے علامہ اقبال اورفارسی زبان وادب کے حوالے سے بات کی ہے۔ اس کے عنوانات میں جی سی یونیورسٹی اور علامہ اقبال ، علامہ اقبال اور فارسی شاعری کی روایات ، تصورات عشق وعقل اور علامہ اقبال ، فارسی ادب اور علامہ اقبال کے کلام میں اخلاقی افکار ، ادبیات فارسی میں ملوکیت پر تنقید اور علامہ اقبال ، اشتراکیت اور اقبال ، شیخ نجم الدین راضی اور علامہ اقبال اور دیگر شامل ہیں۔ علامہ اقبال کے پرستاروں کو یہ کتاب پسند آئے گی۔
تشخص پاکستان اور فارسی ادب
مصنف:ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی
صفحات:108، قیمت:110روپے
پبلشر:تخلیقات ،6بیگم روڈ ،مزنگ،لاہور
فارسی زبان کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ،خاص طور برصغیر کے مسلمانوں کے لئے تو یہ زبان علوم کے خزانے کا درجہ رکھتی ہے، کیونکہ مسلمانوں کے دور حکومت میںاسے سرکاری زبان کا درجہ حاصل تھا اور سارا ادب اسی زبان میں مدون ہوا ، اسی لئے کسی زمانے میں اہل زبان کہلانے کے لئے اس پر عبور ہونا ضروری سمجھا جا تا تھا ، فارسی کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ اردو زبان کے زیادہ تر الفاظ بھی اسی سے لئے گئے ہیں، مصنف نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے فارسی کی اسی اہمیت کے پیش نظر اپنے مقالات میں پاکستانی تشخص کو فارسی ادب سے جوڑا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ فارسی ادب سے ہمیں قومی تشخص ملا اور اسی قومی تشخص سے یہ وطن معرض وجود میں آیا ۔ کتاب میں چھ مقالات پاکستانی ادب اور قومی تشخص، پاکستان کا قومی پرچم اور قومی ترانہ، تاریخ انسانی، مسلمانان عالم اور پاکستان،آزادی فکر اسلام اور پاکستان ،کشمیر میں فارسی ادب ایک نظرمیںاور اسلامی نظام حکومت عالم اسلام اور پاکستان شامل ہیں ۔ مجلد کتاب کو تخلیقات نے شائع کیا ہے۔ (تبصرہ نگار:بشیر واثق)
آنکھ کا ساحل
مصنف:سمیرا ساجد
قیمت:290روپے،صفحات:292
پبلشر:قلات پبلشرز ، رستم جی لین جناح روڈ کوئٹہ
اپنے من کی بات کہنے کے لئے شاعری سب سے خوبصورت ذریعہ ہے، اس میں شاعر ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جسے وہ عام زندگی میں بیان نہیں کر سکتا، زیر تبصرہ کتاب میں شاعرہ نے جو سوچا، جو دیکھا یا جو محسوس کیا سب کسی لاگ لپٹ کے بغیر شاعری میں سمو دیا ہے ، انھوں نے اظہار کے لئے نثری نظم کا انتخاب کیا ہے،انھوں نے ابتدا دعا سے کی ہے ، اس کے بعدغزلیات ، نظمیں اور قطعات ہیں،شاعرہ نے اپنی حساسیت کو سب کے سامنے بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے، مجلد کتاب کو قلات پبلشرز کوئٹہ نے شائع کیا ہے۔
ریگ زار، منتخب افسانے
مصنف : ظہیر اختر بیدری
صفحات :236، قیمت: تین سو روپے
ناشر :ایس آر پبلیکیشنز
ظہیر اختر بیدری مشاق افسانہ نگار ہیں۔کالم نگاری بھی ان کی ایک پہچان ہے لیکن ان کی مذکورہ کتاب ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں ان کے بہترین افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ ان افسانوں کے نام دیوار گریہ ، مشق ستم ، ہڑتال ، رضائے الہی، جاناں ، اللہ کی مرضی ، وائرل انفیکشن ، گھائو ، برف کے شہید ، مجرم ، کارثواب ، لیکن ویکن، سیتا ، خدا کا گھر ، مرلی، ایکتا ، سفید کوٹھی ، سسٹرتارا ، پاگل ، کورٹ مارشل، آسمان کے آگے، اوکے ، نیا فیصلہ اور شعلے شامل ہیں۔
مشہور ناول نگار شوکت صدیقی ان کے بارے میں کہتے ہیں '' بیدری کے افسانے مختصر ، خیال افروز اور جامع ہوتے ہیں۔ زبان اور بیان پر انہیں پوری دسترس حاصل ہے۔ان کے افسانے غیرضروری عبارت آرائی اور پرشکوہ الفاظ سے بوجھل نہیںہوتے۔وہ سیدھے سادھے عام فہم اور شگفتہ انداز میں اپنے افسانے اس طرح تعمیر کرتے ہیں کہ موضوع کے مجروح یا مبہم ہونے کا کسی طور احتمال نہیں رہتا۔ ان کے پاس سماجی شعور اور انقلابی ذہن ہے چنانچہ ان کے افسانوں کی بنیاد اہم سیاسی اور سماجی مسائل ہوتے ہیں اور ان کا مقصد اعلیٰ نصب العین کا حصول ہوتا ہے۔''
شوکت صدیقی جیسے بڑے لکھاری کے مذکورہ تاثرات ان کے فن کے بارے میں ثقہ شہادت ہے۔ یہ افسانے پڑھنے والوں میں دلچسپی پیدا کرتے ہیں اور ان کے شوق مطالعہ کو ٹوٹنے نہیں دیتے۔ ویسے بھی آج کل کے تیزرفتار دور میں لوگوں کے پاس وقت بہت کم ہے اور قارئین میں مختصر کہانیاں اور افسانے پڑھنے کا رجحان خاصا بڑھ چکا ہے۔ انہیں بیدری کے مذکورہ بالا افسانے یقیناً پسند آئیں گے۔
نام کتاب : کبھی سوچا تھا؟
شاعر: ضیاء الرحمن ضیاء
ناشر: ادبی ڈائجسٹ پبلشرز، کراچی
صفحات:128،قیمت:300 روپے
ہر تخلیق کار اپنے تجربات ہی کو اپنی تخلیق میں شامل کرتا ہے۔ شاعر کی جَبلّت میں دل چسپیاں پنہاں ہوتی ہیں، جن میں چند اشعار قاری کو چونکا دینے والے بھی شامل ہوتے ہیں، جو اس کی ندرت بیان کا مرقع ہوتے ہیں۔ ضیاء الرحمٰن ضیاء کی غزلوں میں رومانوی پہلو نمایاں ہیں۔ تاہم وہ معاشرتی رویوں کی بدصورتی پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ وہ مثبت سوچ وفکر رکھنے والے انسان ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی غزلوں اور نظموں میں ایک نرم اور دھیمی فضا قائم ہے۔ ساتھ ہی ان کی شاعری فلسفیانہ اندازِ فکر سے بھی آراستہ ہے۔ ان کا یہ شعری مجموعہ اپنے لب ولہجے کی انفرادیت کے ساتھ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کی شاعری کو شعرگوئی یا محض تفریح اور وقت گزاری کا وسیلہ قرار نہیں دیا جاسکتا، بلکہ ان کے لیے شعر کہنا اور ان سے لطف اندوز ہونا ان کی فطرت کا حصہ ہے۔ شعر کے ضمن میں جمالیاتی قدر سے سماجی قدر کی جانب رواں نظر آتے ہیں۔
ان کی غزلوں میں بلا کی سلاست وروانی موجود ہے۔ بعض موقعوں پر اپنی جزئیات نگاری سے بھی وہ ایک ایسا مکمل اور موثر سماں باندھ دیتے ہیں، جس سے ایک طرف ان کے گہرے مشاہدے اور کامل فنی صلاحیت ومہارت کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری طرف پڑھنے والے کی معلومات میں بھی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ ضیا الرحمٰن ضیاء کے کلام میں پختگی ہے، متانت ہے، ان کے بعض اشعار تو ایسے ہیں جو ندرتِ بیان اور زورِبندش کی خوبی میں عدیم المثال ہیں۔ کتاب کا ٹائٹل دیدہ زیب ہے۔ ''کبھی سوچا نہ تھا'' یقیناً اردو شاعری میں ایک اہم اضافہ قراردی جائے گی۔
نام کتاب : لوح ادب، کراچی۔ حیدرآباد
(جنوری تا دسمبر2012ء)
سرپرست اعلیٰ پروفیسر انوار احمدزئی
مدیراعلیٰ ڈاکٹرشکیل احمد خان
پروفیسر انوار احمدزئی کی علمی وادبی خدمات سے سندھ کے اہلِ علم وادب بہ خوبی واقف ہیں۔ وہ لوح ادب کے روح رواں اور سرپرست اعلیٰ ہیں۔ اس پُرفتن دور اور تیزرفتار زندگی میں بھی وہ جس طرح ادب کی خدمت میں کوشاں ہیں وہ قابل ذکر ہے۔ اُن کے شریکِ سفر ڈاکٹر شکیل احمد خان ہیں جو بحیثیت مدیر اس ادبی پرچے کی نگہداشت کا بیڑا اُٹھائے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل احمد خان کہنہ مشق ادیب اور استاد ہیں۔ ان کی تصنیفات میں ''صادق دہلوی شخصیت وفن''، ''مطالعۂ عشقی''،''شاکس آفٹرشاک''، ''پہاڑ لوگ''، ''ریت گھروندے''، ''خواب اور طرح کے''، ''چنیدہ شنیدہ''، ''شرر کا انشائی ادب''، ''منہ شگافیاں'' شامل ہیں۔
آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ادبی پرچوں کا قحط ہے اور لوگوں میں علم و ادب کے حوالے سے کوئی باضابطہ تحریک پیدا کرنے کے لیے کوششیں بھی نامساعد حالات اور مالی وسائل کی کم یابی کے باعث مفقود ہوچکی ہیں۔ ان حالات میں فروغِ ادب کی جدوجہد میں پروفیسر انوار احمدزئی اور ڈاکٹر شکیل احمدخان اپنے حصے سے بڑھ کر حصہ ڈال رہے ہیں۔ اُن کی نیک نیتی اور خلوص کے باعث اہل علم اچھے ادب سے استفادہ کررہے ہیں۔ پروفیسر انوار احمدزئی اور ڈاکٹرشکیل احمد خاں کی شبانہ روز محنت اور خلوص نے اس پرچے کو ادبی دنیا میں انفرادی حیثیت کا حامل بنادیا ہے۔
زیرنظر شمارے میں حمد، نعت، مہمان اداریہ اور اداریہ کے علاوہ یادرفتگان میں ''پونچھ کا سرسید، خان صاحب کرنل محمدخان'' محمدکبیرخان، ''صاحب زادہ رفعت سلطان... اُٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ'' ڈاکٹر غلام شبیررانا،''پروفیسر محمدآفاق صدیقی...مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے'' ڈاکٹرغلام شبیررانا، ''شیخ ایاز'' پروفیسرڈاکٹر مرحب قاسمی، لسانیات میں ''الفاظ کے اخلاقی انحطاط کا نفسیاتی پس منظر'' پروفیسر غازی علم الدین، مضامین میں ''طاہرنقوی کے افسانے'' ڈاکٹریونس حسنی، ''شہرخوں رنگ کی عطا لہو کی پوشاک'' رؤف نیازی، ''ہیں عنایت کچھ'' ڈاکٹرایس ایم معین قریشی، ''ادھوری کہانیاں۔
ادھورے خواب'' ڈاکٹرخالدسہیل، ''ظریف احسن نئی نسل کا نمائندہ شاعر'' ڈاکٹرسجاد حیدرپرویز، ''وسیم اشرف رسا'' پروفیسر مرزا سلیم بیگ، '''لسانی مطالعے' میری نظر میں'' ڈاکٹر ارشدخانم، '''ادب جھروکے' ایک تاثیر''، ڈاکٹرمظہرحامد، '''چہرہ چہرہ کہانی' کے افسانوں کے اہم زاویے''، یونس حسن، ''اکیسویں صدی کا جینوئن شاعر حنیف ترین''، پروفیسر سیدہ حنا، ''اکرام تبسم ایک باکمال شاعر'' فوزیہ مغل۔
لوح ادب کے عنوان سے ''انوار احمدزئی بہ حیثیت سفرنامہ نگار'' سیمالطیف، خاکے ''دنیائے نایافت کا نایاب مسافر'' پروفیسر انوار احمدزئی، ''سلمیٰ سلامت'' نیلم احمدبشیر، انشائیہ ''خامہ انگشت بدنداں'' محمدسکبتگین صبا، افسانے ''ایک شام کا قصہ'' سلطان جمیل نسیم، ''اچانک'' طاہر نقوی، ''خودعرض'' عذرا اعجاز سومرو، ''وکی لیکس'' ڈاکٹرشکیل احمدخان۔ اس کے علاوہ غزلیں، نظمیں، نثری نظمیں اور کتب پر تبصرے بھی شامل ہیں۔شمارے کا ٹائٹل خوب صورت اور دیدہ زیب ہے جو ایک نئی صبح کی نوید دیتا ہے۔
کتاب کا نام: کلیسا میں اذان
مصنف کا نام: ڈاکٹر جویریہ شجاع
قیمت : 400روپے
پبلشر:مکتبہ جمال،حسن مارکیٹ ، اردو بازار، لاہور
اسلام امن کا مذہب ہے اور اس کی حقانیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، زیر تبصرہ کتاب کلیسا میں اذان اسلام کی حقانیت کو عیسائیت کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے۔ مصنفہ نے دونوں مذاہب کے گہرے مطالعے کے بعد قلمی کاوش کے ذریعے اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا ہے ۔ کتاب کو اکیس ابواب میں تقسیم کیا گیا ۔ موضوع کے اعتبار سے دلائل اور حوالہ جات کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے ۔
ساڑھے تین سو صفحات میں اتنا تحقیقی مواد اکٹھا کرنا بڑا کٹھن کام ہے مگر مصنفہ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیاہے اور پڑھنے والے کی مکمل تشفی ہوتی ہے ۔ حضرت عیسیٰؑ کی آمد ثانی کے باب میں قرآن کا حوالہ اور متعدد احادیث بیان کی گئی ہیں جبکہ اس سے قبل حضرت عیسیٰ ؑ کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بارے میں عیسائیوں کا عقیدہ اور اختلاف بھی بیان کیا گیا ہے، پھر فوراً بعد حضرت عیسیٰ کے حوالے سے قادیانیوں کا عقیدے کا بھی پول کھول دیا گیا ہے اور بڑے اچھے طریقے سے اپنے موقف کو ثابت کیا گیا ہے۔
حمید اختر
مولف: علامہ عبدالستار عاصم
صفحات:552، قیمت : دوہزار روپے
ناشر:رضویہ ٹرسٹ سنٹرل کمرشل مارکیٹ ماڈل ٹائون ، لاہور
حمید اختر (مرحوم)صاحب طرز ادیب ، کہانی کار اور افسانہ نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک منجھے ہوئے صحافی بھی تھے۔ شروع میں تو انہوں نے اداریہ نویسی بھی کی ۔ ترقی پسند تحریک کے ساتھ ان کی وابستگی کے با رے میں اہل قلم اچھی طرح جانتے ہیں۔اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے اپنی بساط کے مطابق بھرپور حصہ ڈالا۔ زیرتبصرہ ضخیم کتاب دراصل ان کی سماجی و ادبی خدمات کو خراج تحسین ہے۔ ان کے انتقال کے بعد مرتب کی جانیوالی یہ کتاب مولف علامہ عبدالستار عاصم کی کاوش ہے جس میں حمید اختر سے متعلق تمام تر معلومات اور تاثرات کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ ان کی اپنی چنیدہ تحریریں بھی شامل کی جائیں ۔ اس کے علاوہ ان کے حالات زندگی پر دیگر تحریریں اوران کے منتخب افسانے بھی شامل ہیں۔
برٹرینڈ رسل کے فلسفہ کے مطابق فلسفی، شاعر اور ادیب دو قسم کے ہوتے ہیں، ایک وہ جن کے فلسفہ کو ان کی ذات سے الگ کر کے دیکھا جاسکتا ہے اور دوسری قسم وہ جن کا فلسفہ خیال اور تصور ان کی زندگی سے معنی پاتا ہے جس کی صداقت ان کی ذات کی صداقت پر منحصر ہوتی ہے ۔ حمید اختر اپنے افسانوں اور تحریروں میں جس کردار کو ہیرو بناتے ہیں وہ ان کی اپنی ذات سے عکس پاتا ہے اور یہی خصوصیت حمید اختر کو دوسرے لکھنے والوں اور اکثر ترقی پسندوں سے ممتاز کرتی ہے کہ انہوں نے جو لکھا اپنی ذات کے کینوس پر ہی مصوری کی۔ اپنی تحریروں میں جس کردار کو انہوں نے محبوب کیا وہ کردار وہ خود ہیں۔
کتاب کے مولف عبدالستار عاصم کہتے ہیں کہ ان کی مرحوم سے عرصہ پندرہ سال سے یاد اللہ تھی اور وہ جب بھی ملتے راقم کو اپنے اعلیٰ ترین خیالات سے نوازتے تھے۔ راقم چونکہ عمر اور مرتبے میں ان سے کافی چھوٹا تھا مگر پھر بھی ان کی نوازشات اور برتائو برابر کی سطح پر ہوتا تھا۔ اب یہی عبدالستارعاصم اس کتاب کو تالیف کرکے حمید اختر کی شخصیت کو عام قارئین کے سامنے پیش کررہے ہیں۔ قارئین اور مرحوم کے پرستاروں کو ان کی یہ کاوش یقینا ً پسند آئے گی۔ (تبصرہ نگار:ایم اختر)
بچوں کی الف لیلہ، سند باد جہازی
اردو روپ:محمد سلیم الرحمٰن
القا پبلی کیشنز، 12-kمین بلیوارڈ،گلبرگ 2 لاہور
قیمت: 95 روپے
بچوں کی الف لیلہ اور محمد سلیم الرحمن کا چڑھایا ہوا اُردو رنگ، محمد سلیم الرحمن اور بچوں کا ادب قاری تھوڑی دیر کے لیے رکتا ہے۔ مگر ٹھہریے اس توقف کی کوئی ضرورت نہیں۔ بچوں کا ادب سلیم صاحب کا نیا شوق ہرگز نہیں۔ وہ اس کتاب سے پہلے بچوں کے لیے دو ترجمے کرچکے ہیں۔ ایچ جی ویلز کے ناول "The Invisible man" کا ترجمہ ''غیبی ا نسان'' اور رائیڈ رہیگرڈ کے ناول "King Solomon's mines" کا ترجمہ ''سلیمانی خزانہ'' کے نام سے۔
الف لیلہ' کتنی عجیب و غریب کتاب ہے' حیرتوں سے بھری ہوئی۔ اس کتاب پر اور باتیں کرنے سے پہلے ایک روایت ذہن میں رہنی چاہیے۔ اس روایت کو محمد کاظم صاحب نے اپنی کتاب '' عربی ادب میں مطالعے'' میں درج کیا ہے: کہانی یہ ہے کہ اس کتاب یعنی الف لیلہ کا فرانسیسی مترجم موسیوگالاں' جب قسطنطنیہ کے ایک کتب خانے میں کتابیں تلاش کررہا تھا تو اُس کی نظر سند باد جہازی پر پڑھی۔ اُسے یہ کتاب بہت پسند آئی۔ اُس نے اس کتاب کے کچھ حصے فرانس میں ایک قسط وار سلسلے میںترجمہ کرکے چھاپنے شروع کردیئے۔ یہ ترجمے بچوں میں اتنے مقبول ہوئے کہ جب کسی قسط کے چھپنے میں ناغہ ہوجاتا تو بچے اُس کے کمرے کی کھڑکیوں پر پتھر پھینک کے اُسے یاد دلاتے کہ اگلی قسط کب چھپے گی۔
فرانس میں اس کتاب کی مقبولیت کا یہ ایک واقعہ تھا۔ ہم ہر کام میں مغرب کی تقلید کرنا چاہتے ہیں۔ مگر کیا وجہ ہے اپنے ہاں بچوں کو اس روش یعنی ادب کی چاٹ سے بچائے رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ نصیحتیں کرتے نہیں تھکتے کہ جنوں پریوں سے بھری ہوئی کہانیوں کا حقیقی زندگی سے کیا تعلق؟ یہ بات عجیب محسوس ہوتی ہے۔ بڑی عمر کے نتائج بچوں پر تھوپنے کا مقصد؟ ٹالکین' ہیری پوٹر اور لیوس کیرول کے ناول بچوں کے لیے ضرررساں ہوتے تو مغرب کبھی اپنے بچوں کو یہ خرافات پڑھنے کی اجازت نہ دیتا۔ یہ کہانیاں تو انسانی تخیل کو جلا بخشتی ہیں۔
سندباد جہازی تخیل کو زرخیز بنانے والی کتاب ہے۔ ایسی دلچسپ کہ تان نہیں ٹوٹتی۔ سفر کے بعد سفر۔ ہر سفر تنوعات سے بھرا ہوا۔ حیرت ہی حیرت۔ ہر دفعہ سندباد مرتے مرتے بچتا ہے۔ جہاں جہاں سندبادکا گزر ہوتا ہے انسانی تخیل بھی ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ دل کرتا ہے کہ یہ داستان ختم نہ ہو۔ ذہن سند باد کی دکھائی ہوئی دنیا میں دیر تک رہنا چاہتا ہے۔ جب بھی سندباد کسی مصیبت سے بچتا ہے تو قاری اطمینان کی سانس لیتا ہے۔ سندباد کی کہانی ایک باہمت شخص کی زندگی کی کہانی ہے۔ سند باد جہازی کی زندگی' سند باد حمال کی دلچسپی کا بڑا سامان کرتی نظر آتی ہے۔
حمال ہر سفر پر ہمہ تن گوش بیٹھا ہے اور یہ سفر بھی کیسے سفر ہیں۔ یہاں اس کتاب میں سات اسفار بتائے گئے ہیں۔ کہیں ایسا جزیرہ دکھایا گیا ہے جو بڑی مچھلی کے جم جانے سے بنا ہواور کشتی میں سواروں کے آگ جلانے سے وہ مچھلی کروٹ بدل رہی ہے جس سے جہاز اُلٹ جاتا ہے اور سندباد تختے کا سہارا لے کر زندگی بچاتا ہے۔ کسی جگہ رُخ کا انڈہ جس کا قطر آدمی کے ہوش اُڑا دیتا ہے۔ کسی مقام پربندے کھانے والے دیو سے سندباد کا بچنا قاری کے لیے حیرت کا سامان کرتا ہے۔ کہیں غار میں سند باد لوگوں کو مار کر اپنا رزق حاصل کررہا ہے۔
کہیں جہاز کا کپتان بھٹک کر سمندر میں جانکلتا ہے۔ کسی جگہ سند باد کو جان بچانے کے لیے سوداگر کی بیٹی سے شادی کرنا پڑتی ہے۔ ہر سفر سے کامیاب واپس لوٹنے پرحمال کو اشرفیاں اور اچھا کھانا مل رہا ہے۔ محمد سلیم ا لرحمن صاحب نے ان تمام واقعات کو بچوں کے پڑھنے کے لیے بڑی عمدگی سے گوارا بنایا ہے۔ آسان اور شستہ نثر لکھی ہے۔ ڈرائونی تراکیب کا استعمال نہیں کیا جس سے بچے بدک جائیں۔ اس عمدہ کتاب کوبڑے ہی خوبصورت انداز میں چھاپا گیا ہے۔