عاشق من الفلسطین

ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔


عینی نیازی December 18, 2017

وہ نوعمر سا فوزی الجنیدی جس نے سرمئی ٹی شرٹ اور جینز پہن رکھی ہے، گھر سے اشیائے خورونوش خریدنے نکلا تھا لیکن اب خوف زدہ سا اسرائیلی فوجیوں کی حراست میں نظر آرہا ہے، اس نہتے لڑکے کو گرفتار کرکے لے جانے والے دو، چار نہیں دو درجن فوجی ہیں جو دنیا کے جدید اسلحے سے لیس دکھائی دیتے ہیں۔ ان تمام فوجیوں نے سر کے ہیلمٹ سے لے کر بوٹ تک حفاظتی سامان اپنے جسموں پر سجایا ہوا ہے، وہ اس لڑکے کو دھکیلتے جاتے ہیں۔ یہ محض ایک تصویر نہیں ظلم و بے بسی کا استعارہ ہے۔ کہتے ہیں ایک تصویر ایک لاکھ الفاظ پر بھاری ہوتی ہے۔

سیانوں کی کہی گئی بات کا منہ بولتا ثبوت فوزی الجنیدی کی یہ تصویر ہے، جسے دیکھ کر ترک صدر اردوان بھی چپ نہ رہ سکے، کہتے ہیں ''میرے بہن اور بھائیو، کیا آپ کو یہ تصویر دکھائی دے رہی ہے؟ یہ دہشتگرد اسرائیل کی تصویر ہے، ایک فلسطینی بچے کو 20 فوجی پکڑے ہوئے ہیں، ایک معصوم 14 سالہ بچے کو یہ بزدل آنکھوں پر پٹی باندھ کر لے جارہے ہیں اور پھر لوگ پوچھتے ہیں میں کیوں اسرائیل کو دہشتگرد ملک کہتا ہوں، ایک بچے پر بیس فوجی چھوڑنے والے بزدل نہیں تو اور کیا ہیں''۔

فوزی الجنیدی اور اس کے ہم وطنوں کی داستان، ان کا دکھ درد ایک دوسرے سے قطعی مختلف نہیں، ہجرت، کیمپوں کی زندگی، قیدوبند کی صعوبتیں، اسرائیلی بربریت، جنھوں نے کئی نسلوں کا بچپن ان سے چھین لیا، اپنے گھر کا سکون وآرام کیا نعمت ہوتی ہے کوئی ان بے دخل کیے جانے والے فلسطینیوں کے دل سے پوچھے، صابرہ و شتیلا کیمپوں میں ڈھائے گئے مظالم کا زخم آج بھی مندمل نہیں ہوسکا۔ ارض مقدس کی آزادی کا خواب سجائے کئی نسلیں دنیا سے رخصت ہوئیں اور آنے والی آل اولاد کو یہ جدوجہد سونپ گئیں۔

کیمپوں میں مہاجرین کی زندگی، لمبی قطاروں میں لگ کر راشن حاصل کرنا، جلاوطنی، دربدر ہونا، یہ وہ اذیتیں تھیں جو اس شاعر نے بھی سہیں جسے ہم اور ساری دنیا فلسطین کی انسانیت کا پیغمبر شاعر کہتی ہے، محمود درویش۔ جسے عربوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا، فلسطینیوں نے اپنا قومی شاعر مانا۔ محمود درویش جسم سے روح تک ایک فلسطینی تھا، بچپن میں ایک سوال اس کے گرد احاطہ کیے رکھتا، آخر مقامی دوستوں کی طرح ان کا اپنا گھر کیوں نہیں؟

جبراً جلاوطن اس بچے کو سوال کا جواب کبھی نہیں ملا، چھ سال کی عمر میں اپنا گاؤں، اس کی ہریالی، زیتون سے بھرے باغ، بڑا سا گھر اور بہن بھائی کس قدر خواب ناک زندگی تھی، جسے یکایک اسرائیلیوں کے حملے نے تباہ کردیا، وہ سب جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے، نجانے کتنے دن کی طویل مسافت طے کی، لبنان پہلی پناہ گاہ بنا، ایک سال بعد دوبارہ اپنے علاقے میں واپس آئے تو پورا گاؤں نیست ونابود ہوچکا تھا، اسرائیلی قابضین نے آبادیاں بنالی تھیں۔

اپنے ہی وطن میں اجنبی بن کر رہنا ایک کرب مسلسل تھا، حالت کی ستم ظریفی نے اسے وقت سے پہلے فہم عطا کردی تھی، اسے مصوری اور شاعری کا شوق تھا، لیکن مصوری کے لوازمات خریدنے کی حیثیت نہ تھی، اس لیے اس نے شاعری پر توجہ دی۔ تیرہ سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم اسرائیل کی آٹھویں سالگرہ کے جشن میں پڑھی۔ اسکول کے مائیکرو فون کو پکڑے لبنانی بچے کے اندر اٹھنے والے سوال کا جواب مانگا تھا۔

تمھارے پاس گھر ہے، میرے پاس کیوں نہیں
تم جیسے چاہو، جس طرح چاہو، سورج کے نیچے کھیل سکتے ہو

میں کیوں نہیں
خوشیاں تمھارے لیے ہیں، میرے لیے کیوں نہیں

میں ایک پناہ گزیں کیوں ہوں
تم اور میں اکھٹے مل کر کھیل کیوں نہیں سکتے

اگلے دن اسے فوجی دفتر میں بلا کر سخت سرزنش کی گئی، اسرائیلیوں کو ایسی نظموں سے بغاوت اور سرکشی کی بو آتی ہوگی جو انھیں کہاں برداشت ہوتی۔ بچے کو ادراک ہو چلا تھا کہ زندگی کی عدالت میں ایسی سیکڑوں پیشیاں بھگتنی ہوں گی۔ وہ اپنی شاعری سے پوری دنیا کو اسرائیلی ظلم وجبر کی داستان بیان کرتا رہا۔ دنیا کی کئی زبانوں میں اس کے تراجم ہوئے، پڑھنے والوں نے اس کے لکھے ہوئے لفظوں پر اشک بہائے۔

محمود درویش نے بڑی استقامت سے اپنا سفر جاری رکھا، اس فلسطینی عاشق کے لیے گرفتاریاں، قید، سزا معمولی بات تھیں۔ محمود درویش پر کڑی نگرانی رکھی جاتی، اسے رات کو گھر سے نکلنے کی آزادی نہیں تھی، روزانہ تھانے جاکر حاضری دینی پڑتی، لیکن اس نے وطن کی محبت میں خون دل کو سیاہی بنائے رکھا۔ وہ کیسے بھول سکتا تھا کہ اسرائیلیوں کی جبری بے دخلی کے محض دو سال بعد وہ اپنے ہی وطن واپس آنے پر تارکین میں شمار ہوگا۔ اس کرب کو اندر کا شاعر یوں بیان کرتا ہے کہ

میں دو جنتوں کا وہ آدم ہوں
کہ جن سے دو بار نکالا گیا ہوں

مجھے بہت آہستگی سے نکالو
مجھے آرام سے مارو

گارشیا لورا کے ساتھ زیتون کے پیڑ کے نیچے دفن کردو

دوسری نظم قید اور محاصرہ میں لکھتا ہے کہ:

زمین ہمارے اوپر تنگ ہورہی ہے

ہم کہاں جائیں گے، اس آخری سرحد کے بعد
پرندے کہاں اڑیں گے، اس آخری آسمان کے بعد

فلسطین میں ابدی آرام گاہ اس کی خواہش تھی، فلسطینی قوم نے رملہ میں پورے قومی اعزاز کے ساتھ اس کی تدفین کی، تین دن سرکاری سوگ رہا، جدوجہد اور قربانیوں کا جو سلسلہ محمود درویش کی نسل سے شروع ہوا تھا، اب تک جاری ہے۔ عاشق من الفلسطین اس کی شہرہ آفاق نظم ہے جو ہر فلسطینی کے دل کی آواز ہے، ان کا ترانہ ہے۔ فلسطین کے عوام صہیونی طاقت کے آگے نہ کبھی جھکے ہیں نہ جھکیں گے۔

ٹرمپ کے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت بنائے جانے کے اعلان نے پوری دنیا کے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ ترکی میں او آئی سی کے اجلاس میں باون مسلم ممالک کے وفد نے شرکت کی اور اپنی یکجہتی کا اظہار کیا، یہ کوئی معمولی بات نہیں۔ ترکی کے سربراہ مملکت، جو او آئی سی کے صدر بھی ہیں، ان کے اندر بھی ایک فلسطینی عاشق بستا ہے، اپنے خطاب میں اردوان کہتے ہیں کہ

''خدا کی قسم مسجد اقصیٰ میری آنکھوں کا تارا ہے، بخدا میں کبھی مسجد اقصیٰ ان ظالموں کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دوں گا، خدا کی قسم! ہم بیت المقدس کو ان اسرائیلیوں کے ہاتھوں میں نہیں چھوڑیں گے، جن کا لوٹ مار اور دہشت گردی کے علاوہ اور کوئی کام نہیں، ہم کمزور ضرور ہیں، مگر ابھی ضمیر مردہ نہیں، مسجد اقصیٰ کو لے کر دکھائیں گے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں