کیا کرپشن واقعی جرم ہے

کرپٹ ترین افسرہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اورایماندار افسر کڑھتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔


راؤ منظر حیات December 18, 2017
[email protected]

معاشرتی رویے مکمل طورپردوحصوں میں تقسیم ہیں۔ یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ دوکمروں پرمحیط ہیں جنکاآپس میں کوئی راستہ نہیں،تعلق نہیں۔باہمی طورپر کوئی دروازہ بھی موجودنہیں۔انگریزی زبان میں بڑے آرام سے کہاجاسکتا ہے کہ ملک کاہرشہری اورادارہWater Tight Compartmentsمیں تقسیم ہے۔

ایک رویہ وہ جو بتایا جاتاہے، بیان ہوتاہے۔ جس کے متعلق وعظ،نصیحتیں اورمذہبی لیکچردیے جاتے ہیں۔دوسراوہ رویہ جوعملی طورپر ہر گھڑی، ہردم بلکہ ہرپل اپنایاجاتاہے۔دونوں میں صرف فرق نہیں ہے۔ دونوں اایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مگراس حقیقت کو کوئی تسلیم کرنے کے لیے تیارنہیں۔نہ عام لوگ،نہ خواص، نہ ادارے اورنہ مذہبی رہنما۔

عرض نہیں کرسکتاکہ یہ دوعملی کب سے شروع ہوئی۔یہ بھی علم نہیں کہ ختم ہوگی بھی کہ نہیں۔مگراسکاوجودبہرحال نظام،معاشرہ اورسماج میں ہرسطح پرموجودہے۔عام طورپر کہا جاتاہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دورسے پاکستان میں منافقانہ کلچرکی بیل ہری ہوگئی۔یعنی سب کچھ ایک خاص لبادہ میں جائزہوگیا۔مگرتنقیدی عمل سے سوچاجائے توسب کچھ پہلے سے موجودتھا۔

ضیاء الحق نے توصرف اس ہنرکو تھوڑا ساپالش کیا۔ اس کے بعدبعض لوگ یاادارے اس ہنرمیں ایسے یکتاہوئے کہ پوری دنیاحیران ہوگئی۔بلکہ اب تک حیران ہے۔اکثرافرادنے تواس کی بدولت اس درجہ کی چاندی پیدا کی،کہ ملک کی سالمیت ہی داؤپرلگ گئی۔ کیفیت آج تک جاری ہے۔مگرمعاملہ صرف اورصرف منافقت یاکسی اورمنفی اَمرکا نہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سچ کوجھوٹ ثابت کرنااورجھوٹ کوسچ ثابت کرنابے حدآسان ہے۔بلکہ بچوں کاکھیل ہے۔ابھی دوعملی تک محدودرہیے۔مثال کے طورپر"دخترِرز"کے استعمال کاجائزہ لیں۔عملی طورپر ہر بڑے اور چھوٹے شہر،علاقے،دیہات،قصبہ میں اکثر محفلیں اس کے بغیرویران ہیں۔قطعاًگناہ اورثواب کے زاویے سے عرض نہیں کررہا۔شادی کی کسی تقریب پرچلے جائیے۔یہ شروع میلادسے ہوتی ہے۔اورتھوڑے عرصے کے بعداکثر جگہ "محفل ناؤونوش"شروع ہوجاتی ہے۔

خیریہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔مگرمسئلہ وہاں سے شروع ہوتاہے جہاں وہی لوگ جوشام ڈھلے مدہوش ہونے کولازم سمجھتے ہیں۔اگلے دن،اسی عمل کی بنیادپردوسرے لوگوں پرتنقیدکے نشتر چلا رہے ہوتے ہیں۔کردارکشی کررہے ہوتے ہیں۔برا بھلا کہہ رہے ہوتے ہیں۔سرکاری ملازمین اورسرکاری اداروں میں یہ روش سب سے زیادہ ہے۔بہت سے لوگوں کوجانتا ہوں جوسال میں365دن اسی کام میں مصروف کاررہتے ہیں۔ مگرصبح ان سے کسی دوسرے ساتھی کے بارے میں پوچھا جائے توڈھٹائی سے جواب دیتے ہیں کہ بھئی وہ توہردرجہ بلانوش ہے۔اسے توشام کوہوش ہی نہیں ہوتا۔

یہ منافقت کا وہ عملی رویہ ہے جوبالکل عام ہے۔اس پرکسی حیرت کا اظہار نہیں کیاجاتا۔اسکومکمل طورپراپنالیاگیاہے۔یعنی کہو کچھ اور اورکرو کچھ اور۔ہرجگہ بالکل ایک جیساحال ہے۔ایک جرمن لکھاری لاہورایک ہفتہ قیام پذیررہا۔ایک فورم پرملاقات ہوئی۔اس سے شہراورثقافت کے متعلق سوال پوچھاتوبے لاگ طریقے سے کہنے لگا،کہ لاہورشہرمیں"ممنوعہ پانی" کا استعمال برلن سے زیادہ ہے۔یہ وہ دوعملی ہے جسکوسمجھنابہت مشکل ہے۔مگریہ معاشرے کی حقیقی تصویرہے۔

کرپشن کی طرف آئیے۔دنیامیں کرپشن انڈکس کے نام سے ایک مستندترین تجزیہ موجودہے۔یہ رپورٹ Transparencey International ہرسال شایع کرتی ہے۔اس ادارے کی بے حدمضبوط ساکھ ہے۔ 175 ممالک کاجائزہ لینے کے بعدجنوری میں تقابلی رپورٹ شایع کی جاتی ہے۔ہمارے عظیم ملک کی درجہ بندی گزشتہ دہائیوں سے تقریباًایک جیسی ہے۔1995ء سے آج تک توخیراس ادارے نے تمام ڈیٹااکٹھاکررکھاہے۔اس سے پہلے کے حالات بھی بالکل یکساں تھے۔

اوسط نکالیے تو پاکستان اس پیریڈمیں108ویں درجہ پرہے۔ مگریہ صرف اوسط ہے، حقیقی طورپر144اور116نمبرکے درمیان لڑکھڑا رہا ہے۔ سیاسی نعرے اوردعوؤں کو چھوڑ دیجیے۔حقائق یہی ہیں کہ ہم عرصہ درازسے دنیاکے کرپٹ ترین ملکوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔اس بحث میں نہیں جاناچاہتاکہ وہ کون سے عوامل ہیں جسکی بنیادپریہ انڈکس تیارکیاجاتاہے۔کیونکہ مختصرسے کالم میں ان کاجائزہ لینا ناممکن ہے۔ سوئٹرزرلینڈ، ہالینڈ اور کینیڈا دنیاکے کم ترین کرپٹ ملکوں میں شمارکیے جاتے ہیں۔

آئس لینڈ،ناروے وغیرہ بھی کرپشن فری ملک ہیں۔ایک انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ تمام ممالک جن میں مذہب پر ہماری طرح حکومتی اورلوگوں کی لفظی اہمیت مرکوزنہیں ہیں، ان میں عام لوگوں کی زندگی ہمارے سے بہت بہتر ہے۔ خیرحکومتی سطح پرمذہب کی اہمیت پرعنقریب گزراشات پیش کرونگا۔تحقیق کررہاہوں کہ بالاخرتمام ممالک جومشکل مذہبی رویوں سے بالاترہوچکے ہیں، بالاخر اتنی ترقی کیوں اورکیسے کررہے ہیں۔ خیریہ بحث کسی اور وقت۔ ہمارے ملک کے متعلق دنیاوی عمومی رائے مختلف زاویوں سے منفی ہے۔ مگر اس کویہاں تسلیم نہیں کیا جاتا۔

خیریہاں توکچھ بھی تسلیم نہیں کیاجاتا۔بلکہ اب تو عدالتوں سے بھی انحراف ہوچکا ہے۔ یہ سول انارکی کی ابتداء ہے۔آگے دیکھیے، کیا ہوتا ہے۔ بات کرپشن کی ہورہی تھی۔ اکثربتایاجاتاہے کہ سرکاری شعبہ بہت خستہ حال ہے۔ مگر حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔نجی شعبہ،پبلک سیکٹر سے بہت زیادہ کرپٹ ہے۔ ایف بی آر میں تعینات کئی دوست ایسے ایسے سنگین واقعات سناتے ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔عمومی رائے تویہ ہے کہ نجی ادارے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ مگریہ توبالکل عام سی بات ہے۔بلکہ چھوٹاسامسئلہ ہے۔ چھوٹا تو خیر نہیں۔ لیکن اس کے علاوہ تجارتی ادارے جو معاشی جرائم کرتے ہیں،اسکااندازہ عام بندہ کر ہی نہیں سکتا۔

سادہ سی مثال لیجیے۔ پوٹھوہارکے خوبصورت ترین علاقوں میں سیمنٹ بنانے والے کارخانے ہمارے پہاڑ تک ہڑپ کرچکے ہیں۔سبسڈی،ری بیٹ اوردیگر سرکاری سہولتوں سے فیضیاب ہوناالگ ہے۔ہرطرف یہی حال ہے۔ گنابنیادی طورپران ملکوں کی فصل ہے جہاں بے حد بارش ہوتی ہے۔مگرہماری شوگرملوں نے اس فصل کولگاکر کپاس،گندم اور دیگرفصلوں والے علاقوں کوبرباد کردیا ہے۔ پھرکم تولنے اور غلط رسیدیں جاری کرنابالکل عام سی بات ہے۔

سرکاری شعبے کوبھی قطعاً معصوم نہیں سمجھتا۔جوملازم سائیکل، موٹرسائیکل اورویگنوں پرسوارہوکرسول سروسز اکیڈمی آئے تھے۔ریٹائرمنٹ کے بعدبڑے بڑے محلات میں زندگی گزارتے ہیں۔بچوں کی شادیوں پرکروڑوں خرچ کرتے ہیں۔دوران ملازمت ایسی لوٹ مارکرتے ہیں،کہ بیان کرنا مشکل ہے۔مگرایک بے حدتکلیف دہ رویہ سامنے آتا ہے۔

کرپٹ ترین افسرہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اورایماندار افسر کڑھتے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔پھریہ کرپٹ ترین افسرکے ہاتھ میں ہوتاہے کہ جونیئرافسروں میں سے کس کو معتوب ٹھہرائے۔جوان کے گروپ میں آگیا،وہ بے ایمان ہونے کے باوجودپاک صاف قرار پاتا ہے۔سیکڑوں مثالیں ہیں یاشائد ہزاروں۔ ابھی اس پرلکھنامناسب نہیں۔

کسی شعبہ کودیکھ لیجیے۔زبوں حالی اورکرپشن لازم نظر آئے گی۔چنددن پہلے ایک ویڈیوکلپ دیکھا۔ پھل بیچنے والے شخص نے لفافہ نکالااس میں پھل ڈالے اورایک سیکنڈ میں ہاتھ کی صفائی سے اس لفافے کوریڑھی کے نیچے لے گیا اوروہاں پہلے سے موجود گلے سڑے پھلوں کالفافہ نکال کر گاہگ کے حوالے کردیا۔ سوال یہ ہے کہ ایساکیوں ہے۔ جب وہ ہر طرف اربوں بلکہ کھربوں کی کرپشن کی کہانیاں سنتا ہے تو اس کا بھی دل چاہتاہے کہ وہ بھی امیرہو۔پیسہ کمائے۔ چنانچہ اپنی سطح پرجوکرسکتاہے، ببانگ دہل کرتاہے۔پھل فروش کو استعارے کے طورپراستعمال کیجیے۔کسی جگہ چلے جائیے۔آپ جائزطریقے سے کام نہیں کرواسکتے۔ دوائیوں والے کارخانے، دو نمبر دوائیاں بناکرلوگوں کو ناجائزمنافع کے لیے قتل کررہے ہیں۔ مالکان کوتوکبھی سزائے موت نہیں ہوئی۔ اس لیے کہ عملی طورپرایک نمبردوائی کامعمول ہی ختم ہوچکا ہے۔

پٹواری سے پیسے کے بغیر فرد نکلوا کر دکھائیے۔ میرٹ پرمِل لگانے کے کسی بھی جائزحق کومفت استعمال کروا کر دکھائیے۔اسکولوں میں اساتذہ مناسب توجہ نہیں دیتے۔ آپ ان کے ٹیوشن سینٹربندکرواکے دکھائیے۔عدالتوں میں اپنی مرضی کی تاریخ مفت لے کردکھائیے۔ریلوے کی سیٹ بغیرپیسے کے حاصل کرکے دکھائیے۔

عرض کرنے کا مقصد ہے کہ اوپرسے نیچے تک اورپاتال سے آسمان تک کرپشن اس ملک میں سانس لینے کاطریقہ ہے۔زندہ رہنے کانظام ہے۔ ہاں،مانے گاکوئی بھی نہیں۔اس لیے کہ ہمارے ہاں، جو کہاجاتاہے،ہرگزہرگزنہیں کیا جاتا۔ پورا ملک ناجائز طریقے سے پیسہ کمانے پر جتا ہوا ہے۔ صورتحال دیکھ کریہ سوال ضرور اُٹھتاہے کہ کیاکرپشن واقعی ہمارے ملک میں جرم ہے؟ پورانظام توچلتا ہی دونمبرطریقے سے ہے۔ یہاں ایمانداری کاکیاکام؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں