محض نعرے بازی نہیں
ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اولین ترجیح تعلیم، صحت اور صنعتی انفرااسٹرکچر پر دی جانی چاہیے۔
کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے یہاں تیرھویں صدی کی سلطنت عباسہ کا دور واپس آگیا ہے۔ جب حکمران عوامی مسائل سے بے نیاز ہوکر اقتدار کی رسہ کشی اور محلاتی سازشوں میں مصروف ہوگئے تھے، علما فروعی معاملات میں الجھے ایک دوسرے کی گردنیں اڑا رہے تھے، عوام جہل اور پسماندگی میں گھرے اپنے مسائل اور مصائب کی ذمے داریاں ایک دوسرے پر ڈال کر قتال کررہے تھے۔
کیا ہم اسی طرح فروعیات میں الجھے ہوئے نہیں ہیں، جس طرح تاتاریوں کے حملے کے وقت اہل بغداد الجھے ہوئے تھے؟ کیا یہ کسی ذہنی بیماری کی علامت نہیں ہے کہ 97 فیصد مسلمانوں کے ملک میں ''اسلام خطرے میں ہے'' کی گردان تسلسل کے ساتھ دہرائی جارہی ہو، مگر عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کے لیے عملاً کچھ نہ کیا جارہا ہو؟
ایسا محسوس ہورہا ہے، جیسے حکمران اشرافیہ، اہل دانش اور متوشش شہریوں کو سنگین ہوتی صورت حال کی کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ وہ سب اپنے اپنے دائروں میں مقید بے نیازی کے عالم میں راگ راگنیاں الاپنے میں مصروف ہیں۔ دراصل حکمران اشرافیہ سیاسی عزم و بصیرت سے عاری ہونے کی وجہ سے دیرپا اور پائیدار منصوبہ سازی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ جو منصوبے جیسے تیسے تیار کرلیے جاتے ہیں، ان پر نااہلی کے سبب عمل درآمد نہیں ہوپاتا۔
اہل دانش اپنے علم اور سیاسی وسماجی بصیرت کو استعمال کرنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کے کاسہ لیس بن چکے ہیں۔ ان میں اتنی اخلاقی جرأت نہیں کہ وہ حکمران اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں کو آئینہ دکھا سکیں۔ جب کہ متوشش شہری مختلف تقریبات اور محفلوں میں تو خرابی بسیار کا رونا روتے نظر آتے ہیں، مگر بہتری کے لیے مجتمع ہوکر کسی قسم کا کردار ادا کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ملک محض اﷲ توکل چل رہا ہے۔
پاکستان اس حال کو کیوں کر پہنچا ہے۔ اس میں کسی ایک جماعت، ادارے یا حلقہ کا کلیتاً قصور نہیں ہے۔ بلکہ ریاست کے تمام ایکٹروں پر اس خرابی بسیار کی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ اب دیگر امور سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی توجہ انسانی ترقی کے اشاریے (HDI) پر مرکوز کریں، تو ان گنت خرابیوں کا ادراک ہوجاتا ہے۔ HDI کسی ملک کے شہریوں کے معیار زندگی کا سال بہ سال تخمینہ نکالنے کے عمل کو کہتے ہیں۔ HDI تعلیم، صحت، انفرااسٹرکچر اور روزگار تک رسائی اور اس کے معیار کا تخمینہ ہوتا ہے۔
المناک صورتحال یہ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے۔ لیکن انسانی ترقی کے اشاریے میں اس کا 147 واں مقام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست اپنے شہریوں کو مناسب تعلیم، طبی سہولیات، ترقی یافتہ انفرااسٹرکچر اور ضرورت کے مطابق روزگار مہیا کرنے میں خاصی بڑی حد تک ناکام ہے۔
اس ناکامی کی وجہ کیا ہے؟ کیا وسائل کی قلت ہے؟ کیا افرادی قوت کا فقدان ہے؟ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ اصل مسئلہ مناسب منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کا ہے۔ وہ ملک جس میں اپنے قیام کے وقت نہ صنعتیں تھیں اور نہ مناسب تعداد میں ہنرمند افرادی قوت، وہ چند ہی برسوں میں قلیل سرمایہ کے ساتھ پورا صنعتی انفرااسٹرکچر کھڑا کرکے معاشی نمو کی شرح ایشیا کے ترقی پذیر ممالک میں سب سے زیادہ کرلیتا ہے۔
1965ء کے بعد انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لیے کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پورا صنعتی ڈھانچہ روبہ زوال ہوتا چلا گیا۔ انفرااسٹرکچر میں صرف صنعتی علاقے مختص کیے جانا اور سڑکیں تعمیر کرنا نہیں ہے۔ بلکہ بجلی، پانی اور گیس کی فراہمی کے ساتھ ٹیکسیشن کے نظام کی بہتری اور قانون کی عملدرآمد کو یقینی بنانا بھی شامل ہوتا ہے۔
یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ حکومت خود روزگار مہیا نہیں کرتی، بلکہ روزگار کے نئے ذرایع پیدا کرنے اور پرانے ذرایع کی جدید خطوط پر تشکیل نو کے لیے پالیسیاں تیار کرتی ہے۔ کیونکہ جب تک نئے ذرایع پیدا نہیں ہوں گے، تو بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے روزگار تک رسائی آسان نہیں ہوگی۔ 1965ء کے بعد ملک کے اندر نئے ذرایع پیدا کرنے پر توجہ نہیں دی گئی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور ہنرمند افرادی قوت بہتر روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے پر مجبور ہوئی۔
اس سلسلے میں دوسرا اہم اقدام تعلیم کا جدید خطوط پر استوار کیا جانا ہے۔ المیہ یہ ہے پاکستان میں تعلیم کو کبھی اولین ترجیح نہیں دی گئی۔ جب کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس سے مکمل طور پر توجہ ہٹالی گئی۔ بھٹو نے 1972ء میں جو تعلیمی پالیسی دی تھی، اس میں ان گنت خوبیاں ہونے کے باوجود وہ بیوروکریسی کی کوتاہ اندیشی اور مفادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔ جس کی وجہ سے عام شہری تک اس پالیسی کے ثمرات نہیں پہنچ سکے۔
جنرل ضیا نے بھٹو کی پالیسیوں کو رد کرنے کی خاطر ایک طرف تعلیمی اداروں کی نجکاری کا عمل شروع کیا، جب کہ دوسری طرف نجی شعبہ میں اندھادھند تعلیمی ادارے قائم کرنے کی اجازت دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گلی محلوں میں اسکول قائم ہونا شروع ہوگئے۔ جن میں تعلیم دینے سے زیادہ والدین کی جیبیں کاٹی جاتی ہیں۔
حالانکہ عالمی سطح پر میٹرک تک تعلیم ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔ مگر جنرل ضیا کے دور سے سرکاری اسکولوں پر ریاستی توجہ تقریباً ختم کردی گئی۔ دوسرے بیوروکریسی کی کرپشن اور تیسرے اساتذہ کی سیاسی بنیادوں پر تقرری نے ان تعلیمی اداروں کو مکمل طور پر تباہ کردیا۔ حالانکہ 1970ء سے پہلے جن بچوں کو سرکاری اسکولوں میں داخلہ نہیں ملتا تھا، وہ نجی تعلیمی اداروں کا رخ کیا کرتے تھے۔
راقم نے ملک کے چند بڑے ثانوی تعلیم کے امتحانی بورڈز کے نتائج کا جائزہ لیا، تو اندازہ ہوا کہ کراچی، حیدرآباد، لاہور اور پشاور بورڈز میں 1982ء تک ابتدائی دس پوزیشن میں سے بیشتر سرکاری اسکولوں کی ہوا کرتی تھیں۔ لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ 50 پوزیشنز میں شاید چند ہی طلبا سرکاری اسکولوں سے ہوتے ہیں۔
وہ خاندان جو خط افلاس کے آس پاس رہنے پر مجبور ہیں، ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہے، وہ کس طرح اپنے بچوں کو تعلیم دلاسکتے ہیں۔ جب کہ حکومت آئین کی شق 25A کے تحت ہر بچے کو پرائمری تک تعلیم مہیا کرنے کی پابند ہے، مگر حکومت کی عدم توجہی کے باعث ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت ڈھائی کروڑ سے زائد بچے ابتدائی تعلیم تک سے محروم ہیں۔ بلکہ انھوں نے اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی ہے۔ ان اعدادوشمار میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دوسرا المیہ یہ ہے کہ ملک میں ابتدائی درجات سے جامعات کی سطح تک جو تعلیم دی جارہی ہے، اس کا معیار بھی مایوس کن ہے۔
جہاں تک صحت کے معاملات کا تعلق ہے تو ملک کے ہر شہر میں سرکاری اسپتالوں کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔ انگریز کے دور میں جب کراچی کی آبادی چار لاکھ کے قریب تھی، تو موجودہ سول اسپتال قائم ہوا تھا۔ اب آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے، مگر صرف پانچ سرکاری اسپتال شہر میں کام کررہے ہیں۔ جن میں سے بیشتر جدید سہولیات سے عاری ہیں۔ یہی کچھ صورتحال لاہور کی ہے، جہاں سرکاری اسپتالوں کی قلت کی وجہ سے اخباری رپورٹس کے مطابق ایک بستر پر کئی کئی بیماروں کو لٹایا جاتا ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سڑکوں اور پلوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے، لیکن اولین ترجیح تعلیم، صحت اور صنعتی انفرااسٹرکچر پر دی جانی چاہیے۔ کیونکہ HDI کو بہتر بنانے کے لیے ان شعبہ جات پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے شفافیت اور میرٹ پرعمل درآمد کی بھی ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ بااختیار مقامی حکومتی نظام کا متعارف کرایا جانا اور اس کی فعالیت کا بڑھایا جانا بھی معاشرے کی مجموعی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ کیونکہ تعلیم، صحت اور شہری ترقی کے معاملات کی نگہداشت مقامی حکومتوں کے سپرد کردینے سے نظام کی بہتری یقینی ہوجاتی ہے۔ جب کہ صوبائی حکومتیں منصوبے تیار کرنے کے ساتھ مقامی حکومتوں کی نگرانی کی ذمے داری ادا کریں۔ لہٰذا محض نعرے بازی سے ملک نہیں چلتے بلکہ عملی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔