تیرا کیا بنے گا کالیا
اسلام قبول کرنے والا ایک نومسلم، مسلمانوں کی خدمت کے جوش میں ہزاروں میل سفر کرنے کے بعد، مسلمانوں کا ہی نشانہ بن گیا۔
چند سال پہلے جب ریڈ کراس کے برطانوی کارکن خلیل ڈیل کی لاش کوئٹہ کے ایک مرغزار سے برآمد ہوئی، تو اْن کے پْرانے ساتھی بے اختیار پکار اْٹھے: ''خلیل اپنی منزل پر پہنچ گئے۔''
نومسلم عبدالحکیم (پْرانا نام ٹم ونٹر) نے پْرانے دنوں اور خلیل مرحوم کے ولولے کو یاد کیا۔ اْنھوں نے اْس دن کا ذکر کیا جب افغانستان میں اْن کا ڈرائیور گولی کا نشانہ بن گیا تھا۔ صومالیہ میں قیام کے دوران جھیلی گئی مصیبتوں کو بیان کیا۔ پھر وہ پاکستان کے سب سے لرزا دینے والے صوبے بلوچستان میں جاپہنچے جہاں آج کل جاتے ہوئے پاکستانیوں کا پِتا بھی پانی ہو جاتا ہے۔ بالآخر وہ طالبان کے ہاتھوں اپنی جان ہار گئے۔
اسلام قبول کرنے والا ایک نومسلم، مسلمانوں کی خدمت کے جوش میں ہزاروں میل سفر کرنے کے بعد، مسلمانوں کا ہی نشانہ بن گیا تاہم، برطانیہ سمیت یورپ کے بہت سے ملکوں میں بہت سے تجزیہ نگار ایک چیز پر مبہوت ہیں۔ موجودہ اور گزشتہ برس فرانس، بلجیئم اور انگلستان میں اسلام کے نام پر دہشتگردی کے پے در پے واقعات ہوئے مگر اس کے باوجود اسلام کا جن بوتل میں بند ہونے کا نام نہیں لے رہا، یورپی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکس میں بار بار یہ سوال گونجتا ہے ''آخر اسلام کی بین الاقوامی میڈیا پر منفی تشہیر (اسلامی فوبیا)، شدت پسند مسلمانوں کی قابل گرفت روایات اور مسلمانوں کے خلاف عمومی فضا کے باوجود یورپین کیوں جوق درجوق اسلام کی طرف مائل ہو رہے ہیں؟'' پچھلے ہفتے ٹوٹنگ کے اسلامک سینٹر میں لارین بوتھ کا خطاب سننے کے لیے گیا تو ٹونی بلیئر کی نومسلم سالی کو سننے کے لیے بھرپور کشادہ ہال بھی کم پڑ گیا۔ اْن کی یہ بات کافی انکشاف انگیز تھی کہ برطانیہ میں نو مسلموں کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوزکر چکی ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ نومسلموں کی کثیر تعداد (70فیصد) گوری خواتین پر مشتمل تھی جن میں عمومی عمر 27 سال کے لگ بھگ پائی گئی تھی۔میں نے اْن کی زبان سے یہ کلمات سننے کے بعد حاضرین کے چہروں پر انار پھوٹتے دیکھے اور کئی افراد نے بے ساختہ نعرہء تکبیر بلند کر دیا تھا۔
''یہی چیز تو مجھے رْلاتی ہے۔'' عمران خان کی سابقہ دوست، ایم ٹی وی کی معروف مہمان اور ایم ٹی وی ٹو مکہ کی مشہور مصنفہ کرسٹین بیکر نے اپنا ماتھا مسلتے ہوئے مجھے بتائی تھی۔ ''ایک گوری عورت، خاص طور پر وہ پڑھی لکھی اور کامیاب ہو تو وہ تمام مسلمانوں کے لیے ایک 'ٹرافی' کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ کرسٹل کی ٹرافی، جس کو ہر کوئی ہاتھ میں اْٹھائے اْس کے ساتھ تصویر بنوانا چاہتا ہے، لیکن اْس سے زیادہ وہ کسی کام کی نہیں۔ اْس میں تو پانی بھی نہیں پیا جا سکتا۔''
''کام کی؟ ...... میں نے استفہامیہ نظروں سے کرسٹین کی طرف دیکھا تھا۔''
'ہاں ...... کام کی''۔ کرسٹین نے جنگجوانہ انداز میں جواب دیا۔ ''سب سے پہلے تو یہ کہ سپینش، جرمن، فرنچ اور انگریزی بولنے والی پڑھی لکھی لڑکیاں جب مسلمان ہوتی ہیں تو اْن کو پتہ چلتا ہے کہ اب اْنھیں شیعہ، سْنّی، وہابی یا اس طرح کی کسی شاخ میں بھی داخل ہونا ہو گا۔ جب وہ اسلام کی پریکٹس کے لیے رہنمائی چاہتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب کو تو صرف اْردو، بنگلہ دیشی یا ہندی آتی ہے۔ اچھا رشتہ اس لیے نہیں ملتا کہ پڑھی لکھی اور اْونچی خودی کی مالک گوری کو قابو کرنے کے ڈر سے اکثر لوگ بِدک جاتے ہیں۔ بہت کم گھر کی کھونٹی سے بندھنے کو ترجیح دیں گی۔ اْنھیں دبانا ابھی قدرے مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق سے اچھی طرح آگاہ ہوتی ہیں۔''
''تو پھر اْن کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟'' میں نے پریشان ہو کر پوچھا۔
''قبولِ اسلام کے ہنی مون پیریڈ کے بعد حقائق کی تلخی گلے سے نیچے اْترنے لگ جاتی ہے۔ اکثر نومسلم لڑکیاں فرسٹریشن اور ڈیپریشن کا شکار ہو جاتی ہیں۔ سوشل لائف نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ میں کافی لڑکیوں کو جانتی ہوں، جو اِس دباؤ کے سامنے ہار گئیں اور واپس اپنی گزشتہ زندگی کی طرف پلٹ گئیں۔ تاہم یہ تعداد پرسنٹیج کے حساب سے بہت کم ہے۔''
نومسلموں کے اسلام سے رومانس کے حوالے سے بچپن سے سجی اْونچے کارنس پر پڑی ہوئی مورتی چھن سے نیچے گری اور ٹکڑوں میں بٹ گئی۔
بعد میں کیمبرج یونیورسٹی میں نومسلموں پر کی گئی ایک تحقیق میں شامل ہوا تو معلوم ہوا کہ مسائل اْس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہیں۔ اسلام فطرتاً یورپیوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ وہ انٹرنیٹ اور دیگر ذرایع سے اپنے اندر کی آواز کے تعاقب میں سچائی کو ڈھونڈتے ہوئے اسلام تک آپہنچتے ہیں۔ تاہم قبولِ اسلام کے بعد اصل چیلنج درپیش ہوتا ہے۔
اْنھیں معلوم ہوتا ہے کہ مذہب کے علاوہ ثقافتی اثرات عمومی معاشرت کو بھرپور طریقے سے متاثر کرتے ہیں۔ اْنھیں وہ مسلمان ملتے ہیں جو جھوٹ بولتے، بدکاری کرتے، منافقت کو ترویج دیتے نظر آتے ہیں۔ پھر فرقہ واریت کی بھول بھلیاں اْنھیں اْلجھاتی ہیں۔ عموماً دیکھا گیا کہ نسلی مسلمان اْن کے لیے تالی تو بجاتے ہیں لیکن اْنھیں اپنی زندگی میں شامل نہیں کرتے، اس لیے بہت سی نومسلم خواتین اکیلی اور مشکل زندگی سے نبردآزما ہو رہی ہیں۔''