جمہوریت نفی کا نتیجہ

ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ متحدہ پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ ہماری مقتدر اشرافیہ نے کیا۔


Zahida Hina December 20, 2017
[email protected]

16 دسمبر کی تاریخ گزر گئی۔ وہ تاریخ جس نے پاکستان کو دولخت کرکے اس کھیل کا کام تمام کیا جس میں پاکستان کی حکمران اشرافیہ شروع سے مصروف تھی۔ وہ ملک جو مشرقی بنگال کے لوگوں کے ووٹوں سے قائم ہوا تھا، پہلے دن سے اس کی اکثریت اور حاکمیت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا گیا اور ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ مغربی پاکستان کا رویہ درشت تر ہوتا چلا گیا۔

مجھے ارمان رہا کہ میں مشرقی پاکستان جاؤں اور ڈھاکا، سلہٹ، چٹاگانگ اور رانگا ماٹی سے گزروں لیکن یہ 2011 کا نومبر تھا جب ''ساؤتھ ایشین پیپلز فورم'' کے گیارہویں اجلاس میں ''پائلر'' کے کرامت علی کی دعوت پر میں نے ڈھاکا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ میں ایک بڑے وفد کا حصہ تھی۔ سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا اور پنجاب کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور مختلف این جی اوز سے تعلق رکھنے والے اس وفد میں شامل تھے۔

خوشی اس بات کی تھی کہ چند ذاتی دوست بھی ساتھ تھے، ان میں ڈاکٹر جعفر احمد، ثمینہ پیرزادہ، نصیر میمن اور بلوچستان کے سینیٹر عبدالمالک سامنے کے نام ہیں۔ عبدالمالک اس سفر کے کچھ دنوں بعد بلوچستان کے وزیراعلیٰ ہوئے۔ واپس آکر میں نے اس سفر کے بارے میں لکھا کہ ''شام کی سنہری روشنی میں سیکڑوں فٹ کی بلندی سے وہ شہر اپنی جھلک دکھا رہا ہے جس پر کیسے کیسے ستم نہ توڑے گئے۔ اس پر قدم رکھنے والے جرنیل نے غرور و نخوت سے کہا ''مجھے انسان نہیں، زمین چاہیے'' اس حکم کے بعد زمین پر انسان فرش کی طرح بچھا دیے گئے اور پھر صرف چند مہینوں میں اپنے ہی ملک کو فتح کرنے کے جنون میں گرفتار جرنیلوں کو وقت نے ایک تماشا بنادیا۔ جس شہر کو فتح کرنے کی قسم کھائی گئی تھی اسی کے ایک ہرے بھرے اور دور دور تک پھیلے ہوئے سبزہ زار میں انھوں نے اپنے ہتھیار فاتحین کی خدمت میں رکھ دیے۔

کیا دانش مند اور دانش جُو اقلیت تھی جس نے اپنی اکثریت کی جائز جمہوری خواہشوں اور مطالبوں کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے بہتر یہ جانا کہ ان کے سامنے ہتھیار ڈالیں جنھیں وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ جمہوریت اور جمہوری رائے کے احترام سے اتنی شدید نفرت شاید ہی کہیں اور کی جاتی ہو۔ اس صورتحال کا تجزیہ پاکستان کے معتبر تاریخ داں کے کے عزیز نے اپنے ایک انٹرویو میں کیا ہے۔ انھوں نے کہا ''میں سمجھتا ہوں کہ مغربی پاکستان کے لوگ مجموعی طور پر پاگل ہوگئے تھے۔

انھوں نے اس بات کا اہتمام کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ہمارے بنگالی بھائی ہمیں چھوڑ جائیں۔ پریس بھی برابر کا ذمے دار ہے۔ کاروباری لوگوں نے بھی بنگالیوں کا استحصال کیا۔ جو سرکاری ملازم مشرقی پاکستان میں متعین تھے وہ بنگالیوں کو ''کمّی'' سمجھتے تھے۔ اور یقیناً فوج جو بعد میں وارد ہوئی، اور سیاستدان جو کسی طور اس پر یقین رکھتے تھے کہ مشرقی پاکستان سے نوآبادی کا سا سلوک جاری رکھا جائے۔ مغربی پاکستان کی سیاسی جماعتیں شاید کسی پہلو پر اختلاف کریں، کسی مسئلہ پر، کسی اصول پر، مگر ان میں سے کوئی بھی اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں تھا کہ بنگالیوں کی اکثریت ان پر حکمرانی کرے جو کہ جمہوریت کا تقاضا تھا۔''

بنگلہ دیش کی پیدائش کے خونیں واقعات سے یہ نوجوان واقف تو ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ یکم مارچ 1970ء سے 16 دسمبر 1970ء تک اس خطۂ ارض پر کیا گزری تھی جسے مغربی پاکستان کی فوجی اور سول نوکر شاہی نے 14 اگست 1947ء سے اپنی نوآبادی تصور کیا تھا اور اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا تھا جو فاتح، مفتوحین کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔

پاکستان کی بنیادوں میں باردو بچھانے اور دراڑیں ڈالنے کاکام ہمارے مقتدرین روز اول سے کرتے چلے آئے ہیں اور آج تک خشوع وخضوع سے اس کام میں مصروف ہیں۔ یہی کام مشرقی پاکستان میں ہوا۔ شہید اللہ قیصر، ریحان ظہیر اور متعدد دوسرے بنگلہ دانشور، ادیب، مصور اور شاعر جو مشرقی پاکستان پر قابض مقتدر طاقتوں کے نقطہ نظر سے اختلاف رکھتے تھے ''غائب'' ہوگئے تھے۔ شاید مجھے ''غائب کردیے گئے'' لکھنا چاہیے۔ لیکن بزدلی میرے قلم کو روک لیتی ہے۔ سنا ہے ایک اجتماعی قبر بھی تھی جس میں بہت سے غائب ہوجانے والوںنے آرام کیا۔ عرصے سے بلوچستان میں بھی اختلاف رائے کرنے والے ''غائب'' ہوجاتے ہیں اور سال چھ مہینے بعد پردۂ غیب سے ان کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوجاتی ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے غائب ہوجاتے ہیں۔

1971ء میں جب تک کہ ہمارے بنگالی ہم وطنوں نے ہماری جمہوریت دشمنی اور جاگیردارانہ ذہنیت سے تنگ آکر ہم سے نجات حاصل نہیں کرلی اس وقت تک ہم انھیں کیسے کیسے خطاب سے نوازتے رہے۔ وہ ''ٹنکو'' (پستہ قامت) تھے۔ کچھ انھیں ''بلڈی بنگو'' کہتے رہے۔ کسی کو ان کی رنگت پر اعتراض تھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہندوؤں کے ساتھ ان کی رواداری اور ان کے مقامی رسم و رواج ہمارے یہاں حقارت سے دیکھے جاتے اور انھیں ''ہندو'' کہا جاتا۔ کہنے والوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ ڈھاکا مسجدوں کا شہر کہلاتا ہے یہاں مغل شہزادوں، صوبیداروں اور مالدار زمینداروں کی بنائی ہوئی مسجدوں کا سلسلہ سترہویں صدی سے شروع ہوگیا تھا۔

اسلام خان، شائستہ خان، ملک امبر، موسیٰ خان کی مسجدیں، ست گنبد مسجد جو سترہویں صدی میں بنی، اٹھارہویں، انیسویں اور بیسویں صدی میں نئی اور شاندار مسجدوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہا۔ مغل دور ختم ہوچکا تھا۔ شہزادوں اور صوبیداروں کی سرپرستی قصۂ پارینہ ہوچکی تھی۔ اب بیوپاریوں کا زمانہ تھا۔ انھوںنے نئی مسجدیں بنائیں، پرانی تعمیر شدہ مسجدوں کو آراستہ و پیراستہ کیا اور 1960ء میں حاجی لطیف باوانی کی بنائی ہوئی مسجد بیت المکرم شہر کی پہچان بن چکی ہے۔ 60 ہزار اسکوائر فٹ پر پھیلی ہوئی یہ مسجد فراخی اور سادگی کا نمونہ ہے۔ اس کی بلند وبالا محرابیں، اس کے سبک ستون ہسپانوی طرز تعمیر کی یاد دلاتے ہیں۔

اس کے برابر کی گلی ٹھیلوں اور چھوٹی دکانوں سے پٹی پڑی ہے۔ پرانی کتابیں، لنگیاں، ساڑیاں، بچوں کے سستے کھلونے، اگربتیاں، شمعیں، جو جی چاہیے خریدیے اور دل شاد کیجیے۔ مسجد کے گرد کھوے سے کھوا چھلتا ہے اور وہ بنگالی جسے ہم ''حقیقی مسلمان'' بھی نہیں مانتے تھے۔ اذان ہوتے ہی مسجد بیت المکرم اور شہر کی دوسری تمام مسجدوں کی طرف دوڑ پڑتا ہے۔ بنگلہ دیش وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع ہوتا ہے۔کہنے والے کہتے ہیں کہ اس میں حج سے زیادہ زائرین جمع ہوتے ہیں۔ چاقو چھری نہیں چلتی۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ اس بڑے اجتماع کی نگرانی نہیں کرتا۔ مانجھی، مچھیرا، مزدور جاتا ہے اور اپنے رب سے سب کچھ مانگ کر آجاتا ہے۔ جو نہ ملے اس پر ناراض نہیں ہوتا اور جو مل جائے اس پر شکرانے کی نمازیں ادا کرتا ہے۔

یہاں کی نئی نسل بلند عزائم رکھتی ہے۔ بنگالیوں کو پستہ قامت کہنے اورگہری رنگت کا طعنہ دینے والے اب انھیں دیکھیں تو حیران رہ جائیں۔ متوسط اور طبقۂ اعلیٰ کی لڑکیاں اور لڑکے بالا قامت ہوچکے۔ ان کے چہروں کی ملاحت اور صباحت نگاہوں میں کھبتی ہے۔ ادب، سائنس اور سماجی علوم میں تخلیقی کام زور شور سے ہورہا ہے۔ ان کے بہت سے ناول نگار اب براہ راست انگریزی میں لکھتے ہیں اور بین الاقوامی ادبی برادری میں اپنی پہچان بنا رہے ہیں۔ بہت سے لکھنے والوں کی شاعری اور ناول بنگلہ سے انگریزی میں ترجمہ ہورہے ہیں۔

پیروں کے نیچے سے مسافتیں گزرتی چلی جاتی ہیں۔ یہ توپ خانہ روڈ ہے۔ چلیں چاندنی چوک چلیں۔ ایک پھیرا نیو مارکیٹ اور بائیسکل اسٹریٹ کا لگائیں۔ سینٹرل جیل کی دیوار کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے بخشی بازار میں حسینی دالان جائیں۔ امام باڑے کی زیارت کریں۔ اس کے ساتھ ہی وہ چھوٹا سا قبرستان دیکھیں جہاں صدی ڈیڑھ صدی پرانی قبریں ہیں جن پر چند شمعیں روشن ہیں۔ ان قبروں پر شمع روشن کرتے ہوئے میری آنکھیں نم ہیں۔

ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ متحدہ پاکستان کی تقدیر کا فیصلہ ہماری مقتدر اشرافیہ نے کیا۔ تاریخ کے اس خونیں باب کی جھلکیاں ڈاکٹر جعفر نے اور میں نے ''لبریشن وار میوزیم'' میں دیکھیں۔ 25 مارچ 1971 سے دسمبر 71ء میں ہتھیار ڈالنے کے لمحے تک مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ساتھ جس سفاکی کا سلوک ہوا، اس کی روداد تصویروں، اخباری صفحوں، کھوپڑیوں اور بازوں کی ہڈیوں کے ڈھیر کی صورت میں موجود ہے۔

عورتیں، مرد، بچے، کٹی پھٹی لاشیں، وہ استاد، دانشور، ادیب، شاعر، فنکار جو اس خطا میں مار دیے گئے کہ وہ اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کی جدوجہد میں فوجی جنتا کے مخالف تھے۔ وہ انورا بی بی جو اپنے شیر خوار بچے کو گود میں لے کر حکومت مخالف جلسے میں شرکت کے لیے نکلی تھی اور دودھ پلاتے ہوئے قتل کی گئی تھی۔ ماں کو گولی مارنے والے نے بچے پر رحم کیا اور دوسری گولی اسے بھی ماردی۔ بن ماں کا بچہ در بہ در بھٹکتا رہتا۔ اچھا ہے کہ وہ بھی ماں کے ساتھ سوئے۔

مقتولین کے دربار میں ہم بہ چشم نم ہاتھ باندھے سر جھکائے کھڑے رہے۔ ہم جو قاتل نہ تھے لیکن اس قبیلے سے تو تھے۔ آج یہ تمام باتیں کس شدت کے ساتھ یاد آرہی ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں