سیاسی بابے
سیاست میں سیاسی انداز کے بجائے انتقامی انداز کو ترجیحی دے کر نیا انداز متعارف کرایا گیا ہے۔
ناقص حکمرانی کے نتائج بھی ظاہر ہے نقصان دہ ہی نکلتے ہیں،حکمران اگر فہم و فراست کا دامن چھوڑ دیں تو ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے، بعض نقصان ایسے بھی ہوتے ہیں کہ حکمرانوں اور حکمرانی کی جان پر بن جاتی ہے اور پھر اس جان پر بن آنے والی صو رتحال سے نکلنے کی کوشش میں مزید ناقص فیصلے کیے جاتے ہیں تا آنکہ اقتدار کا سورج غروب ہو جاتا ہے اور عوام کو بری حکمرانی سے نجات مل جاتی ہے۔ آج تک ہمارا ملک اچھی حکمرانی سے محروم ہی رہا۔
دعوے تو بہت کیے جاتے رہے لیکن کوئی اچھا حکمران ملک کو نصیب نہ ہو سکا، جو بھی آیا اس نے کسی نہ کسی طرح ملک کو نقصان ہی پہنچایا اور پھر کپڑے جھاڑ کر چلا گیا۔کوئی پوچھ گچھ نہیں،کوئی حساب کتاب نہ ہوا اور اگر احتساب ہوا بھی تو اس قدر ناقص کہ اس پر انگلیاں ہی اُٹھائی گئیں بلکہ اس بھونڈے احتساب نے حکمرانوں کو مزید مظلوم بنا دیا یعنی احتساب حکمرانوں کے لیے زحمت نہیں بلکہ رحمت ہی ثابت ہوا اور وہ عوام کی نظروں میں مظلوم ٹھہرے۔ملک میں متنارعہ احتساب کا ڈول ڈالا گیا اور احتسابی عدالتوں میں سیاستدانوں کی پیشیاں شروع ہو گئیں یعنی سیاست احتسابی عدالتوں کے فیصلوں کے مرہون منت رہ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاست اور سیاسی انداز بدل گئے۔
سیاسی زبان میں کڑواہٹ اور سختی آگئی جو کہ سیاست کے بالکل اُلٹ ہے، سیاسی حریفوں کاسیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کے بجائے عدالت میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگا کر گھسیٹا گیا اور پھر ان عدالتی فیصلوں پر بھانت بھانت کے تبصرے کیے جاتے ہیں ۔ اس سیاسی صورتحال میں اگر چہ ہردو فریق ہی اپنی جیت کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں، آج اگر ایک کے حق میں فیصلہ آیاہے تو کل کو دوسرا جیت کی مٹھائیاں تقسیم کر رہا ہوتا ہے۔ عدم برداشت کارویہ اور وہ بھی جارحانہ اور تلخیوں سے بھرا ہوا ہے۔
سیاست میں سیاسی انداز کے بجائے انتقامی انداز کو ترجیحی دے کر نیا انداز متعارف کرایا گیا ہے، کڑوے کسیلے جملے بازاری انداز میں کسے جا رہے ہیں اور ہم عوام اپنے لیڈروں کے کڑوے کسیلے جملے سننے پر مجبور ہیں کہ اس وقت یہی سودا بازار میں موجود ہے، اس لیے اسی پر گزارا کرنا ہے۔ عدالتی سیاست کا نیا اندازسابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے زور وشور سے متعارف کرایا، ہر روز اور ہر معاملے پر ازخود نوٹس کی وجہ سے وہ بہت مشہور تھے باوجود اس کے وہ اپنے نوٹس لینے کے باوجود کوئی قابل ذکر فیصلہ کر کے نہیں گئے۔
البتہ سیاست ان کو اس قدر پسند آگئی کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی جماعت بنا کر اس کے سربراہ بن گئے اور اپنا سیاسی شوق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سیاست جب عدالت تک پہنچ جاتی ہے تو ہمارے منصف جو ہم میں سے ہی ہیں، وہ بھی منصف کی کرسی پر بیٹھ کرکیس کی نوعیت کے مطابق تبصرے کرتے ہیں جن سے خبریں بنتی ہیں ۔گاڈ فادر اور سیسلین مافیا جیسے الفاظ بھی قوم نے فلموں کے بعد ججوں سے سنے اور اب ہمارے محترم چیف جسٹس نے عدلیہ کو پوری قوم کا بابا قرار دیا ہے، ان کے لاشعور میں شائد یہ بات کہیں موجود تھی کہ بڑوں کے فیصلوں کو ہمارے معاشرے میں عزت و احترام سے دیکھا جاتا ہے اور ان پر آمین کہا جاتا ہے۔
اس لیے وہ اس کی مثال بھی دے گئے کہ گاؤںمیں بابے کی بات کو رد نہیں کیا جاتا، یہ بات تو ان کی درست ہے کہ گاؤں کے بزرگوں کے فیصلوں کے آگے کسی کی دم مارنے کی جرات نہیں ہوتی اور دونوں فریق پنچائیتی فیصلوں کو قبول بھی کرتے ہیں اور ان پر عمل درآمد بھی کرتے ہیں۔وقت کے ساتھ بدلتی ترجیحات اور نئے زمانے نے نئے انداز نے گاؤں کے ان بابوں کی اہمیت بھی کسی حد تک کم کر دی ہے اور آج کی نوجوان نسل ان کی ذرا کم ہی سنتی ہے اور گاؤں کے یہ بابے اپنی عمر رفتہ کی سنہری یادوں کے سہارے ہی ڈیروں میں بیٹھ کر حقہ گڑگڑاتے رہتے ہیں اور اپنے ہم عمروں کو زمانے کی بے ثباتی کا گلہ کرتے نظر آتے ہیں ۔
بصدِ احترام یہ عرض کرنا ہے کہ چیف صاحب اب بابوں کا وقت گزر گیا اور یہ بابے ماضی کے دھندلکوں میں گم ہوتے جا رہے ہیں ۔ نیا زمانہ نئی صبح و شام پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ تب ہی ہو گا جب اس ملک میں انصاف کا ترازو ہر انسان کے لیے اپنے پلڑے برابر رکھے اور یہ اعتراف نہ کرنا پڑے کہ عوام کو ان کے حق اور آئین کے مطابق معیاری انصاف کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔
معزز چیف جسٹس کو اپنے فیصلوں کی غیرجانبداری ثابت کرنے کے لیے قسم اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ ان کا کہنا کہ ان پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں اور عدلیہ آزادی سے فیصلے کر رہی ہے، یہ ساری باتیں ایک وضاحتی بیان نظر آتی ہیں جس کے پیچھے کوئی اور نہیں ہمارے بابے، سیاستدان اور حکمران ہیں جو اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو اپنے نشانے پر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی جانبداری ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔
معزز چیف جسٹس صاحب نے نہ جانے کس دل سے یہ باتیں کی ہیں، ان کے دل کا حال اللہ ہی جانتا ہے لیکن انھوں نے سیاست دانوں کی ان تمام باتوں کو رد کر دیا ہے کہ عدلیہ کسی نادیدہ دباؤ پر فیصلے کر رہی ہے جس کی مثال انھوں نے حدیبہ کیس کی دی۔
اسلامی ریاست کے منصف کو غیر جانبدار ی شفافیت اور ہر ممکن احتیاط کے ساتھ فیصلے کرنے ہوتے ہیں، ان کے فیصلے ریاست کی مضبوطی اور استحکام میں بنیادی کردار اور ان کے اثرات دور رس ہوتے ہیں ۔اس لیے ہمارے سیاسی بابوں کو عدلیہ اور سیاسی معاملات میں فرق رکھنا ہو گا، دونوں اپنے اپنے ذمے کا کام کرینگے تو کسی کو شکوہ شکایت نہیں ہو گی لہذا سیاست کو سیاست رہنے دیا جائے سیاستدان کالی شیروانیوں میں ہی اچھے لگتے ہیں اور ان شیروانیوں کی حفاظت سیاسی بابوں کی ذمے دار ی بھی ہے۔