سیاسی انتشار
کہا جارہا ہے کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہوگی اور پہلے احتساب ہوگا، پھر انتخابات کا معاملہ آئے گا۔
ملک پھر سیاسی کشمکش کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر پریشان ہیں کہ جو ہورہا ہے وہ تو 2002 اور 2008 میں بھی نہیں ہوا تھا۔ شاید قومی اسمبلی اپنی میعاد مکمل نہ کرپائے۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سیاسی انتشار کی نشاندہی کررہے ہیں۔ ابھی تک انتخابی حلقہ بندیوں کے بارے میں آئینی ترمیم سینیٹ سے منظور نہ ہوسکی۔ قومی اسمبلی کا کورم مکمل نہیں ہوتا۔ عمران خان فوری انتخابات کو مسئلے کا حل قرار دے رہے ہیں۔
پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں قبل از وقت انتخابات کے حق میں نہیں۔ وزیراعظم پرعزم ہیں، اسمبلیاں اپنی آئینی میعاد پوری کریں گی اور انتخابات اگلے سال جولائی میں ہوں گے۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی وفاقی حکومت پر گرفت نہیں، یہی وجہ ہے کہ انارکی کا عنصر صورتحال کو خراب کررہا ہے۔ جب یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے تو انھیں دوسری بڑی بڑی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی، یہی وجہ تھی کہ پرویز مشرف کے صدر ہونے کے باوجود یوسف رضا گیلانی ایک مضبوط وزیراعظم بن گئے۔ پھر ساری سیاسی جماعتوں نے پرویز مشرف کے مواخذے کا فیصلہ کیا۔ اس صورتحال میں آصف زرداری صدر کے عہدے پر فائز ہوئے۔
صدر زرداری نے میاں نوا زشریف سے کیا ہوا وعدہ پور نہیں کیا اور جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال نہیں کیا۔ صدر آصف زرداری نے یہ فیصلہ شاید نامعلوم قوتوں کی ایما پر کیا تھا۔ اس بناء پر پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف کو معزول کرکے گورنر راج نافذ کیا گیا۔ میاں نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ پنجاب کی بیوروکریسی اور مقتدرہ قوتیں میاں نواز شریف کے ساتھ تھیں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والی دیگر ایجنسیوں کے اہلکاروں نے میاں صاحب کے جلوس میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالی اور افتخار چوہدری بحال ہوگئے۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے پہلے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کی تحویل میں لینے کی کوشش کی، پھر امریکی کانگریس سے منظور کردہ کیری لوگر بل، جو پاکستان میں جمہوری اداروں کے تحفظ کے حوالے سے تھا، کی مخالفت نہیں کی اور ممبئی میں دہشت گردی کے واقعے کی تحقیقات کے لیے خفیہ عسکری ایجنسی کے سربراہ کو بھارت بھیجنے کے اعلانات کیے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کی حکومت اور مقتدرہ قوتوں میں فاصلے بڑھ گئے۔
خواجہ آصف اور میاں نواز شریف نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے ذریعے پیپلز پارٹی کی حکومت کو کمزو رکرنے میں کوئی کسر نہ رکھی، مگر یوسف رضا گیلانی باقاعدگی سے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرتے رہے، یوں ان کا اور منتخب اراکین کا ایک مضبوط رشتہ استوار رہا۔ اسی بناء پر سپریم کورٹ کے مسلسل حملوں، ذرایع ابلاغ پر روزانہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف انتظامی اسکینڈلز کی بھرمار، کراچی میں مسلسل ٹارگٹ کلنگ، کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی نسل کشی اور خیبرپختونخوا و پنجاب میں خودکش حملوں کی سیریز کی صورتحال میں بھی پیپلز پارٹی کی حکومت جمی رہی۔
ایک وقت ایسا آیا کہ زرداری اعصابی بیماری کا شکار ہوئے، انھیں علاج کے لیے دبئی لے جایا گیا۔ گیلانی کو سپریم کورٹ نے توہین عدالت کی سزا دے دی مگر پیپلز پارٹی کی حکومت برقرار رہی۔ جب راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تو وہ گیلانی کے مقابلے میں خاصے کمزور وزیراعظم تھے۔ ان میں اہلیت کی کمی تھی اور حکومت مختلف نوعیت کے دباؤ کا شکار تھی، مگر حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن قبل از وقت انتخابات کے حق میں نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ میثاق جمہوریت کی پاسدار تھیں، اسی بناء پر پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنا آئینی وقت پورا کیا اور میاں نواز شریف دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئے، مگر 2013 کے انتخابات میں کچھ سوراخ موجود تھے۔
میاں صاحب نے اپنے منشور پر تیزی سے عملدرآمد کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے خطے میں امن کے لیے افغانستان اور بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کو اولین ترجیح جانا۔ مسلم لیگ ن کے تھنک ٹینک کا منصوبہ تھا کہ تیز رفتار ترقی کے ذریعے عوام کی حمایت برقرار رکھی جاسکتی ہے۔ ترقی کا عمل مستحکم کرنے کے لیے میاں صاحب نے بھارت کے وزیراعظم مودی سے ذاتی تعلقات استوار کیے۔ یہ انھوں نے ایک ایسے موقع پر کیا جب ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے لائن آف کنٹرول کو گرم کردیا گیا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ لائن آف کنٹرول اور سیالکوٹ پر ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی دونوں طرف سے مسلسل فائرنگ کسی وقت جنگ میں تبدیل ہوجائے گی۔
یہ امکان پیدا ہوا کہ میاں نواز شریف اور مودی کے رابطوں کے نتیجے میں کنٹرول لائن پر صورتحال معمول پر آسکتی ہے۔ میاں صاحب بھارت سے تجارت کا حجم بڑھانے کے سب سے بڑے حامی تھے۔ نواز شریف نے افغانستان کے نئے صدر سے بھی اچھے تعلقات قائم کرلیے تھے اور اس بات کا امکان تھا کہ حکومت پاکستان ایک طرف بھارت کو تجارت کے شعبے میں پسندیدہ ملک کی حیثیت دے دے گی تو دوسری طرف افغانستان اور بھارت کو واہگہ سے طورخم تک سامان لے جانے کی اجازت مل جائے گی۔
مسلم لیگی حکومت نے سابق صدر پرویز مشرف کو سزا دینے کی ٹھانی۔ میاں نواز شریف نے چین سے سی پیک کے منصوبے کو آخری شکل دے دی۔ سی پیک منصوبہ اور افغانستان اور بھارت سے بڑے پیمانے پر تجارت سے خطے میں ترقی کا عمل تیز ہوجاتا مگر نواز شریف نے دوسری طرف پارلیمنٹ کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ وہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاسوں میں شرکت کی اہمیت کو محسوس نہ کرسکے۔
سینیٹ میں پیپلز پارٹی کی قیادت میں حزب اختلاف اکثریت میں ہے۔ اگرچہ مسلم لیگ نے میاں رضا ربانی کے سینیٹ کا چیئرمین بننے کی مکمل حمایت کی تھی مگر مسلم لیگی وزراء سینیٹ میں آنے کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے سینیٹروں نے مسلم لیگ حکومت کے اس غیر جمہوری رویہ پر شور مچایا اور پھر قومی اسمبلی کے اراکین بددل ہونے لگے۔ میاں نواز شریف نے اس دفعہ اپنی کابینہ کو بھی اہمیت نہیں دی۔ اہم قوانین کابینہ کی منظوری کے بغیر ہی منظور ہوتے رہے۔ سپریم کورٹ نے اس بارے میں حکومت کے خلاف ایک سخت فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بغیر قانون نافذ نہیں ہوسکتا۔
جب مقتدر قوتوں کو محسوس ہوا کہ میاں صاحب کی پالیسی ان کے گیم پلان کو سبوتاژ کردے گی اور پھر عمران خان نے چار حلقوں میں دھاندلی پر احتجاج شروع کردیا۔ مسلم لیگ کی حکومت اس صورتحال کا ادراک نہ کرسکی۔ پہلے ہی مرحلہ میں چار حلقوں میں ضمنی انتخابات ہوجاتے تو عمران خان کو رائے عامہ ہموا رکرنے کا موقع نہ ملتا۔ عمران خان نے اسلام آباد میں چھ ماہ تک دھرنا دیا۔
عمران خان ان دھرنوں سے اپنا کوئی مقصد حاصل نہ کرسکے، مگر میاں نواز شریف کی حکومت کمزور ہونا شروع ہوگئی۔ پھر پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو گرفت میں لیا گیا۔آصف زرداری بحران کا شکار ہوئے مگر چوہدری نثار نے مقتدر قوتوں کا کھیل کھیلا، یوں میثاق جمہوریت ختم ہوا۔ نواز شریف پیپلز پارٹی کی حمایت سے محروم ہوئے۔ پھر پاناما اسکینڈل نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔ پیپلز پارٹی اس معاملے کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنا چاہتی تھی مگر میاں صاحب ایک نہ نظر آنے والے اتحاد کو نہیں سمجھ سکے۔ یوں وہ نااہل ہوگئے اور خاقان عباسی وزیر اعظم بنے جو اب تک حکومت پر اپنی گرفت قائم نہ کرسکے۔
میاں نواز شریف نے سیاسی انداز میں میدان میں کھڑا ہونے کا فیصلہ کیا اور وہ اب جیل جانے کو بھی تیار ہیں، یوں سیاسی انتشار بڑھایا جارہا ہے۔ فیض آباد دھرنا، اراکین قومی اسمبلی کو نامعلوم افراد کے ٹیلی فون اور بہت کچھ صورتحال کی خرابی کی نشاندہی کررہا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران لاپتہ افراد کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ اب پنجاب سے کارکن لاپتہ ہورہے ہیں۔ اس ساری صورتحال میں جمہوری نظام کی راہیں محدود کی جارہی ہیں۔ مجموعی طور پر سیاسی جماعتوں کے لیے حالا ت مخدوش ہورہے ہیں۔
صورتحال کی خرابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کو اہل قرار دینے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اعلیٰ ترین عدالت کی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لیے زوردار خطاب کرنا پڑگیا۔ کہا جارہا ہے کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہوگی اور پہلے احتساب ہوگا، پھر انتخابات کا معاملہ آئے گا۔ ایک بڑے صحافی اپنے کالم میں اس طرح کا حل تجویز کرچکے ہیں مگر وہ اس حقیقت کو فراموش کررہے ہیں کہ اگر جمہوری حکومت نے اپنی آئینی میعاد پوری نہ کی تو یہ نظام ختم ہوجائے گا اور پھر انتخابات کا التوا ہمیں 7 اکتوبر 1958 تک لے جائے گا۔