ذرا اس پہلو پر بھی غور کرلیں
ضروری ہے کہ دنیا ایک بار پھر سنجیدگی کے ساتھ سوشلسٹ نظام کے بارے میں غور کرے
مختلف تقریبات اور نجی محفلوں میں اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کہ آج جب کہ بائیں بازو کی سیاست کی اشد ضرورت ہے، یہ تحریک کیوں گہنا گئی ہے؟ کیا اس کے دوبارہ فعال ہونے کے امکانات ہیں؟ کیا موجودہ سرمایہ داری نظام جس نے دنیا بھر میں معاشی اور سماجی عدم استحکام کو بڑھاوا دیا ہے، اسے لگام دینے کے لیے کیا مارکسی فکر کا احیا ممکن ہے؟ یا کوئی متبادل سیاسی نظام متعارف ہوگا؟ یا پھر سرمایہ دارانہ نظام کی چیرہ دستیاں اسی طرح جاری رہیں گی؟
اس میں شک نہیں کہ آزاد منڈی (Free Market) کی معیشت نے گزشتہ چند دہائیوں سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جب کہ مارکسی فکر کی بنیاد پر سوشلسٹ نظام خاصی حد تک گہنا گیا ہے۔ بلکہ اسکینڈے نیوین ممالک جہاں سوشل ڈیموکریسی کا نظام کئی دہائیوں سے مقبول نظام کے طور پر رائج چلا آرہا تھا، وہ بھی رفتہ رفتہ اپنی افادیت کھو رہا ہے۔ ان ممالک کے عوام اب اپنی سیاسی پناہ گاہیں سرمایہ داری نظام میں تلاش کررہے ہیں۔ بلکہ بیشتر یورپی ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کی داعی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں مقبولیت حاصل کررہی ہیں۔
لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ کسی مقبول اور غالب نظریہ یا نظام کے عروج و زوال کی تشریح آسان کام نہیں ہوتی۔ کیونکہ اس کے پرت در پرت کئی اسباب ہوتے ہیں، جن کے لیے عمیق تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اگر دنیا میں سوشلسٹ نظام کو گزشتہ چند دہائیوں کے دوران پہنچنے والے جھٹکوں کا مختصراً جائزہ لیا جائے، تو چند تلخ حقائق سامنے آتے ہیں، جو بے شک حتمی نہیں، لیکن اس مسئلے کی بنیاد کو سمجھنے میں بہرحال معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔
اس سلسلے میں مارک جے پیری (Mark J. Perry) کا کہنا ہے کہ سوشلزم اپنے ستر سالہ دور اقتدار میں ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا، جو اس نے انقلاب کے اولین مقاصد متعین کیے تھے۔ وہ کہتا ہے کہ کمیونسٹ خود کو ترقی پسند کہتے ہیں، مگر اپنی سرشت میں عقیدہ پرست (Dogmatic) بن گئے۔ انھوں نے معاشی تخمینوں میں بے شمار غلطیاں کیں اور کثیرالجماعتی جمہوریت کی جگہ پرولتاری آمریت کی تبلیغ کی۔ جس کے نتیجے میں پرولتاریہ تو بااختیار نہیں ہوا، البتہ پارٹی اور بیوروکریسی کی آمریت قائم ہوگئی، جس نے پورے نظام کو گھن کی طرح چاٹ لیا۔
ٹام جی پالمر (Tom G. Palmer) کا کہنا ہے کہ جس طرح ایک عقیدے کے ماننے والے مخالف عقائد کے ماننے والوں کے قتل کو مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں، اسی طرح سوشلسٹ نظریے کے حامیوں نے اقتدار میں آنے کے بعد بڑے پیمانے پر مخالفین کا قتل عام کیا۔ اس عمل نے کمیونزم کے سائنسی نظریہ ہونے کے دعوے کو باطل کرتے ہوئے اسے بھی عقیدہ پرستی کی صف میں لاکھڑا کیا۔ پالمر مزید کہتا ہے کہ کمیونزم عملیت پسند نظم حکمرانی کے بجائے یوٹوپیائی طرزحکمرانی کے طور پر سامنے آیا۔
وہ لکھتا ہے کہ مارکس کا کہنا تھا کہ کسی معاشرے میں جتنی زیادہ صنعتکاری ہوگی، وہاں اتنی ہی بڑی ورکنگ کلاس پیدا ہوگی۔ جب ورکنگ کلاس میں سیاسی وسماجی شعور پیدا ہوگا تو وہ استحصالی سرمایہ داری نظام کو اٹھا پھینکے گا۔ اس Hypothesis کی بنیاد پر پرولتاری انقلاب برطانیہ سمیت مغربی یورپ اور امریکا میں آنا چاہیے تھا۔ مگر پرولتاری انقلاب پہلے روس اور پھر چین میں آتا ہے۔ جو خود مارکس کے نظریہ کی نفی ہے، کیونکہ متذکرہ بالا دونوں ممالک صنعتی ترقی میں بہت پیچھے تھے۔
اس کے برعکس دنیا کا امیر ترین شخص بل گیٹس یہ کہنے پر مجبور ہورہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام عوام کو ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران امیر اور غریب کے درمیان معاشی اور سماجی فرق میں بہت تیزی کے ساتھ اضافہ کے ساتھ ماحولیاتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوا ہے۔ اس کا بنیادی سبب سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کی کوتاہ بینی اور زیادہ سے زیادہ دولت سمیٹنے کی ہوس ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ عالمی سطح پر ریاستوں کے درمیان برابری کی بنیاد پر متوازن تعلقات اور ہر ریاست میںعوام کی فلاح کے لیے ضروری ہے کہ دنیا ایک بار پھر سنجیدگی کے ساتھ سوشلسٹ نظام کے بارے میں غور کرے۔ کیونکہ سیاسی اور سماجی نظام میں بہتری اور عام آدمی کے مسائل کا واحد حل سوشلسٹ نظام میں پنہاں ہے۔ اس لیے جلد یا بدیر دنیا کو سوشلسٹ نظام کی طرف بڑھنا پڑے گا۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ عالمی سطح پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے مارکسی دانشوروں کے لیے لازمی ہوگیا ہے کہ وہ انیسویں اور بیسویں صدی کے نظریات پر اصرار کرنے کے بجائے سوشلزم کو Revisit کریں اور اس کے لیے نئی جہتیں تلاش کریں۔ انھیں اس پہلو پر غور کرنا ہوگا کہ موجودہ دنیا جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گلوبلائزڈ تو ہوگئی ہے، مگر صرف سرمایہ کی آزادانہ نقل وحمل کی حد تک، جب کہ افرادی قوت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنی پسند کے ملک کا رخ کرکے، وہاں سکونت اختیار کرسکیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا گلوبلائزیشن کا موجودہ تصور ادھورا ہے۔ لہٰذا یہ دیکھنے اور سوچنے کی ضرورت ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جو معاشی ترقی کے پیچھے بھاگ رہی ہے، اس میں سماجی اور ثقافتی ہمہ گیریت کو کس طرح فروغ دیا جائے؟ معاشی مسابقت کی دوڑ کے نتیجہ میں عقیدے اور نسل کی بنیاد پر تقطیب (Polarization) میں جو تیز رفتار اضافہ ہورہا ہے، اس پر کیسے قابو پایا جائے؟
لہٰذا ایسے اصولوں اور نظریات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، جو انسانوں کی برابری کے تصور کے ساتھ پرامن بقائے باہمی کو حقیقی معنی میں پروان چڑھانے کا باعث بنیں۔ اس وقت یورپ سمیت دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک میں موجود اہل دانش اس پہلو پر غور کررہے ہیں۔ مگر اصل معاملہ تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا ہے، جو اپنی کم علمی اور فکری پسماندگی کے باعث فرسودہ نظریات اور افکار میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان ممالک کے اہل دانش میں اتنی بصیرت نہیں کہ وہ اپنے اطراف تیزی سے پھیلتی عقیدے اور نسلی ولسانی تفاوت کے خاتمہ یا اسے کم کرنے کے لیے کوئی واضح سوچ پروان چڑھا سکیں۔
اس تناظر میں جب ہم پاکستان کے سیاسی اور سماجی منظرنامے پر نظر دوڑاتے ہیں، تو مایوسی کے دبیز بادل چھا جاتے ہیں۔ کیونکہ اس ملک کو جس انداز میں سیاسی انتشار کی طرف دھکیلا جارہا ہے اور جس طرح عقیدے کی بنیاد پر متشدد رویوں سے صرف نظر کیا جارہا ہے، اس نے ہر سوچنے سمجھنے والے شہری کو شدید ذہنی کرب میں مبتلا کردیا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بعض سیاسی حلقے سوشلزم، لبرل ازم اور سیکولرازم کی مبادیات تک سے ناآشنا ہونے کے باوجود ان اصطلاحات کو محض فیشن کے طور پر استعمال کرکے، مخالفین کو ان کے بارے میں منفی پروپیگنڈے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر پیپلز پارٹی نے سوشلزم کو جس منفی انداز میں استعمال کیا، اس کے بعد عام آدمی کو یہ سمجھانا مشکل ہوگیا کہ جس نظام کا پیپلز پارٹی ذکر کرتی ہے وہ سوشلزم نہیں ہے۔ اسی طرح بابائے اردو کی انگریزی اردو لغت میں سیکولرازم کے معنی دانستہ یا نادانستہ طور پر ''لادینیت'' لکھ جانے سے یہ اصطلاح عام پاکستانیوں کے لیے ناقابل قبول بن گئی ہے۔ اب بعض مذہبی جماعتیں اور حلقے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے اسے لبرل جماعت قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ تحریک انصاف کسی بھی زاویہ سے لبرل جماعت نہیں ہے، بلکہ ممکن ہے کہ اس کے قائدین کی اکثریت لبرل ازم کی اصل تعریف سے بھی واقف نہ ہو۔
لیکن اس کے باوجود یہ تینوں اصطلاحات پاکستان میں ناقابل قبول بنادی گئی ہیں۔ ان اصلاحات کے بارے میں منفی پروپیگنڈے میں ذرایع ابلاغ کا کردار بھی کچھ کم نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں جدید افکار اور نظریات کی بنیاد پر سیاسی، سماجی اور انتظامی تبدیلیوں کی توقع کم سے کم ہوتی جارہی ہے، وہاں اس کے باوجود سیاسی و سماجی نظام اور انتظامی ڈھانچہ کی بہتری کا واحد ذریعہ اب بھی یہی ہے کہ سابقہ ریاستی بیانیہ اور تصورات سے باہر نکل کر سوشل ڈیموکریسی (Social democracy) کا تجربہ کیا جائے اور ملک کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کی کوشش کی جائے۔