قبلہ اول سے پاکستان تک
اسرائیلی یہودیوں کے جاسوس ادارے ہمارے پڑوسی ملک کے ساتھ مل کر پاکستان میں عدم استحکام پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔
بیت المقدس، جس کی تعمیر حضرت یعقوبؑ نے کی تھی، اس کے بعد اس میں تعمیراتی اضافہ حضرت سلیمان بن داؤدؑ نے کیا۔ یہ مسجد جو کبھی مسلمانوں کا قبلہ اول رہا ہے، تقریباً 14 سے 16 ماہ تک اسی کو قبلہ بنا کر نماز ادا ہوتی تھی لیکن اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے رسول خدا ﷺ پر اس وقت وحی نازل فرمائی جب وہ ایک مسجد میں اسی بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ادا کر رہے تھے اور حالت رکوع میں تھے، عین اسی وقت حکم اللہ ہوا اپنا قبلہ بیت اللہ مکہ معظمہ کی طرف کرلو تو اللہ کے حکم کی تعمیل میں رسول اللہ ﷺ نے عین رکوع میں اپنا رخ مشرق سے مغرب کی طرف کرلیا۔ آج بھی مدینہ منورہ میں یہ مسجد موجود ہے، جو قبلتین کہلاتی ہے۔
جب خلیفہ دوئم عمر بن خطاب کا زمانہ آیا تو مسلمانوں نے بیت المقدس کو فتح کرلیا تھا، خلیفہ دوئم بیت المقدس گئے تو اس کے قریب، جہاں ایک روایت کے مطابق صخرہ اور براق معراج کو کھڑا کیا تھا، حضرت عمرؓ نے اس جگہ بھی ایک مسجد تعمیر کروا دی، جسے بعد میں لوگوں نے مسجد اقصیٰ کا ہی جز بنا لیا۔ قبلہ اول بیت المقدس کئی دفہ غیر مسلموں کے قبضہ میں بھی گیا اور پھر مسلمانوں نے آزاد کرایا۔ خلیفہ عبدالمالک بن مروان نے بھی اپنے زمانے میں اس کی تعمیر نو کی تھی، پھر عباسی خلیفہ ابوجعفر منصور نے بھی تزئین کروائی۔
پہلی جنگ صلیبی کے بعد عیسائیوں نے اس بیت المقدس کو اپنے قبضہ میں لے لیا تھا اور اس میں تبدیلی بھی کی، اس کا نام معید سلیمان بن داؤد علیہ سلام رکھا اور اسی کے کچھ حصہ میں گرجا بھی بنایا۔ پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے 2 اکتوبر 1187 میں بیت المقدس کو آزاد کرایا اور عیسا ئیوں کے بنائے ہوئے تمام نشانات و علامات کو مسمار کرکے محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کروایا۔
مسجد اقصیٰ کے نام کا اطلاق پورے حرم قدسی پر ہوتا تھا، جس میں عمارتیں جن میں قبتہ الصخرا جو اسلامی طرز تعمیر کا ایک قابل دید نمونہ تھا، شامل تھا، جو آج کل یہ حرم جنوبی مسجد کا حصہ کہلاتا ہے، جو عموماً تصویروں میں بطور مسجد نظر آتا ہے، جسے عموماً لوگ مسجد اقصیٰ سمجھتے ہیں، حالانکہ بیت المقدس اسی مسجد اقصیٰ کے صحن کے وسط میں جو قعبہ ہے، جو بلندی پر ہے، وہی اصل بیت المقدس ہے۔
آسٹریلوی یہودی ڈینس مائیکل روحان نے اس قبلہ اول کو جلایا تھا۔ یہ آگ تقریباً تین گھنٹہ تک پھیلتی رہی اور جنوب مشرقی حصہ جو عین قبلہ کی طرف تھا، اس کا بڑا حصہ نذر آتش ہوگیا۔ اس واقعے کے بعد ہی صلاح الدین ایوبی نے اسے آزاد کرایا۔ صلاح الدین ایوبی نے دوبارہ وہ منبر بنایا جو نذر آتش ہوگیا تھا، اور صلاح الدین ایوبی جنھوں نے 16 جنگیں لڑیں اور فتح بیت المقدس کے بعد اس نئے منبر کو اسی مقام پر نصب کیا جہاں منبر جلایا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد یہودی ہیکل سلیمانی کو اس مسجد کے مقام پر دوبارہ تعمیر کرنا چاہتے تھے، حالانکہ تاریخی حقائق میں ہیکل سلیمانی کا یہ مقام نہیں جہاں مسجد تھی۔ یہودیوں کی اس ضد پر مسلمانوں میں بیداری پیدا ہوئی، مگر پھر اس بیت المقدس کے اردگرد یہودی بستیاں آباد ہوئیں، جس کی پہلی مخالفت قائداعظم محمد علی جناح نے کی تھی، مصریوں کو باور کرایا تھا یہ یہودی اپنا وطن بنانا چاہتے ہیں، اور انھوں نے بنایا۔ پھر حال ہی کی بات ہے، فلسطینی جن کی آبادی زیادہ تھی، جن کی بستی زیادہ تھی، انھیں غیر آباد علاقوں میں زبردستی بھیجا گیا اور پھر آزادی تحریک فلسطین شروع ہوگئی۔
اس تحریک کے روح رواں یاسر عرفات تھے جو بہت متحرک تھے۔ ان کے عرب بادشاہوں سے بہت اچھے تعلقات تھے، اس لیے اس تحریک میں سعودی عرب، خلیجی ریاستیں، عراق، شام، مصر، اردن، سب نے یاسر عرفات کا بہت ساتھ دیا۔ مگر یاسر عرفات کو شاید اس لیے کامیابی نہ ملی کہ انھوں نے اپنی تحریک کو ایک وطن کی آزادی کا مقصد بنایا۔ انھوں نے قبلہ اول کو تحریک کا اصل مقصد نہیں بنایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی عراق کے صدر صدام حسین ہوں یا مصر کے حسنی مبارک ہوں، اردن کے شاہ حسین ہوں، خلیجی ممالک کے سلاطین ہوں اور سعودی عرب کے شاہ فہد بن عبدالعزیز ہوں، ان سب نے ہمیشہ ایک نعرہ بلند کیا، جس میں عراق، شام کی سیاسی حکومتیں پیش پیش ہیں کہ ہم پہلے عرب ہیں پھر مسلم۔ یہ سب اسلامی تحریک کے حامی نہ تھے بلکہ سیکولرازم کے حامی تھے۔
شاید اسی لیے آہستہ آہستہ تحریک آزادی فلسطین کا زور کم ہوتا چلا گیا، اب یہ تحریک اپنی شناخت کھو چکی ہے۔ اب اس کی جگہ حماس نے لے لی ہے مگر اس سے زیادہ طاقتور اور مضبوط حزب اللہ ہے، جس کی قیادت ایک بہادر سمجھدار عالم دین نصر اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جس کو خاص طور پر ایران کی حمایت حاصل ہے۔ حزب اللہ نے اپنا مقصد مسلمانوں کے لیے بیت المقدس کی آزادی اور تمام دنیا کے مسلم ممالک کو اسلامی حکومت بنانے میں مدد دینا ہے۔
اسی لیے شاید عرب ان کا ساتھ نہیں دیتے، کیونکہ عرب ملکوں میں قیادت ملوکیت کے انداز میں چل رہی ہے، کہیں بادشاہ تو کہیں سلطان، کہیں امیر، تو کہیں امیر المومنین، انھیں خطرہ ہے اسلامی حکومت سے، حالانکہ بحیثیت مسلمان اگر یہ خود اپنی سلطنت کو اسلامی نظام میں ڈھال لیں، جیسا کہ کم سے کم ایران نے کیا ہے تو پوری دنیا کے مسلمانوں کو متحد کرنے اور ان کی قوت کو مجتمع کرنے میں بہت آسانی ہوگی۔
اب حالات بتلا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو سازشی عناصر سے دور ہونا پڑے گا۔ خاص طور پر یہودیوں اور موساد کی اس سازش سے جو اس نے مسلمانوں کو تقسیم کرکے کی ہے، کہیں عرب و عجم کی بنیاد پر، کہیں فرقہ کی بنیاد پر، کہیں لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کردیا۔ ان اسرائیلی یہودیوں کے جاسوس ادارے ہمارے پڑوسی ملک کے ساتھ مل کر پاکستان میں عدم استحکام پر مسلسل کام کر رہے ہیں۔ یہاں پر دہشت گردی اور منافرت پھیلائی جارہی ہے۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہماری حکومتیں صاف اور شفاف طریقے سے حکمرانی نہیں کر رہی ہیں۔ یہ حکمران بدعنوانیوں میں ڈوبتے جارہے ہیں، انھیں دشمن کے عزائم کا احساس نہیں کہ بعض سپر طاقتیں پاکستان کو ایک ناکام ریاست کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتی ہیں، تاکہ ہماری جوہری قوت کو کسی طرح ختم کیا جاسکے۔
یہ شکر ہے اللہ کا کہ ہماری پاک افواج اب ملک کی سرحدوں کے علاوہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت پر توجہ دے رہی ہیں، خاص طور پر دہشت گردی پر بھر پور توجہ دے کر ملک میں امن و سکون پیدا کیا، مگر ابھی معاشی اور اقتصادی دہشت گردی کا خاتمہ ہونا باقی ہے۔ سیاستدانوں کو نہ عوام کی اذیتوں کا احساس ہے، نہ وطن میں خوشحالی لانے کا عزم، نہ ہی خوف خدا ہے۔ اگر اب بھی وطن عزیز ان ہی جیسے سیاستدانوں کے ہاتھوں میں چلتا رہا تو ملک میں روشنی کے لیے تیل کے چراغ جلیں گے، کارخانوں میں ہاتھ کی مشینیں، پانی کے لیے کنویں کھودنا ہوں گے۔