اعتدال کی راہیں گم
ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری، کھلے عام ڈکیتی کی وارداتوں اور اسٹریٹ کرائمز سے بدحال عوام اب چین سے جی بھی نہیں سکتے۔
ہمارے لیے یہ بات کتنی شرم اور رسوائی کا باعث ہونی چاہیے کہ ایک بھارتی سیاستداں آج اٹھ کر ہمارے شہر کراچی کے حالات کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے یہ کہے کہ یہ شہر اب ایک جراسک پارک بن چکا ہے۔ جہاں خونخوار درندے تو آزاد گھومتے پھرتے ہوں اور اس شہر کے معصوم اور پر امن شہری خوف اور ڈر کے مارے اپنے گھروں میں محصور ہو جائیں۔ یہ صرف چند دنوں کی بات نہیں ہے۔
یہاں گزشتہ بیس پچیس سال سے خوف کی ایک ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ وہ شہر جو کبھی امن و آشتی کا گہوارہ ہوا کرتا تھا، جہاں ہر ذات، ہر فرقے اور ہر علاقے کے لوگ مل جل کر رہا کرتے تھے اب ایک دوسرے سے نہ صرف خوف زدہ ہیں بلکہ اشتعال اور نفرت کے باعث ایک دوسرے کی جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی کے علاوہ یہاں لوگوں کے درمیان علاقائی گروہ بندی اور لسانی تعصب نے منافرت اور منافقت کی ایک ایسی دیوار کھڑی کر دی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے علاقوں میں جانے سے بھی گریزاں ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری، کھلے عام ڈکیتی کی وارداتوں اور اسٹریٹ کرائمز سے بدحال عوام اب چین سے جی بھی نہیں سکتے۔ صبح کو اسکول جانے والے بچوں کے والدین کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں دوپہر سے پہلے کوئی ہنگامہ آرائی نہ ہو جائے اور ان کے بچے کہیں اس قتل و غارت گری کا شکار نہ ہو جائیں۔ کام سے دفتر جانے والوں کو بھی یہ نہیں پتہ کہ وہ شام تک بحفاظت واپس اپنے گھر بھی آ پائیں گے یا نہیں۔ ایک ہڑتال کا اعلان ہوتا ہے اور گلیوں اور سڑکوں پر انجانے دہشت گردوں کا راج ہو جاتا ہے۔ سارا شہر ایک آفت زدہ اور خوفزدہ بستی میں بدل جاتا ہے، ہر طرف افراتفری کا عالم ہوتا ہے، کانوں میں مسلسل ہوائی فائرنگ کی گھنگھناہٹ گونجتی رہتی ہے اور جلاؤ گھیراؤ کے باعث شہر کا سارا ٹریفک جام ہو کر رہ جاتا ہے۔
ارباب اختیار اتنے بے بس و لاچار ہیں کہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں ہوتی۔ ان دندناتے مسلح دہشت گردوں پر کوئی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یہ کھلے عام اپنا ہدف اور مقصد پورا کر کے اپنے بلوں میں گھس جاتے ہیں اور کوئی ٹی وی کیمرہ اور کوئی سی سی ٹی ان چہروں کی نشاندہی نہیں کر پاتا۔ 12 مئی 2007ء کو بھی ایسا ہی خونخوار کھیل ہماری سڑکوں اور شاہراہوں پر صبح سے شام تک کھیلا جاتا رہا اور کوئی مجرم گرفتار نہ ہوا۔ پچاس سے زائد افراد پہلے سے طے شدہ اس خونریزی کا نشانہ بنے اور شام کو کرشمہ ساز اپنے مکروہ عزائم کی کامیابی کا جشن مناتے رہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ان واقعات کا اصل اسکرپٹ رائٹر کون تھا لیکن کوئی بھی عدالتِ قانون ان مجرموں کو پابند سلاسل نہ کر پائی۔
کراچی کا اصل دشمن کون ہے جو یہاں امن قائم ہی ہونے نہیں دیتا۔ پانچ سال تک مفاہمت اور رفاقت کی سیاست کی جاتی رہی لیکن اس شہر کے عوام کو اس مفاہمت کی سیاست سے کیا ملا۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی بھی کی گئی اور ایک دوسرے کو گلے بھی لگایا گیا۔ کبھی حکومت سے علیحدگی کا الٹی میٹم اور کچھ دنوں کی کبھی جز وقتی علیحدگی اور پھر جلد ہی ایک ہی دستر خوان پر سیر و شکم بھی۔ کبھی ذوالفقار مرزا کی گرج اور لرز تو کبھی آغا سراج درانی اور پیر مظہر الحق کی دھمکی آمیز ہرزہ سرائی۔ کبھی لیاری گینگ وار کی خفیہ وارداتیں تو کبھی کٹی پہاڑی سے اندھی گولیوں کی بوچھاڑ، پانچ سال تک یہی کھیل جاری رہا اور اب اگلے پانچ برسوں میں بھی یہی عمل دہرانے کی مکمل تیاری ہے۔
اہل کراچی حیران اور انگشت بدنداں ہیں کہ اس شہر کا اصل دشمن کون ہے۔ ان کے شہر میں امن کب قائم ہو گا، انھیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ یہاں کاروبار اب تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔ سرمایہ دار اپنا سرمایہ دوسروں ملکوں میں منتقل کر رہا ہے، مخیر اور با حیثیت افراد اس شہر کو چھوڑ کر دوسرے شہروں میں سکونت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ کئی علاقے نو گو ایریا بنتے جا رہے ہیں۔ زمینوں، جائیدادوں اور پراپرٹی کی قیمتیں بے وقعت ہوتی جا رہی ہیں۔ اس شہر کا مستقبل اسلحہ بردار گروپس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ جہاں کبھی پیار و محبت کے پھول کھلا کرتے تھے وہاں اب نفرت اور کدورت کے انگارے سلگ رہے ہیں۔ اعتدال کی راہیں گم ہوتی جا رہی ہیں، تقسیم کی لکیریں اور بھی گہری ہوتی جا رہی ہیں۔
مصلحت کوشی اور اقتدار کی طلب اور ہوس نے عوام کو اپنی خواہشوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس شہر کا اب کون وارث اور مالک ہے۔ یہاں اب کس کی حکمرانی ہے۔ جس کا جہاں زور چلتا ہے وہی وہاں کا حکمراں ہے۔ مختلف قبضہ مافیا اور بھتہ مافیا اس شہر کے اب مالک و مختار بن چکے ہیں اور عوام بس ان کے ہی رحم و کرم پر ہیں۔ وہ جب چاہتے ہیں اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کے لیے اس ہنستے بستے شہر کو اجاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ مسند اقتدار پر بیٹھے عقل و دانش سے عاری نفوس کا گروہ بس اخباری بیانات کی حد تک اپنی رٹ قائم کیے ہوئے ہے۔ روزانہ دس بارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کو بڑے شہروں کا معمول قرار دے کر اربابِ اختیار بڑے اطمینان و سکون سے چین کی نیند سو جاتے ہیں۔
دنیا کے کس بڑے شہر میں اس طرح بلاوجہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ ٹوکیو، ممبئی اور کلکتہ بھی دنیا کے بڑے شہروں میں شمار ہوتے ہیں، وہاں کب اور کہاں اس طرح قتل و غارت گری ہوا کرتی ہے۔ جب کراچی میں امن و آشتی کا دیوتا خود اپنی حفاظت سے قاصر ہو جائے، آگ و خون کی ریلیاں روز کا معمول بن جائیں۔ معصوم اور بے گناہ افراد کا قتل بڑے شہر کی ضرورت بن جائے تو وہاں محبتوں کے پھول کیسے کھلیں گے، خوش رنگ خوابوں کے نقوش کیسے تراشے اور بہار آفریں موسموں کے منظر کیسے سجائے جائیں گے۔
جہاں دو کروڑ افراد کا کوئی مستقبل ہی نہ رہے وہاں ترقی و خوشحالی کی آس و امید کیسے باقی رہے گی۔ شہر میں پھیلائی گئی نفرت و اشتعال کی آگ سب کچھ بھسم کر دینے کی ایک بھیانک منظر کشی کر رہی ہے اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔ ملک کے اندر دو ماہ میں نئے انتخابات ہونے والے ہیں۔ اب یہ یہاں کے عوام پر منحصر ہے کہ وہ کسے اپنا حاکم اور مختار بناتے ہیں۔ یاد رکھیے یہ ہمارے لیے آخری موقع ہے۔ اگر ہم نے یہ موقع گنوا دیا تو پھر ہمیں کوئی بھی بھیانک اور خوفناک انجام سے نہیں بچا پائے گا۔ اس کے بعد تمامتر مشکلات کے ہم خود ہی ذمے دار ہوں گے۔