ارتقا کا دھارا 1
جب تک انسان جسمانی لحاظ سے آسودہ اور مطمئن نہ ہو، نہ کوئی ذہنی ترقی ممکن ہے نہ روحانی۔
رئیس امروہوی مرحوم نے تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں کو اس قدر آسان الفاظ میں تحریر کیا ہے کہ ہر طبقہ فکر کے قاری کے لیے اسے سمجھنا سہل ہے۔ گزشتہ کالم میں 'لے سانس بھی آہستہ' سے ہم نے جو اقتباس پیش کیا اسے بہت سراہا گیا۔ سانس کی مشقوں کے حوالے سے روح حیات کا تذکرہ آیا، اس سلسلے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے 'ارتقا کا دھارا' پیش کر رہے ہیں، چونکہ موضوع ایک کالم میں نہیں سمٹ سکتا ہے، اس لیے دو حصوں میں شایع کیا جا رہا ہے۔
آپ کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ تعمیر و تنظیم شخصیت کی مشقوں سے انسان کی وہ صلاحیتیں اور قوتیں رفتہ رفتہ بروئے کار آتی اور بیدار ہو جاتی ہیں جو بعض وجوہ سے اب تک پوری طرح اجاگر نہیں ہو سکیں۔ یہ قوتیں ہر شخص میں اس طرح مخفی ہیں جس طرح گلاب کی پتیوں میں عطر! جس طرح عطر گلاب تیار کرنے کے لیے پھول کی پتیوں کو کشید کرنا پڑتا ہے اسی طرح نفس انسانی کی غیر معمولی استعداد کو چست، چوکنا اور فعال بنانے کے لیے سانس، ارتکاز توجہ اور تنظیم خیال کی مشقیں کی جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مادی ترقی کا عہد ایجاد، انسان کی روحانی ترقی کے راستے میں پہلے قدم کی حیثیت رکھتا ہے۔
جب تک انسان جسمانی لحاظ سے آسودہ اور مطمئن نہ ہو، نہ کوئی ذہنی ترقی ممکن ہے نہ روحانی۔ جہاں تک انسانی جسم کی ترتیب و ترقی، بناوٹ اور سجاوٹ کا تعلق ہے تو یہ سلسلہ ابو البشر کے ظہور کے وقت ہی ختم ہو چکا۔ اب یہ ممکن نہیں کہ ہمارے قد و قامت میں کوئی غیر معمولی اضافہ ہو سکے یا دو آنکھوں کے درمیان رفتہ رفتہ تیسری آنکھ اور چار ہاتھ پائوں کے بجائے چھ یا آٹھ پائوں وجود میں آ جائیں۔ انسان کا موجودہ جسمانی ڈھانچہ دنیاوی زندگی بسر کرنے کے لیے بالکل کافی ہے۔ اپنی تکمیل اور بقا کے لیے انسان کو جتنے اسلحوں کی ضرورت تھی، وہ سارے کے سارے اسلحے قدرت نے پہلے ہی بخش رکھے ہیں۔ ماں کے پیٹ میں نطفے کا حیوان اور حیوان کا انسان بننا بھرپور تخلیقی عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔
آدم و حوا کی اولاد جسمانی تکمیل کے درجے پر فائز ہو چکی، آدم زاد سموچا آدم زاد بن چکا اور اب ارتقا کا دھارا جسم کے بجائے روح اور نفس کی طرف بہہ رہا ہے۔ ہزاروں لاکھوں سال پہلے حیا کا جو معمار قصر وجود کے در و دیوار کی تکمیل میں مصروف تھا۔ وہ اب اس کی تزئین میں غرق ہے یعنی جسم کی ساخت مکمل ہو چکی اب نفس کی پرداخت (تہذیب و ترقی) کا عمومی دور شروع ہو رہا ہے۔ میں نے عمومی دور ''یعنی عام دور'' کے الفاظ جان بوجھ کر استعمال کیے ہیں اور اس لیے استعمال کیے ہیں کہ ہر عہد میں ایسے نادر و باکمال انسان موجود رہے ہیں جو اعلیٰ درجے کی روحانی صلاحیتوں کے مالک اور تہذیب نفس کے درجہ کمال پر فائز تھے۔ میرا اشارہ بانیان مذاہب اور انبیاء و مرسلین کی طرف نہیں۔
وہ نوع انسانی میں مستثنیات کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے پرندوں میں عنقا اور ہما۔ میرا اشارہ عام روحانی رہنمائوں، دانشوروں، فلسفیوں، شاعروں، مفکروں اور سائنس دانوں کی طرف ہے۔ جن کی فکری اور ذہنی نیش رسائی سے ہر عہد کا انسان مستفید ہوتا رہا ہے، تاہم آج سے پہلے نوع انسانی کی اکثریت زندگی بسر کرنے کی ابتدائی مشکلات میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ وہ مشکل ہی سے اپنی ذہنی ضروریات کی تکمیل کی طرف توجہ کر سکتی تھی۔ یقیناً تہذیب نفس یعنی روح کو نکھارنے اور سنوارنے کا دور آج سے شرع نہیں ہوا، یہ مرحلہ اسی وقت شروع ہو گیا تھا۔ جب انسان نے پہلے مرتبہ ''اشرف المخلوقات'' کی حیثیت سے اپنے کو دریافت کیا تھا۔ البتہ ابتدا میں نشو و نما کی تمام قوتیں مادے کی تکمیل میں صرف ہوتی رہیں اور جب گلاب کا پھول کھل گیا تو اس میں خود بخود خوشبو پیدا ہو گئی۔
ماضی کے عام انسان کی پوری جسمانی اور ذہنی قوت معاش کے حصول میں صرف ہوتی تھی۔ اس کی تمام جسمانی اور نفسی توانائی کا ہمہ گیر مصرف صرف زندہ رہنے کی جدوجہد تھی۔ آج سے دس ہزار سال پہلے کا آدمی نہ سائنس سے واقف تھا، نہ کلچر کے آداب سے! پتھر کے زمانے کے لوگ پتھروں کو گھس کر نوکیلے ہتھیار بناتے اور ان سادہ ہتھیاروں سے شکار مار گراتے۔ رفتہ رفتہ آدمی نے زمین، پہاڑ، دریا، نباتات، حیوانات اور موسم پر فتح پانے کی تدبیریں سوچنی اور اختیار کرنی شروع کیں۔ گھنے جنگلوں، زہریلی دلدلوں اور پہاڑی غاروں میں رہنے والے انسانوں نے بڑے بڑے گروہ بنائے۔
ان گروہوں نے آواز کو گفتگو کا روپ دیا۔ اشاروں کو الفاظ میں تبدیل کیا اور ''نطق'' (سوچ سمجھ کر دلیل و برہان کے ساتھ عقل کی روشنی میں باقاعدہ گفتگو اور تبادلہ خیال کرنا) کے پیٹ سے تہذیب و تمدن نے جنم لیا۔ اس طرح حیوان کے بجائے انسان ناطق ظہور میں آیا۔ عہد حاضر کا انسان فطری طاقتوں کا محکوم نہیں فاتح ہے، مثلاً پہلے ہوا، پانی اور موسم پر اس کا کوئی اختیار نہ تھا، لیکن اب وہ بہت حد تک ہوا، پانی اور موسم کو تسخیر کر چکا ہے۔ آج کا آدمی کرۂ ارض سے بندھا ہوا نہیں بلکہ زمین کی کشش ثقل پر غالب آنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کوشش میں کامیاب بھی ہے۔
اگر کامیاب نہ ہوتا تو کس طرح ممکن تھا کہ مصنوعی چاند، زمین و مریخ اور ماہ و مشتری کے مداروں پر گردش کر سکتے یا خلا نورد چاند کی سطح پر چاند گاڑیاں دوڑاتے، بیسیوں صدی میں ہمیں زندہ رہنے، افلاس و امراض پر غالب آنے اور کائنات کی طاقتوں کو زیر کر کے انھیں مفید استعمال میں لانے کی جو سہولتیں حاصل ہیں، کیا سترہویں اٹھارہویں صدی کا انسان اس کا خواب بھی دیکھ سکتا تھا؟ اگلی صدی میں کیا ہونے والا ہے؟ اکیسویں صدی میں آدم علیہ السلام کی اولاد کیا کارنامے انجام دینے والی ہے، صرف ایک شاعر کا تخیل ہی مستقبل کے امکانات کا اندازہ لگا سکتا ہے۔اس وقت ارتقا کی تمام قوتیں جسم کے بجائے روح یعنی باہر سے اندر کی طرف بہہ رہی ہے اور دماغ کے نئے نئے پرت، جو پہلے بے کار اور معطل پڑے تھے، آہستہ آہستہ کھل رہے ہیں۔
عہد حاضر کے انسانوں نے سائنس کے میدان میں جو ترقی کی ہے، ٹیکنالوجی کو جس درجے تک پہنچا دیا ہے اس کو دیکھ کر یقین ہوتا ہے کہ آنیوالے کل کے انسانوں کے بیشتر کارناموں کی نوعیت جسمانی کے بجائے دماغی ہو گی۔ دماغ کا ایک حصہ تو وہ ہے جس کا تعلق تجرباتی علوم سے ہے۔ تجرباتی علوم سے مراد وہ فنون ہیں جو آلات اور مشینوں پر منحصر ہیں، مثلاً انجینئرنگ، کیمیا اور ریاضی (کمپیوٹر کے ذریعے حساب کتاب) دماغ کا دوسرا حصہ وجدانی علوم سے تعلق رکھتا ہے، مثلاً مابعد النفسیات، تنویم اور اشراق وغیرہ۔ پہلے انسان کی جو فاضل توانائیاں روٹی کے حصول یا دشمنوں سے لڑنے اور جان بچانے کی جدوجہد میں ضایع ہو جاتی تھیں، اب سائنسی اور تہذیبی ترقی کے سبب ان کا ایک حصہ خالص دماغی کاموں پر صرف ہونے لگا ہے۔
(جاری ہے)