پاکستانیوں سے چھوٹتا زراعت کا پیشہ

20 برسوں میں زراعت سے وابستہ افراد کی تعداد میں 4فیصد کمی ہوئی۔


محمد عاطف شیخ December 24, 2017
آبادی میں اضافہ اور زرعی اجناس کی پیداوار میں بظاہر یہ عدم توازن معمولی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: پاکستان کی ترقی میں دوہرا کردار اد ا کرنے والا شعبہ زراعت ۔ ایک طرف تو آبادی کی خوراک کی ضروریات پوری کر رہا ہے تو دوسری جانب کھانے کی اجناس کی درآمدات کو محدود کر کے قیمتی زر مبادلہ بچانے میں معاون ثابت ہورہا ہے۔

یہ معیشت کا ایک اہم شعبہ ہے جو ملک کے اہم صنعتی یو نٹوں کو خام مال فراہم کرتا ہے اور ملکی بر آمدات کا بڑا حصہ زرعی اجناس اور اُن کی مصنوعات پر مبنی ہے۔جس سے کثیر غیر ملکی زر مبادلہ حاصل ہوتاہے۔ اس کے علاوہ یہ 19.9 فیصد ملکی جی ڈی پی اور42.27 فیصد ملازمتوں کا حامل ہے۔ اور اس کا دیگر شعبوں کے ساتھ بلواسطہ اور بلاواسطہ تعلق ہے جس کی بدولت یہ ملک کی سماجی و اقتصادی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ لیکن اس تمام تر اہمیت کے باوجود ایک چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ ملک میں زراعت کے شعبے سے وابستہ افراد کے تناسب میں کمی آرہی ہے یعنی سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ لوگ یہ پیشہ ترک کر رہے ہیں۔

اکنامک سروے آف پاکستان 2016-17 اور 1997-98 کے اعدادوشمار کے مطابق 2014-15 میں پاکستان میں دس سال اور اس سے زائد عمر کے برسرروزگار افراد کا 42.27 فیصد زراعت (اس کے ذیلی شعبہ جات جنگلات اورفشنگ )سے وابستہ تھے جبکہ 1994-95 میںیہ حصہ 46.79 فیصد ہو ا کرتا تھا۔دیہی اور شہری علاقوں میں یہ شرح بالترتیب 61.94 سے کم ہوکر58.62 اور 5.80 سے کم ہوکر 5.17 فیصد ہو چکی ہے۔ملک میں سب سے زیادہ زرعی شعبے کو خداحافظ کہنے والوں کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے جہاں 1994-95 سے2014-15 تک یہ تناسب 50.50 فیصد سے کم ہوکر 34.56 فیصدپر آگیا ہے۔دوسری نمایا ں کمی بلوچستان میں دیکھنے میں آئی ہے۔



جہاںباروزگار افراد کا زراعت کے شعبے سے وابستگی کا تناسب 55.48 فیصد سے کم ہوکر 43.43 فیصد تک آچکا ہے۔جبکہ 1994-95 میں بلوچستان میں زراعت سے روزگار حاصل کرنے والوں کا تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ تھا۔ تیسری کمی سندھ میں ہوئی جہاں مذکورہ عرصہ کے دوران زراعت کے روزگار سے وابستہ افراد کا تناسب 42.35 فیصد سے کم ہوکر 39.28 فیصد ہو گیا ہے۔ پنجاب میںروزگار کے حامل افراد کا 44.70 فیصد 2014-15 میں زراعت سے وابستہ تھا جو 1994-95 میں 47.21 فیصد ہوا کرتا تھا۔

ترکِ پیشہ کی سب سے بنیادی وجہ ماہرین کے مطابق کلائیمٹ چینج ہے جس کی وجہ سے ملک کے اکثر حصوں میں پانی کے وسائل میں کمی واقع ہورہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موسموں کی تبدیلی کے اوقات کار بھی بدل رہے ہیں اور موسموں کی شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے جس کے منفی اثرات زرعی پیداوار پر مرتب ہورہے ہیں۔ اس کے علاوہ زراعت کے شعبے میں اخراجات اور آمدن کے درمیان فرق بھی روز بروز بڑھتا جارہاہے۔

ماہرین کے مطابق یہ اور ان جیسے کئی ایک دیگر عوامل لوگوں کو زراعت کا پیشہ ترک کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ان تمام حقائق کی موجودگی میں اگر زراعت کے شعبے پر فوری توجہ نہ دی گئی اور لوگ یونہی اسے ترک کرتے رہے تو اس سے ملک میںعموماً اور دیہات میں خصوصاً غربت کے خاتمے کی کوششوں کو شدید دھچکا لگے گا۔کیونکہ دیہی علاقوں میں جہاںلوگوں کی اکثریت کا دارومدار زراعت پر ہے ۔ روزگار کے دیگر ذرائع محدودتر ہیں اور غربت پہلے ہی اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے۔ اگرلوگ زراعت کو ترک کر کے کسی نئے روزگار کے حصول کی کوشش کرتے ہیں تووسائل کی کمی اور مقامی سطح پرروزگار کے دیگرمواقعوں کی عدم موجودگی کے باعث انھیں شہروں کا رخ کرنا پڑے گا ۔



جس سے شہری آبادی میں اضافہ اور وسائل پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ اور ایسا ہی کچھ پاکستان کے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔کیونکہ 1998 میں ملک کی 32.52 فیصد آبادی شہری علاقوں میں سکونت پذیر تھی اب یہ تناسب 2017 تک بڑھ کے 36.37 فیصد ہو چکا ہے۔ اور ان 19 سال کے دوران ملک کی شہری آبادی میںدیہات کی نسبت زیادہ اضافہ ہوا ہے جو 66 فیصد ہے اور اس کے مقابلے میں دیہی آبادی میں 52 فیصد مجموعی اضافہ ریکارڈکیا گیا۔

دیہی آبادی کی اکثریت کم تعلیم یافتہ اور زراعت کے علاوہ دیگر شعبوں میں ہنر مندنہ ہونے کی وجہ سے شہروں میں ایسے پیشے اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے جس سے وہ صرف اتنی ہی آمدن کما پاتے ہیں جو اُن کی روح اور جسم کے رشتے کو قائم رکھ سکے۔ ایسے میں جب توانائی کے بحران اور اس کی بڑھتی قیمتوںنے ملکی معیشت پر شدیددباؤ ڈال رکھا ہے۔ روزگار کے نئے ذرائع کی دستیابی تو درکنا رموجودہ ذرائع کو برقرار رکھنا ہی ایک بڑا چیلنج بنا ہوا ہے۔ تو اِن ترک پیشہ افراد کو کہاں اور کیسے کھپایا جائے؟

یہ ایک اہم سوال ہے یہ تمام صورتحال ہمارے منصوبہ سازوں کی توجہ کی طالب تو ہے ہی لیکن ایک اورامر بھی قابل غور ہے کہ ہماری جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ بدریج کم ہوکر 1995-96 میں 24.8 فیصدسے 2015-16 میں 19.9 فیصد پر آگیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اورپہلوجوفوری توجہ کا متقاضی ہے کہ ہمیں بڑھتی ہوئی ملکی آبادی کے لئے اپنی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنا ہے۔اس حوالے سے اگر ہم صورتحال کا جائزہ لیں تو جو حقائق سامنے آتے ہیں اُن کے مطابق ہماری ملکی آبادی میں1998 سے2017 کے دوران مجموعی طور پر57 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس زرعی پیداوار ( گندم، چاول، باجرہ، جوار، مکئی، جو، چنا، گنا، کینولا اور سروسوں ، تل ، کپاس اور تمباکو)میں مجموعی طور پر 52 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

اکنامک سروے آف پاکستان 2016-17 اور2006-07 کے اعداوشمار کے تجزیہ کے مطابق 1998 کی مردم شماری سے قبل کے پانچ سالہ عرصہ(1992-97 ) کے دوران ملک میں اہم فصلوں (جن کا اوپر ذکر کیا گیا ہے) کی اوسط سالانہ مجموعی پیداوار 6 کروڑ 78 لاکھ79 ہزار 5 سو80 ٹن رہی جو کہ2017 کی مردم شماری سے پہلے 2011-16 کے دوران اوسطً 10 کروڑ 30 لاکھ 65 ہزار7 سو 40 ٹن سالانہ حاصل ہوئی۔ ان 20 سال کے دوران ملک میں گندم کی پیداوارمیں51.81 فیصد چاول میں 71.52 فیصد ، مکئی میں 253 فیصد ، گنے میں46.58 فیصد اور کپاس کی پیداور میں 38.17 فیصد اضافہ ہوا۔ جبکہ پھلوں (ترشاوا، آم ،سیب، کیلا، خوبانی، بادام، انگور اور امرود) کی پیداوار میں 34.54 فیصد مجموعی اضافہ ہوا۔

آبادی میں اضافہ اور زرعی پیداوار کی صورتحال کو ایک اور پیمانے سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ 1992-97 کے پانچ سال کے دوران حاصل ہونے والی اہم فصلوں کی سالانہ اوسط پیداوار اور 1998 کی مردم شماری کے نتائج جو منظر کشی کر رہے ہیں۔ وہ کچھ یوں ہے کہ 1998 میں ملک میںفی کس 512.87 کلوگرام زرعی اجناس ( گندم، چاول، باجرہ، جوار، مکئی، جو، چنا، گنا، کینولا اور سروسوں ، تل ، کپاس اور تمباکو) کی پیداوار دستیاب تھی۔ جو 2011-16 کی اوسط سالانہ پیداوار اور 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں.04 496 کلو گرام فی کس دستیابی بن رہی ہے۔یعنی ملک میں فی کس زرعی اجناس کی دستیابی میں دونوں مر دم شماریوں کے دوران 3.39 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔گندم ملک کی سب سے اہم فصل اور ہمارے غذائی نظام میں مرکزی حیثیت کی حامل ہے۔



اس کی فی کس دستیابی مذکورہ عرصہ کے دوران 123.81 کلو گرام سے کم ہوکر 119.73 کلوگرام ہوچکی ہے۔جبکہ گنے کی دستیابی 327.73 کلو گرام فی کس سے306.02 کلو گرام فی کس پر آچکی ہے۔ یعنی ملک میں گندم اور گنے کی فی کس دستیابی میں بالترتیب چار اور 21.71 کلوگرام کمی واقع ہوئی ہے۔اسی طرح کپاس کی دستیابی 11.76 کلوگرام سے کم ہوکر 10.35 کلو گرام فی کس ہوچکی ہے۔ اس کے بر عکس چاول اور مکئی کی دستیابی میں اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ بالترتیب 28.45 کلو گرام سے 31.09 اور 10.14 سے بڑھ کر 22.82 کلو گرام فی کس ہو چکی ہے۔

آبادی میں اضافہ اور زرعی اجناس کی پیداوار میں بظاہر یہ عدم توازن معمولی نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ آنے والے خطرے سے ہمیں آگاہ کر رہا ہے۔ کہ ہمیں بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بروقت اقدامات کرنا ہوں گے۔ جن میںاجناس کی فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ سر فہرست ہے۔ اگرچہ ہماری1992-97 کی اوسط فی ہیکٹر سالانہ پیداوار کے مقابلہ میں 2011-16 کی اوسط فی ہیکٹر سالانہ پیداوار کہیں زیادہ ہے ۔ اور اس عرصہ کے دوران ملک میں گندم، چاول، گنا، مکئی، چنا اور کپاس کی فی ہیکٹر پیداوار میں مجموعی طور پر 30 فیصد اضافہ حاصل کیا جا چکا ہے لیکن پھر بھی ہم دنیا کے کافی ممالک بلخصوص جنوب ایشیاء کے کئی ممالک سے مختلف زرعی اجناس کی فی ہیکٹر پیداوار میں پیچھے ہیں۔مثلاً ایف اے او کے اعدادوشمار کے مطابق 2014 میں ہم گندم کی فی ہیکٹر پیداوار میں دنیا بھر میں 62 ویں نمبر پر تھے۔

اور ہماری پیداوار بھارت اور بنگلہ دیش سے بھی کم تھی۔ مذکورہ سال پاکستان کی گندم کی پیداوار 28241 ہیکٹرو گرام فی ہیکٹر(hg/ha)تھی ( 10 ہیکٹرو گرام ایک کلو گرام کے مساوی ہیں)۔جبکہ بھارت کی 31457 اور بنگلہ دیش کی 30319 ہیکٹرو گرام فی ہیکٹر تھی۔ دھان کی فصل کی فی ہیکٹر پیداوار میں ہم دنیا بھر میں 87 ویں نمبر پر تھے۔لیکن جنوب ایشیاء کے چھ ممالک بنگلہ دیش، سری لنکا، بھوٹان، بھارت، نیپال اور افغانستان سے بھی پیچھے تھے۔جوار کی فی ہیکٹر پیداوار کے حوالے سے ہمارا دنیا میں 96 واں نمبر تھا۔ اور ہم سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش اور انڈیا سے پیچھے تھے۔ مکئی کی فی ہیکٹر پیداوار میں ہماری صورتحال خطے کی سطح پر تو بہتر تھی لیکن دنیا بھر میں ہم اس حوالے سے 70 ویں نمبر پر تھے۔

اور جنوب ایشیا میں صرف بنگلہ دیش کی پیداوار ہم سے بہتر تھی۔ جُو کی فی ہیکٹر پیداوارکی مناسبت سے ہم 2014 میں دنیا بھر میں 93 ویں نمبر پر تھے۔اور انڈیا، افغانستان، نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش ہم سے بہتر پیداوار حاصل کر رہے تھے۔گنے کی فی ہیکٹر پیداوار کی مناسبت سے پاکستان خطے میں بھارت سے پیچھے تھا اور عالمی درجہ بندی میں 54 ویں نمبر پر تھا۔تل کی فی ہیکٹر پیداوار میں ہم 62 ویں نمبر پر تھے جبکہ خطے کے ممالک سری لنکا، بنگلہ دیش، افغانستان اور انڈیا ہم سے بہتر صورتحال کے حامل تھے۔لیکن اس کے باوجود ہمارے کسان نے 2014 میں دنیا کی آٹھویں سب سے بڑی گندم کی فصل دی۔ پانچویں سب سے زیادہ گنے کی پیداواردی۔ دھان کی 13ویں نمایاں فصل دی۔ مکئی کی 25 ویں ، جُو کی 66 ویں، جوار کی 43 ویں اور تل کی 20 ویں سب سے زیادہ پیداوار دی۔



ملک میں فی ہیکٹر زرعی پیداوار میں اضافہ کے حوالے سے سابقہ ڈائریکٹر جنرل زراعت پنجاب اور موجودہ ممبر پلانٹ ڈویژن پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل اسلام آباد ڈاکٹرمحمد انجم علی کا کہنا ہے کہــ'' زراعت ٹائم منجمنٹ اور ریسورس منجمنٹ کا نام ہے۔ وقت پر فصل کاشت کی جائے اور وقت پر ہی مطلوبہ زرعی مداخل(Agriculture Inputs) فصل کو مہیا کئے جائیں تو فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ اس کیلئے ہمیں زرعی مداخل کی افادیت کومزیدبڑھانے اور ان کے استعمال کے حوالے سے کسان کو مزیدمراعات دینے اور جدیدتربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔یعنی صرف منظور شدہ بیج استعمال کئے جائیں۔

کھاد فصل کی ضرورت کے مطابق اس طرح دی جائے کے وہ ضائع نہ ہو اور زیادہ سے زیادہ موثر رہے۔ زرعی ادویات کے پائیدار استعمال کو یقینی بناتے ہوئے اُس کی اثر پزیری کی صلاحیت کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔تاکہ لاگت کم اور فوائد زیادہ حاصل کئے جاسکیں۔فی ہیکٹر پیداوار میں اضافے کو درپیش چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں آپریشنل فارم سائز چھوٹا ہو رہا ہے ۔جس کی وجہ سے زمین کی تیاری میں مشینری کے استعمال کا رجحان کم ہے۔ اس کے علاوہ موسمیاتی تبدیلی اورپانی کی کمی کا مسئلہ بھی درپیش ہے۔ لہذا زرعی سائنسی تحقیق کو معروضی حالات کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔''

اگر ہم ان عوامل پر قابو پا کر اپنی فی ہیکٹر پیداوار کو مزید بہتر کرلیں اور اپنے کاشتہ رقبہ22.01 ملین ہیکٹر ( جو سال میں کم ازکم ایک بار یا گزشتہ سال کے دوران کم ازکم ایک بار کاشت ہوا ہو) میں اضافہ کرلیں(جس میں ہم 1995-96 اور 2015-16 کے اعدادوشمار کے مطابق صرف 1.52 فیصد اضافہ کر سکے ہیں اور آج بھی ملک میں 8.25 ملین ہیکٹر ایسا رقبہ موجود ہے جو کاشت کے لئے تو موزوں ہے لیکن جسے مذکورہ سال یا اُس سے پچھلے سال میں کاشت نہیں کیا گیا)تو یقینا ہم ایک زرعی طاقت بن سکتے ہیں۔لیکن کاشتہ رقبہ میں اضافہ صرف اُس صورت ہی ممکن ہے کہ ہم اپنے پانی کے وسائل کو ترقی دیں اُس کی ذخیرہ گاہوں کی تعمیراور ترسیل کے نظام کو سیاست کی نظر کرنے کی بجائے متفقہ حل نکالنے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔



کیونکہ بہت سے ممالک کے بر عکس اللہ پاک نے پاکستان کووسیع و عریض ذرخیز زمین اور فصلوں کے دو موسموںسے نوازہ ہے ۔خریف اپریل سے جون تک شروع ہونے والی بوائی کا موسم ہے۔ جس کی فصل اکتوبر تا دسمبر حاصل ہوتی ہے۔چاول، گنا، کپاس، مکئی، مونگ، ماش، باجرہ اور جوار خریف کی اہم فصلیں ہیں۔ ربی دوسری بوائی کا موسم ہے جو اکتوبر سے دسمبر کاشت پر مبنی ہے۔ جس کی فصل اپریل اور مئی میں حاصل ہوتی ہے۔ گندم، چنا، مسور، تمباکو، جُو، کینولا اور سرسوں اس کی اہم فصلیں ہیں۔ان سب فصلوں کی ہر سال ریکارڈ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ بشرطیہ اگر ہم صدقِ دل سے زراعت اور کسان کے مسائل کو بروقت حل کر یں اور زمینی حقائق کی روشنی میں کسان کی مشاورت سے پالیسیاں واضع کریں تو یقینا ہم ایک زرعی قوت بن سکتے ہیں اور مستقبل میں تمام تر اہمیت بھی زرعی خودکفالت کے حامل ممالک کی ہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں