دہشت گردی اور جناح کی تقریر
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مدارس سے رجعت پسندی ختم کرنے کے لیے شروع میں کچھ اقدامات کیے۔
کوئٹہ کے چرچ میں کرسمس کی تقریبات کے سلسلہ میں دعائیہ تقریب جاری تھی کہ دہشتگرد چرچ میں داخل ہوگئے۔ اس دہشتگردی کے واقعے میں 8 افراد جاں بحق ہوئے۔ انتظامیہ نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں کی بروقت کارروائی سے کوئٹہ ایک بڑی دہشتگردی سے بچ گیا۔ خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ حملہ آور افغانستان کی سرحد پار کرکے آئے تھے اور ایک خفیہ ایجنسی نے کرسمس کے موقع پر دہشتگردی کے حملے کا خدشہ ظاہر کیا تھا، مگر کسی نے توجہ نہ دی۔
کوئٹہ گزشتہ 16 برسوں سے سیکیورٹی کے حصار میں ہے۔ یہ شہر دو بڑی سڑکوں اور 20 کے قریب گلیوں پر مشتمل ہے۔ کوئٹہ میں جگہ جگہ سیکیورٹی پوسٹ قائم ہیں۔ اس کے باوجود اقلیتی فرقوں، پولیس کے افسروں اور اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جو دہشتگرد مرنے کے لیے آتے ہیں وہ تو مارے جاتے ہیں البتہ باقی دہشتگرد اطمینان سے اپنی کمین گاہوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں۔ کوئٹہ سے چمن کا فاصلہ 300 میل ہے، وہاں سے افغانستان کی سرحد شروع ہوتی ہے۔ چمن سے کوئٹہ آنے والی شاہراہ پر بھی بہت سی چیک پوسٹیں ہیں، مگر دہشتگرد اتنے تربیت یافتہ ہیں کہ وہ اپنا ہدف مکمل کر لیتے ہیں۔
طالبان کے عروج کے ساتھ مسلمانوں کے اقلیتی فرقوں اور غیر مسلم شہریوں کی زندگی اجیرن کرنے کا ایک سلسلہ شروع ہوا تھا، جو اب تک جاری ہے۔ نائن الیون کی دہشتگردی کے بعد سب سے پہلے مری میں چرچ پر حملہ ہوا تھا، پھر مسلمانوں کی مساجد نشانہ بنیں۔ لاہور میں قادیانیوں کی عبادت گاہ پر حملہ ہوا۔ اس کے ساتھ ہی پاراچنار اور کوئٹہ میں دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی۔ کوئٹہ میں اگرچہ ہزارہ برادری کے اپنے حفاظتی اقدامات کے نتیجے میں ان کی بستیوں پر خودکش حملوں میںکمی آئی مگر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر کوئٹہ میں حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے ایک پولیس افسر نے ملک کے سب سے بڑے انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ جب بھی ہزارہ برادری والوں پر حملہ ہوا پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں مشکوک افراد کو گرفتار کرتی ہیں، یوں اصل دہشتگرد تو قابو میں نہیں آتے مگر بلوچوں اور ہزارہ برادری کے درمیان خلیج طویل ہو جاتی ہے۔ اس افسر نے یہ بھی بتایا کہ ایک دفعہ دو ٹارگٹ کلرز کا پولیس والوں نے تعاقب کیا تو وہ ممنوعہ علاقے میں چلے گئے۔
پولیس پارٹی کو شناخت نہ ہونے کی بنا پر ممنوعہ علاقے میں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ اسی ماہ کے شروع میں پشاور میں زرعی انسٹی ٹیوٹ پر دہشتگردوں نے حملہ کیا۔ اس حملے میں 9 کے قریب شہری جاں بحق ہوئے۔ پولیس کے انسپیکٹر جنرل، وزیراعلیٰ اور دیگر اعلیٰ ترین افسروں نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ پولیس اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی بروقت کارروائی سے صرف 9 افراد جاں بحق ہوئے اور ایک بڑی تباہی کو روک دیا گیا۔ زرعی انسٹی ٹیوٹ کے ہاسٹل میں مقیم ایک طالب علم نے ذرایع ابلاغ کو بتایا تھا کہ اس نے ایک حملہ آور سے بندوق چھین کر کمرے میں بند کر دیا تھا۔ جب سیکیورٹی کے دستے کامیاب آپریشن کے بعد عمارت میں داخل ہوئے تو اس طالب علم نے دہشتگرد کے بارے میں انھیں بتایا۔ سیکیورٹی کے دستے نے کامیابی سے کارروائی کرتے ہوئے اس دہشت گرد کو جہنم رسید کردیا تھا۔
جب پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے بچے دہشتگردی کا شکار ہوئے تو اعلیٰ ترین سطح پر یہ احساس ہوا کہ دہشتگرد معصوم بچوں کو درگزر کرنے کے لیے بھی تیار نہیں، لہٰذا ان کا ہر سطح پر قلع قمع ہی مسئلے کا حل ہے۔ یوں تیار کیے گئے اس لائحہ عمل کے تحت ادارہ جاتی اقدامات پر زور دیا گیا تھا۔ ان اقدامات میں اسلحہ پر پابندی، ریاستی اداروں سے مذہبی انتہاپسندی کی تطہیر، مدارس میں ریفارمز، جدید تعلیمی اداروں کے نصاب میں تبدیلی اور ریاست کے مجموعی بیانیہ کی تبدیلی جیسے اقدامات شامل تھے۔
مگر کچھ عرصے بعد سب کچھ بدل گیا۔ اسلحہ کی فراہمی کو روکنے کا معاملہ محدود رہا، اسلحہ پر پابندی اور ناجائز اسلحہ کے ذخائر کے خاتمے کے لیے نہ تو وفاقی حکومت، نہ صوبائی حکومتوں نے اقدامات کیے۔ یہی وجہ ہے کہ آتشی اسلحہ اور گولہ بارود اسی طرح ہر شہر میں دستیاب ہے جس طرح پہلے دستیاب تھا۔ جب سیاسی رہنما کوئی تقریب منعقد کرتے ہیں، جلسے جلوس نکالے جاتے ہیں یا بااثر افراد شادی بیاہ کا اہتمام کرتے ہیں تو پھر اسلحہ کی نمائش ہوتی ہے۔ نئے سال کے آغاز پر بڑے شہر 31 دسمبر کو رات 12:00 بجے جس طرح کلاشنکوف کی گولیوں کی آوازوں سے گونجتے ہیں اس سے ہی اسلحہ کی آسانی سے دستیابی کا اظہار ہوتا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مدارس سے رجعت پسندی ختم کرنے کے لیے شروع میں کچھ اقدامات کیے۔ مختلف مکتبہ ہائے فکر نے مدارس کے نصاب کو بہتر بنانے کی تجاویز دیں، سندھ میں مدارس کی جیوفینسنگ ہوئی اور بہت سے غیر قانونی مدارس کی نشاندہی ہوئی مگر پھر خاموشی چھا گئی۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے نصاب سے نفرت آمیز مواد نکالنے، سائنسی طرز فکر کی ترویج کے لیے تجاویز جمع کی گئیں۔
سندھ میں تو اس بارے میں کچھ کام ہوا مگر باقی صوبوں میں خاموشی رہی۔ جماعت اسلامی نے خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کی نصاب سے متعلق اصلاحات کو ختم کردیا۔ سینیٹ نے یہ قرارداد منظور کی کہ بارہویں جماعت سے مذہبی تعلیم لازمی قرار دی جائے۔ یونیسکو کی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے تعلیمی اداروں کے نصاب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نصاب میں نفر ت اور رجعت پسندی کی تبلیغ ہوتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو انتخابات میں ناکام کرنے کے لیے کالعدم مذہبی جماعتوں کی سرپرستی شروع کردی گئی۔ فیض آباد دھرنا اور معاہدہ اس بدترین صورتحال کی واضح نشاندہی ہے۔
گزشتہ 17 برسوں کے واقعات کے تجزیے سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں بعض قوتیں مذہبی انتہا پسندی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور یہ مذہبی انتہاپسندی کو برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں دہشتگردوں کو نئی زندگی ملتی ہے۔ پولیس اور مسلح افواج ان گروہوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔ ان کے جوان اور افسر ان آپریشنوں میں زندگی کی قربانی دیتے ہیں، مگر مجموعی صورتحال مذہبی انتہاپسندی کے ہتھیار کو برقرار رکھنے کے حق میں ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی معاشرہ وہیں کھڑا ہے جہاں جنرل ضیاء الحق نے پہنچایا تھا۔ جنرل باجوہ نے سینیٹ کی کمیٹی کو کہا ہے کہ حکومت پالیسیاں تیار کرے ہم عملدرآمد کریں گے۔ 25 دسمبر کو اس ملک کے بانی محمد علی جناح کی سالگرہ ہے۔ ان کی 11 اگست 1947ء کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس کے دوسرے دن کی بنیادی تقریر پر عملدرآمد کرکے ہر شہری کو تحفظ ہو سکتا ہے۔