حقیقی بنگلادیش کب بنے گا

بھارت کو اپنے اس مذموم مقصد کو پورا کرنے کے لیے کسی پاکستانی غدار کی ضرورت تھی۔


عثمان دموہی December 24, 2017
[email protected]

ہر سال 16 دسمبر کو بنگلادیش کا یوم آزادی منایا جاتا ہے مگر کیا واقعی بنگلادیش کا قیام عمل میں آچکا ہے۔ کیا گریٹر بنگال کی تحریک اپنے مقررہ اہداف حاصل کرچکی ہے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ یہ تحریک یا منصوبہ اس وقت تک ادھورا ہی رہے گا جب تک مغربی اور مشرقی بنگال باہم ایک دوسرے سے جڑ کر ایک آزاد ملک کا درجہ حاصل نہیں کرلیتے۔ اس تحریک کے اصل خالق مغربی بنگال کے قوم پرست رہنما، دانشور اور صحافی ہیں۔

اس تحریک کی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے نامور بزرگ بھارتی صحافی کلدیپ نیر اپنے ایک حالیہ کالم میں لکھتے ہیں ''جب بنگلادیش کا قیام عمل میں آگیا تو بھارت نے ڈھاکا سے قصداً دوری اختیار کرلی تھی۔ کوئی فالو اپ بھی نہیں کیا گیا تھا، غالباً بھارت کو خوف تھا کہ بنگال کے دونوں حصوں کے جذبات دوبارہ نہ بھڑک اٹھیں اور وہ پھر متحد ہونے کے بارے میں سوچنے لگیں۔ یہی وجہ تھی کہ بھارت میں بنگلادیش کا ذکر کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی تھی''۔

کلدیپ نیر ایک کٹر وطن پرست بھارتی ہیں۔ انھوں نے بھارت کی محبت میں لکھتے لکھتے اپنی پوری زندگی قربان کردی ہے۔ وہ اپنی وطن پرستی کا ایک واقعہ اپنے ایک کالم میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے وقت وہ بھارتی انفارمیشن منسٹری میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز تھے۔ روسی حکومت نے کشمیر کے مسئلے پر دونوں ممالک میں مصالحت کرانے کی غرض سے ایوب خان اور لال بہادر شاستری کو تاشقند آنے کی دعوت دی تھی۔

کلدیپ نیر لال بہادر شاستری کے ساتھ تاشقند پہنچے تھے۔ وہ لکھتے ہیں اس جنگ میں پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کے دو اہم علاقوں پر قبضہ کرلیا تھا اور تاشقند سمجھوتے کے تحت شاستری کو ان دونوں علاقوں کو پاکستان کے حوالے کرنا پڑا تھا۔ وہ شاستری کے اس اقدام سے اس قدر ناراض ہوئے کہ جب شاستری کا وہاں انتقال ہوگیا تو وہ ان کے جنازے کے قریب تک نہیں گئے تھے۔

بنگلادیش کے بننے سے کلدیپ نیر کو اتنی خوشی ہوئی تھی کہ وہ پہلے صحافی تھے جس نے سب سے پہلے ڈھاکہ کا دورہ کیا تھا اور بطور خاص شیخ مجیب الرحمن کے دست راست تاج الدین سے ملاقات کرکے اسے آزادی کی مبارکباد پیش کی تھی اور اسے اپنی طرف سے ہر طرح کی مدد دینے کی پیشکش کی تھی۔

بھارت شروع سے ہی نہ صرف پاکستان کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکاری رہا ہے بلکہ وہ اسے ختم کرنے کے مواقع تلاش کرتا رہا ہے۔ اس نے 1948 اور 1965 میں پاکستان پر بھرپور جنگیں تھوپی تھیں مگر جب وہ ان میں ناکام رہا تو پھر اس نے اپنی توجہ مشرقی پاکستان پر مرکوز کرلی تھی کہ کسی طرح اس کی پاکستانی شناخت کو ختم کردیا جائے۔ بھارت کو اپنے اس مذموم مقصد کو پورا کرنے کے لیے کسی پاکستانی غدار کی ضرورت تھی اور وہ اسے مجیب الرحمن کی صورت میں میسر آگیا تھا۔

مجیب الرحمن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جو جائز اور ناجائز ہر صورت میں اقتدار حاصل کرنے کے خواہاں ہوتے ہیں۔ بھارتی حکومت کے مجیب سے تعلقات استوار ہونے سے قبل مغربی بنگال یعنی بھارتی بنگال کے قوم پرست رہنماؤں کا ایک گروپ جس میں کئی دانشور اور صحافی شامل تھے گریٹر بنگال کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے سلسلے میں مجیب سے رابطہ قائم کرچکا تھا۔

اس منصوبے کے تحت پہلے مشرقی پاکستان کو مغربی پاکستان سے علیحدہ کرنا تھا جس کے لیے بھارت سے مدد لینا شامل تھی، مگر اس کے بعد دونوں جانب کے بنگالیوں کو مل کر بھارتی بنگال کو آزاد کراکے گریٹر بنگلادیش کا قیام عمل میں لانا تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے بنگالیوں کو مغربی پاکستان سے اپنی کچھ محرومیوں کی وجہ سے ضرور کچھ شکایات تھیں مگر مغربی بنگال کے بنگالی تو حقیقتاً نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

وہ اپنی بدحالی اور استحصال کی وجہ سے بھارت سے نجات حاصل کرنے کے لیے بے چین و بے قرار تھے، چنانچہ دونوں جانب کے بنگالیوں کا اتحاد سراسر پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کے لیے خطرے کی گھنٹی تھا۔ چونکہ اس منصوبے کے تحت پہلے مشرقی پاکستان کو توڑنا تھا اور اس کام کو انجام دینے کے لیے بھارتی حکومت کا سہارا لینا بھی ضروری تھا کیونکہ مشرقی پاکستان میں موجود پاکستانی فوجوں سے اسے ہی نمٹنا تھا۔

بھارتی حکومت کو اس خفیہ تحریک کی پہلے ہی خبر ہوچکی تھی، چنانچہ اس نے اس تحریک کو بڑی ہوشیاری سے مشرقی پاکستان کو توڑنے کے لیے تو استعمال کرلیا تھا مگر اپنے حصے کے بنگال کے قوم پرستوں پر کڑی نظر رکھنے کے علاوہ ایسے انتظامات کیے کہ اس کے بنگال کو کوئی گزند نہ پہنچ سکی اور وہ مشرقی پاکستان کے اپنے لیے خطرے کو ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے مغربی پاکستان کی جانب سے مشرقی پاکستان کے بنگالیوں پر ظلم و ستم کی کہانیاں گھڑ کر پوری دنیا کے سامنے انھیں قابل رحم بنادیا تھا۔

اس پروپیگنڈے کو مزید زہر آلود بنانے میں مغربی میڈیا نے اہم کردار ادا کیا جو پاکستان کی سرزمین پر اسلامی نظام کے نفاذ کی خبروں سے سخت خائف تھا۔ مغربی ممالک بھی مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے میں گہری دلچسپی لے رہے تھے۔ اس سلسلے میں ان کی مکمل ہمدردیاں بھارت کے ساتھ تھیں اور دراصل ان کی ہی ہمت افزائی سے بھارت نے پاکستان کو توڑنے میں کھل کر کام کیا اور بالآخر وہ کامیاب ہوگیا، تاہم اس کی کامیابی میں روسی حکومت نے بھی اہم کردار ادا کیا تھا، وہ دراصل پاکستان سے امریکا کی ایما پر اس کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں سے سخت نالاں تھا۔

روس نے پاکستان کو دولخت کرنے کے لیے بھارت کو اپنے جدید جنگی جہازوں سے لے کر ماہر پائلٹ تک فراہم کردیے تھے اور یہ حقیقت ہے اگر روس بھارت کی عملی مدد نہ کرتا تو بھارت ہرگز مشرقی پاکستان کو علیحدہ نہ کرپاتا۔ اس وقت تو روس نے پاکستان کو ضرور دولخت کردیا تھا مگر بعد میں پاکستان نے بھی روس کو افغانستان سے کھدیڑ کر اس کی سپرپاور کی حیثیت کو ہی ختم کرادیا تھا۔

اسی طرح اگر بھارت اپنی فوج کو مکتی باہنی کا روپ دھار کر مشرقی پاکستان میں داخل نہ کرتا اور اگر اس کے فوجی پاکستانی فوجیوں کی وردیوں میں ملبوس ہوکر بنگالیوں کا قتل عام کرنے کے علاوہ خواتین کی عصمت دری نہ کرتے تو بھارت کسی بھی صورت میں اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوپاتا۔

مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد مغربی بنگال کے لوگوں نے کھل کر گریٹر بنگال کی تحریک کو تیز کردیا تھا جسے دبانے کے لیے بھارتی حکومت نے اپنی پوری طاقت لگادی تھی مگر یہ تحریک اب بھی موجود ہے اور جس سے بھارتی حکومت ہر وقت خوفزدہ رہتی ہے جس کا ذکر کلدیپ نیر نے بھی اپنے کالم میں واضح طور پر کیا ہے۔

کلدیپ نیر 15 دسمبر کو روزنامہ ایکسپریس میں شایع ہونے والے اسی کالم میں مزید لکھتے ہیں ''پاکستان بنگالیوں سے کہہ رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ ہی رہتے تو زیادہ بہتر رہتے۔ بنگلادیش میں بعض لوگ پاکستان کی اس بات سے متاثر بھی ہیں، جس کی وجہ سے وہاں بھارت دشمنی کے جذبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ بھارتی حکومت کو ہی بنگلادیش کے حالات خراب کرنے کا ذمے دار قرار دیا جا رہا ہے''۔ کلدیپ نیر کی اس تحریر سے یہ اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہے کہ بنگلادیش میں اب بھی لوگ پاکستان سے محبت کرتے ہیں اور اسے اپنے مصائب کا نجات دہندہ خیال کرتے ہیں۔

کلدیپ بنگلادیش کی معاشی بدحالی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''بدقسمتی سے بنگلادیش کا خواب اقتصادی اعتبار سے اتنا کامیاب نہیں رہا جیسی کہ توقع تھی۔ وہاں پڑھے لکھے لوگوں میں بیروزگاری کی شرح چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے''۔ یہ تو بنگلادیش کی اقتصادیات کا حال ہے مگر ادھر بھارتی بنگال میں تو اس سے بھی زیادہ برے حالات ہیں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اسی لیے لوگ ملک سے بیزار ہیں چنانچہ لگتا ہے حقیقی بنگلادیش کے قیام کی تحریک کو اب بھارت زیادہ دیر تک کامیابی سے ہمکنار ہونے سے نہیں روک سکے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔