قدآور لوگ اٹھتے جارہے ہیں
ایسے ایسے لوگ اس دنیا کے افق سے اٹھ رہے ہیں کہ ان کا خلا پر نہیں ہوسکے گا۔
ہمارا معاشرہ ایک تہی دست اور مفلس معاشرہ ہے۔ یہاں رویوں کی آلودگی ہے۔ نامعتبر لفظوں اور خیالات کی جگالی کرتے ہوئے نام نہاد معلم اخلاق ہیں، جو ہر اخلاقی قدر کو پامال کرکے اخلاق کا درس دیتے ہیں۔ معاشی طور پر ناہموار اور قدری طور پر اس دوغلے نظام زیست میں پروین شاکر جیسے مہتاب صفت فنکار اپنی خوبصورت ذہانت اور خوشبوؤں سے معمور فکر و سوچ کے باعث امید، حوصلے اور زندگی کی علامت بن جاتے ہیں اور اس علامت کا مٹنا اجتماعی زیاں اور کم مائیگی کا حامل ہے۔
پروین شاکر عہد حاضر کی اردو کی ان مستقبل بیس شاعرات میں تھیں جن سے اردو شاعری کو غیر معمولی توقعات تھیں۔ اگر وہ عمر طبعی کو پہنچتی تو یقین ہے کہ وہ اردو شاعری میں ایک ایسا نیا باب رقم کرتیں، فکر کے اعتبار سے بھی، اسلوب کے اعتبار سے بھی اور قبول عام کی حیثیت سے بھی کہ اس سے کئی نئے دروازے کھلتے اور اردو شاعری کا ایک نیا تاج محل تعمیر ہوتا۔ ان کے دور میں ان کی عمر اور ان کے ہم عصر شعرا اور شاعرات میں کئی شخصیتیں ایسی رہیں جن سے آج کی اردو شاعری نے کئی نئی روشیں پائیں، لیکن پروین شاکر کا معاملہ ان سب سے مختلف تھا، ان کے پہلے شعری مجموعے کا نام ''خوشبو'' تھا، خوشبو ان کے امکانات کی ایسی کائنات ہے جو ان کے انتہائی تابناک مستقبل پر دلالت کرتی تھی، لیکن افسوس اتنی بڑی شاعرہ نے بہت چھوٹی عمر پائی۔ 24 نومبر 1952 کو ماں کی گود میں آنے والی پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو قبر کی آغوش میں چلی گئیں۔
جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں
کہیں سے آبِ بقائے دوام لے ساقی
اردو کی یہ ممتاز اور مقبول شاعرہ اسلام آباد میں ٹریفک کے ایک حادثے میں شدید زخمی ہونے کے بعد اپنے مالک حقیقی سے جا ملیں۔ پروین شاکر کا شمار پاکستان کی معدودے چند انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ شاعروں میں کیا جاتا ہے، انھوں نے انگلش ادب میں ایم اے کیا پھر انگلش لسانیات میں بھی ایم اے کیا۔ 1981 میں سی ایس ایس (مقابلے کے امتحان) میں انھوں نے ملک بھر سے دوسری پوزیشن حاصل کی، ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے وہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے لیے تیاریاں کررہی تھیں لیکن موت نے انھیں اس کی مہلت نہیں دی۔ انھوں نے پہلی ملازمت سرسید گرلز کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے کی اور آخر میں محکمہ کسٹم میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر فائز تھیں۔ ان کے شاعری کی کتابیں ''خوشبو''، ''صدِبرگ'' ، ''خود کلامی'' اور انکار کے نام سے ہر بک اسٹال یا بک شاپس پر موجود ہیں، بعد ازاں انھوں نے اپنے تمام کلام کو ''ماہ تمام'' کے نام سے کلیات کی شکل میں شایع کرایا۔
وقت نے اردو ادب کی ناقابل فراموش اور کامیاب ترین شاعرہ کو ازدواجی زندگی کے حوالے سے ایک ناکام ترین عورت ثابت کیا۔ پروین شاکر کی ذاتی زندگی کا دکھ جو ان کی ازدواجی زندگی کی ناکامی پر منتج ہوا تھا ان کی شخصیت اور شاعری میں حزن و ملال، یاسیت اور اداسی کی کیفیت کا عکس بن کر سامنے آیا۔ مرحومہ کے درجہ ذیل اشعار ان کی تلخ و تند ازدواجی زندگی کے مظہر ہی کہے جاسکتے ہیں۔
اپنے انجام تک آگئی زندگی
یہ کہانی مگر اختلافی رہی
ہے زمانہ خفا تو بجا ہے کہ میں
اس کی مرضی کے بالکل منافی رہی
پروین شاکر کی ازدواجی زندگی پر نگاہ کی جائے تو اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ رشتے کوئی سے بھی ہوں، خونی ہوں یا کاغذی، احساس کے حامل ہوتے ہیں، اگر احساس ہو تو اجنبی بھی اپنے ہوجاتے ہیں اور احساس نہ ہو تو اپنے بھی اجنبی ہوجاتے ہیں۔ یہ احساس کا ہی دوش تھا جس نے پروین شاکر کی زندگی میں زہر گھولا۔ اس لیے ہماری دانست میں فاتحہ لوگوں کے مرنے پر نہیں احساس کے مرنے پر پڑھنا چاہیے، کیونکہ لوگ مرجائیں تو صبر آجاتا ہے لیکن اگر احساس مرجائے تو پورا معاشرہ مرجاتا ہے۔ قطع نظر اس بات کے پروین شاکر کو کم عمری ہی میں بڑی بڑی کامیابیاں ملیں۔
اپنی آدرشی زندگی اور ہر دلعزیز شاعری کے حوالے سے وہ ہمارے معاشرے میں ایک معتبر مقام رکھتی تھیں، اگرچہ یہ معاشرہ کسی تنہا عورت کو احترام دینے کا عادی تو نہیں، لیکن پروین شاکر کو اس ضمن میں خوش نصیب ضرور کہا جاسکتا ہے، ان کی ذاتی زندگی کا واحد الم ان کی ازدواجی زندگی میں ناکامی تھی، لیکن انھوں نے مرد کی بے وفائی کو مرد عورت کی جنگ نہیں بنایا بلکہ اس دکھ کو مردانہ نظام زیست کے خلاف بامقصد اور بامعنی جہد مسلسل سے کمتر کرلیا تھا۔
پروین شاکر کی ''خوشبو'' شعر و ادب میں ہمیشہ کے لیے کلاسیک کے منصب پر فائز کردی گئی ہے۔ خوشبو بے شک ان کا لہجہ تھی، خوشبو ان کی ذات کا بامعنی استعارہ تھی اور خوشبو ہی ان کی سوچ کا آئینہ تھی افسوس بہت ہی قلیل مدت میں یہ خوشبو ہمارے درمیان سے رخصت ہوگئی، لیکن ان کے کلام کی تاثیر کا لمس ہم ہمیشہ محسوس کرتے رہیں گے۔ اس کے ساتھ خوشبو جیسا سخن ایک خوش کلام شاعرہ کے طور پر بھی ہمیشہ پڑھا جاتا رہے گا۔
صدِ برگ، خود کلامی اور انکار کینوس گو ہی ہے، مگر رنگ منفرد اور جدا ہیں، محبت کو بتانے یا کہنے اور سوچنے کا انداز خوشبو سے جدا ہے، اپنی شاعری میں وہ ایک ایسی عاشق دکھائی دیتی ہیں جو بھرپور زندگی گزارنے کا خواب سوچتی ہے، وہ محبوب کے تصور میں خود کو گم نہیں رکھتی بلکہ زندگی کا گہرا ادراک بھی رکھتی ہے، ان کو مرحوم لکھتے ہوئے کچھ عجیب سا لگتا ہے کیونکہ دنیاوی حوالے سے دیکھا جائے تو بھی ان کے دنیا سے جانے کے دن نہیں تھے مگر خدا کے بھید خدا ہی جانتا ہے، شاید اسی طریقے سے وہ اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔
پروین شاکر نے اپنی شاعری کے ذریعے ہر عمر کے لوگوں میں اپنے چاہنے والوں کا حلقہ بنایا۔ وہ زندگی آمیز اور انسان دوستی سے لبریز غزلیں کہتی تھیں، ان کی شاعری میں مزاحمتی رنگ نمایاں تھا۔ پروین شاکر جدید اردو شاعری کی ایک توانا اور منفرد آواز تھی۔ ندرت فکر اور خوبصورت اسلوب کے حوالے سے انھیں ہمیشہ ایک بلند مرتبہ تخلیق کار کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔ انھوں نے ادبی اعتبار سے ایک بھرپور تخلیقی زندگی بسر کی اور ایک مختصر مہلت عمر میں اپنے فکر و فن کا ایک ایسا جادو جگایا جو اردو ادب کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رہے گا۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ دنیا کا سب سے مشکل کام اندھوں کی بستی میں آئینہ بیچنا ہوتا ہے اور اس سے بھی زیادہ مشکل کام اہل علم و فن کے درمیان اپنے فن یا اپنی صلاحیت کو منوانا ہے اور یہ کام بہت آسانی سے پروین شاکر نے کیا۔ بہت کم لکھنے والی خواتین ایسی ہیں جو اپنی تخلیقات میں ایک فرد کے طور پر جیتی ہیں۔ اردو ادب میں ایسی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
پروین شاکر ایک ایسی شاعرہ تھیں جنھوں نے عورت کے یک رخے تصور کے ساتھ جینا پسند نہیں کیا بلکہ اپنی شاعری میں ایک فرد کے عذابوں اور خوابوں کی تصویر تمام رنگوں کے ساتھ اجاگر کی ہے۔ انھوں نے ان جذبوں کو لفظوں کے پیراہن دیے اور تحسین پائی جو اس گھٹن زدہ ماحول اور محتسب وفاؤں میں کسی عورت کے خیالات کے طور پر قبولیت نہیں پاسکتے تھے۔ پروین شاکر نے نسائی جذبوں کا سچ لکھا اور اسم محبت کو عورت کی زباں سے ادا کرنا آسان کردیا ہے۔ پروین کی شاعری تنہائی و جدائی، ہجر و وصال، محبوب کے تصور میں گم چاہنے اور چاہے جانے کی آرزو اور زندگی سے آنکھ ملانے والی شاعری ہے۔
26 دسمبر 1994 ملکی شعر و ادب کے حوالے سے ہمیشہ خسارے کا سال کہلائے گا لیکن کیا ہے کہ اب تو ایسے ایسے لوگ اس دنیا کے افق سے اٹھ رہے ہیں کہ ان کا خلا پر نہیں ہوسکے گا۔ شاید اس لیے بھی کہ اب بونوں کا دور آگیا ہے، اس لیے قد آور لوگ اٹھتے جارہے ہیں۔