ایک نشست پروفیسر سحر انصاری کے ساتھ
پروفیسر سحر انصاری نے ادب سے سچا عشق کیا ہے۔
پروفیسر سحر انصاری کی علم و ادب کے حوالے سے ایک علیحدہ شناخت ہے۔ ان کا درس و تدریس، شعر و سخن اور تنقید نگاری کے حوالے سے بلند مقام ہے، ان کی نشست و برخاست سے ان کے ماحول اور ان کے گھرانے کا پتا چلتا ہے۔ کچھ عرصہ ہوا جب میری ملاقات پروفیسر سحر انصاری سے وقت مقررہ پر انجمن ترقی اردو کے دفتر میں ہوئی اور گفت و شنید کے ذریعے یہ ملاقات انٹرویو کی شکل میں بدل گئی۔ انھوں نے میرے پہلے سوال کا جواب اس طرح دیا کہ پس منظر کی پرچھائیاں اور منظرنامہ سامنے آگیا۔
انھوں نے بات شروع کی کہ میرا تعلق مدینے کے قبیلے بنو خزرج سے رہا ہے، اور میں نسبتاً انصاری ہوں، تاریخ کا سارا سفر مہاجرت میں گزرا، خاندان کے بزرگ مدینے سے پہلے بغداد چلے گئے تھے، یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب جعفر برمکی پر عتاب نازل ہوا تھا تو یہ بزرگ خبخدر آگئے۔ کچھ مدت کے بعد خبخدر کو خیر باد کہہ کر شاہجہان کے عہد میں ہندوستان وارد ہوئے اور اس کے ساتھ ہی خاندان کے بزرگوں کو قاضی کا منصب دیا گیا اور اس طرح میرٹھ ننھیال بن گیا۔
انھوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ مولانا اسماعیل میرٹھی میرے ننھیالی بزرگ ہیں اور مزید حالات کلیاتِ اسماعیل میرٹھی کے دیباچے میں درج ہیں، ان اوراق پر تفصیل بیان کی گئی ہے۔ میرے والد کا تعلق مراد آباد سے تھا۔ والدین کی دو اولاد میرٹھ میں پیدا ہوئیں، اس کے بعد والد صاحب اور میرے نانا ملازمت کے سلسلے میں دکن آگئے۔ والد کا تعلق محکمہ خزانہ سے تھا، اس لیے مختلف اضلاع میں ان کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ جب کہ میری ننھیال حیدرآباد میں رہائش پذیر تھی۔ والد صاحب نے اپنا مستقر اورنگ آباد کو بنایا اور ادھر ہی میری پیدائش 27 دسمبر 1941کو ہوئی۔
انھوں نے مزید معلومات بہم پہنچائیں کہ ساتویں جماعت تک تعلیم اورنگ آباد میں ہی حاصل کی، اس کے بعد 11 ستمبر 1948 کو قائداعظم وفات پاگئے، قائداعظمؒ کی رحلت کے بعد سقوط حیدرآباد کا المیہ پیش آیا اور پھر حالات نے مزید ٹھہرنے کی اجازت نہیں دی اور 1950 میں بمبئی کا رخ کیا اور چند ماہ گزارنے کے بعد کراچی آگئے اور پھر یہاں کے ہی ہو رہے۔
ابتدائی دنوں میں جیکب لائن، پی آئی بی کالونی اور پھر ناظم آباد میں سکونت اختیار کی اور ایک بار پھر تعلیمی سلسلہ شروع ہوگیا۔ پروفیسر سحر انصاری نے انگریزی، اردو اور لسانیات میں ایم اے کی اسناد حاصل کیں۔ چونکہ سائنس کے طالب علم تھے، بی ایس سی کی ڈگری حاصل ہونے کے بعد ذہنی رجحان ادب کی طرف زیادہ ہوگیا، اس لیے ادبی اور لسانی پس منظر کو بہتر بنانے پر زیادہ توجہ دی۔
پروفیسر سحر انصاری نے ادب سے سچا عشق کیا ہے، انھوں نے ادب کی راہِ خارزار کو اپنے تخلیقی جوہر، مطالعہ کے شوق اور مشقت و ریاضت کے ذریعے دور کیا ہے ، اور منزل تک پہنچنے کے لیے بہت سی کٹھنائیوں سے گزرے ہیں۔ خونِ جگر سے تخلیقی باغباں سینچا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ تحریریں بولتی ہیں اور اپنی دل سوزی و فعالیت کو منوالیتی ہیں۔ سحر انصاری نے اپنے آپ کو منوالیا ہے، ان کا ایک شعر جو زبان زد عام ہے اور وہ ان کی علمی کاوشوں، تحقیق و جستجو کی عکاسی بے حد موثر اور دلکش انداز میں کرتا ہے اور یہ شعر ان کی شناخت بن چکا ہے:
فصیل شہر میں پیدا کیا ہے در میں نے
کسی بھی باب رعایت سے میں نہیں آیا
میرا سوال تھا کہ علم و ادب کے حوالے سے آج کے دور کی ایک اہم ادبی شخصیت کی حیثیت سے آپ سامنے آئے ہیں اور آپ کے تحقیقی و تنقیدی کاموں اور شاعرانہ وصف اور کمالات سے ادب کی تاریخ جگ مگ کرنے لگی ہے تو یہ کامیابی اور شہرت کس طرح آپ کے حصے میں آئی۔ یقیناً بام عروج کے پیچھے ایک کہانی، ایک ماحول ہے جس نے آپ کو یہ مقام عطا کیا ہے۔ انھوں نے اپنے مخصوص انداز میں جواب دیا کہ گھر کا ماحول ادبی تھا، والد، والدہ اور بڑے بھائی کو کتابیں اور رسالے پڑھنے کا شوق تھا، بڑے بھائی کا ایک ذاتی کتب خانہ گھر کے ایک حصے میں تھا۔
رات کے کھانے کے بعد یا تو بیت بازی ہوتی یا ایک میز پر بیٹھ کر بڑے اور بچے کوئی کتاب بلند آواز سے باری باری پڑھتے تھے، اس سے بچوں کا مطالعہ بھی آگے بڑھتا اور تلفظ اور معانی کا وہیں سبق مل جاتا، ان ہی حالات میں شاعری کی طرف میرا رجحان ہوا لیکن شاعری عشق و عاشقی سے شروع نہیں ہوئی، بلکہ سقوط حیدرآباد اور اس کے پرآشوب دور نے دل پر جو اثر کیا اس سے کچھ اشعار نظم کی صورت میں موزوں ہوئے۔
حیدرآباد دکن میں زیادہ تر مخدوم محی الدین اور دیگر ترقی پسند شاعروں اور ادیبوں کا تذکرہ زیادہ رہتا تھا۔ پھر ان سیاسی حالات نے اس طرز فکر کو کچھ زیادہ ہی ذہن و دل سے قریب کردیا، باقی عنصرِ مطالعہ اور ذاتی محنت کا دخل ہے۔ بہت سے سال گزرے جب پروفیسر سحر انصاری کا شعری مجموعہ ''نمود'' شایع ہوا تھا، یہ ان کی پہلی کتاب تھی۔ پھر ایک طویل وقفہ آیا ہے جوکہ 36 سال پر محیط ہے، ''نمود'' کے بعد تین وقیع تحریروں سے مرصع کتب اور شایع ہوچکی ہیں۔
انھوں نے ان کتابوں کے بارے میں مختصراً بتایا کہ ''خدا سے بات کرتے ہیں'' اس میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جوکہ عالمی واقعات کے تناظر میں لکھی گئی ہیں، خصوصاً 9/11 ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے بعد جس طرح حالات نے رخ پلٹا وہی عکس اشعار پر نمایاں ہوگیا ہے۔ تیسری کتاب فیض احمد فیض پر ہے، عنوان ہے ''فیض کے آس پاس''۔ سحر انصاری نے بتایاکہ یہ کتاب یادداشتوں اور تبصروں پر مشتمل ہے۔ اس میں مختلف موضوعات پر لکھے ہوئے تبصرے اور جائزے ہیں جوکہ کتابی شکل میں ہیں۔ جب کہ چوتھی کتاب ''تنقید افق'' کے نام سے ہے، جس میں مضامین اور نظری بحثیں شامل ہیں۔
ہم نے گفتگو کو بڑھاتے ہوئے کہاکہ ادبی محافل میں آپ کے صدارتی اور مہمانان اعزازی و خصوصی کی حیثیت سے دیے گئے خطبے ادب کی تاریخ میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں اور کئی کتابیں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوسکتی ہیں تو کیا آپ نے ان تقریروں کو محفوظ کرنے کے لیے کوئی جدید طریقہ اپنایا ہے، اگر جواب نفی میں ہے تو ادبی لحاظ سے یہ بہت بڑا نقصان ہے۔
انھوں نے کہاکہ خطبے اور لیکچر محفوظ نہیں ہیں، سوائے چند کے، ادارۂ ''اسالیب'' کے لٹریری فورم پر دیے گئے لیکچر ''معانی کے معانی اور گنجینۂ معانی کا طلسم'' اور دو بار ''انجمن ترقی اردو'' میں کراچی یونیورسٹی کے طلبا سے خطاب کیا تھا، موضوع تھا ''شاعری کے تقاضے، مواد اور امکانات'' اور دوسری بار منہاج تحقیق پر گفتگو ہوئی، ان کے علاوہ بہت سے خطبات محفوظ نہ ہوسکے اور ان کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے۔ جب آپ کو انجمن ترقی اردو میں خازن کا عہدہ سونپا گیا تو اہل قلم حیران ہوئے، اس لیے آپ کا مرتبہ اس عہدے سے کہیں زیادہ بلند ہے، آپ دانشور ہیں، مفکر ہیں، تخلیق کار اور محقق ہیں۔ اس سوال پر سحر انصاری نے کوئی خاص جواب نہیں دیا۔
(جاری ہے)