چپ دیاں چیکاں
شاعرہ کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو اس وقت چھپ کر دسمبر 2017ء میں رونمائی کے لیے ہم تک پہنچا ہے۔
تقسیم ہند سے پہلے ستلج، بیاس، راوی، چناب اور جہلم نامی دریاؤں کے پانی سے سیراب ہونے والے علاقے کا نام صوبہ پنجاب رکھا گیا تھا پھر ان دریاؤں کو شاید کسی کی بد نظر لگ گئی کہ اس صوبے کا نام تو نہ بدلا لیکن دریاؤں نے راستہ بدل لیا اور سوکھنے بھی لگے۔ یہاں کے رہنے والے پنجابی زبان بولتے تھے اس لیے پنجابی کہلائے۔ یہ لوگ اپنی زبان اور ثقافتی و ادبی ورثے پر البتہ فخر محسوس کرتے ہیں جب کہ اسے زندہ رکھنے کے لیے PILAC نامی نتظیم جس کا پورا نام Punjab Institute of Language. Art & Culture ہے۔
حکومت پنجاب کی زیرسرپرستی قائم ہے اور قذافی اسٹیڈیم لاہور کمپلیکس اس کا مرکز ہے، جس کی افسر اعلیٰ اور روح رواں اردو اور پنجابی کی ادیبہ اور شاعرہ ڈاکٹر صغریٰ صدف ہیں۔ پنجابی یونین کے چیئرمین مدثر بٹ نے PILAC کے ہال میں سیدہ ساجدہ بانو کی پنجابی شاعری کی کتاب ''چپ دیاں چیکاں'' سپانسر کرنے کا اہتمام کیا تھا۔ کتاب کی تقریب رونمائی PILAC کے ہال میں 17 دسمبر 2017ء کی شام منعقد ہوئی۔ مجھے تقریب میں شمولیت اور کتاب پر اظہار خیال کی دعوت دینے شاعرہ کے صاحبزادے نعمان اور معروف شاعر و موسیقار استاد بدرالزماں خاں کی تشریف آوری کے بعد گنجائش نہ رہی تھی کہ میں یہ تحریر لکھنے تک تعمیل نہ کرتا۔
''چپ دیاں چیکاں'' جس کا انگریزی ترجمہ Cries of Silence کیا جا سکتا ہے، شاعرہ کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو اس وقت چھپ کر دسمبر 2017ء میں رونمائی کے لیے ہم تک پہنچا ہے۔ جب وہ گرینڈ مدر کا مرتبہ پا چکی ہیں اور اس کی وجہ انھوں نے خود بیان کی ہے کہ شاعری کے شدید جذبے کے باوجود جھجک، چھوٹی عمر کی شادی، امور خانہ داری اور بچوں کی پرورش کی مصروفیات پھر میاں کی خدمت و خاطر نے انھیں شعر گوئی سے دور رکھا۔
ڈاکٹر اجمل نیازی خلاف معمول پگڑی کے بجائے سندھی شیشوں سے چمکتی ٹوپی پہنے خود ہی کرسی صدارت پر براجمان ہو گئے تو باقی مقررین سید نور، ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ، ڈاکٹر سعادت علی شاہ، امجد ثاقب آف جرمنی، ظہیر بدر، افتخار مجاز اور ایم احسان کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی۔ استاد بدرالزماں خاں نے زندہ موسیقی کا انتظام کر رکھا تھا۔ انھوں نے محفل کو گرمانے کے لیے خود ہارمونیم سنبھال کر شاعرہ کا ایک گیت سامعین کی نذر کیا۔ یوں تو پنجابی زبان کے معروف شعراء کا کلام کافی مقبول ہے اور خاص طور پر صوفیاء کی شاعری لوگ حمد و نعت اور قوالیوں میں پسند کرتے ہیں لیکن اس کا ذکر بعد میں، پہلے شاعرہ کے کلام میں سے کچھ شعر:
مالک خالق، رازق سائیں کل خلقاں دا والی
بوٹے بوٹے پانی دیوے آپ کرے رکھوالی
اوس دے در توں کوئی سوالی کدے نہ جاوے خالی
بوٹے بوٹے پانی دیوے آپ کرے رکھوالی
رہیاں ساری عمر اڈیکاں
میرے اندر چپ دیاں چیکاں
پنجابی زبان میں شاعری کرنے والوں میں بڑے بڑے نام ہیں ان میں سے چند ہی کا ذکر ایک کالم میں ہو سکتا ہے ملاحظہ ہو:
روگاں وچوں روگ انوکھا جس دا ناں اے غریبی
مشکل ویلے چھوڑ جاندے نے رشتے دار قریبی
جیون جیون ہر کوئی آکھے موت کھڑی سر اُتے
تیرے نالوں لکھ لکھ سوہنے خاک اندر جا ستے
کرکر بدیاں بڈھا ہویا نکل گیا کب تیرا
فیر وی بدیوں باز نہ آیا واہ واہ شیر دلیرا
(میاں محمد بخش)
نہ غریب نوں دیکھ کے ہسیا کر
نہ بری نظر نال تکیا کر
لوکاں دے عیب لبھدا ایں فریدا
کدی اپنے اندر وی تکیا کر
٭٭٭
رکھی سکھی کھا تے ٹھنڈا پانی پی
دیکھ پرائی چوپڑی نہ ترسائیں جی
(خواجہ غلام فرید)
چٹی چادر لا دے کڑیے پہن فقیراں لوئی
چٹی چادر داغ لگیسی لوئی داغ نہ کوئی
بلھا بات سچی کدوں رکدی اے
اک نقطے وچ گل مکدی اے
مندر ڈھا دے مسجد ڈھا دے ڈھا دے جو کچھ ڈھیندا
اک بندے دا دل نہ ڈھائیں رب دلاں وچ رہندا
نہیں لنگدا وقت وچھوڑے دا بن یاراں گزارا کون کرے
اک دن ہووے تے لنگھ جاوے ساری عمر گزارا کون کرے
(بلھے شاہ)
PILAC جو 2004ء میں قائم ہوئی، پنجاب آرٹ کلچر اور زبان کے شعبوں میں قابل قدر کارکردگی دکھا رہی ہے۔ اس کے کمپلیکس میں ایک آڈیٹوریم، میوزیم، آرٹ گیلری، ایف ایم 95 ریڈیو، لائبریری اور کلچرل سینٹر ہے۔ ادارے نے اب تک پنجابی کے مختلف موضوعات پر 46 کتب شائع کی ہیں۔ پنجابی زبان کی کتاب، گائیکی، زبان اور تعلیم میں بہترین کارکردگی پر ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
2016-17ء کے دوران یہاں موسیقی، مشاعروں، سیمیناروں، فوٹوگرافی، میلوں، ڈراموں، لیکچروں، شاموں اور کتب کی رونمائیوں کا انعقاد ہوا ہے۔ گزشتہ دو سال میں مختلف ایونٹس کی تعداد 90 سے زیادہ رہی۔ پنجابی زبان کے بعد اب یہاں چینی زبان سکھانے کے کورسز کا اجراء بھی ہو چکا ہے۔ آخر میں حالات حاضرہ کے پیش نظر فیضؔ صاحب کی دعا:
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے