جمہوریت پسند قائد اعظم اور ہمارے غیر جمہوری رویّئے
غیر جمہوری روئیے اپنا کر’’بادشاہ‘‘ بن بیٹھے اور وحشت سے ملک کے وسائل کو بھی دل بھر کو لُوٹا۔
بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کا141 واں یومِ ولادت مناتے ہُوئے ہمیں ایک بار پھر یقین سا ہو چلا ہے کہ پاکستان کی بہتری جمہوریت کے استحکام ہی میں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ ہمارے قائد اعظم علیہ رحمہ کی ہر ادا، ہر فرمان اور ہر عمل میں جمہوریت پسندی کارفرما تھی۔ اسلام اور جمہوریت کو وہ ایک ہی سچائی سے معنون کرتے تھے۔ مثال کے طور پر 1948ء میں امریکی عوام کو اپنے نشری پیغام میں انھوں نے فرمایا:''ابھی پاکستان کی قانون ساز اسمبلی نے آئین تشکیل دینا ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ اِس کی حتمی شکل کیا ہوگی لیکن مجھے یقینِ کامل ہے کہ یہ اپنی روح میں خالص جمہوری ہوگا اور اِس کی اساس اسلام کے شاندار اصولوں پر استوار کی جائے گی۔ اسلام کے بنیادی اصول آج بھی اُسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں مساوات سے کام لینے اور ہر ایک سے یکساں انصاف کرنا سکھایا ہے۔ یہی تو جمہوریت ہے۔اور جمہوریت کا بنیادی تقاضا یہ بھی ہے کہ پاکستان کے تمام غیر مسلم، ہندو، مسیحی، سکھ، پارسی وغیرہ برابر حقوق کے مالک پاکستانی شہری ہوں گے۔''
اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ برسوں بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹوکے دَورِ حکومت میں جب پاکستان کا پہلا متفقہ آئین منظور کیاگیا تو یہ ہمارے قائد اعظم علیہ رحمہ کے جمہوری آدرشوں کے عین مطابق تھا۔اسلامی اصول وضوابط کو اس کی اساس ٹھہرایا گیا اور اس میں پاکستان کی تمام اقلیتوں کے بنیادی حقوق کو بھی تحفظ فراہم کیاگیا تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہماری اقلیتیں ہمارے رویوں سے کتنی اور کہاں تک مطمئن ہیں۔جناب قائد اعظم کا یہ بھی ارشادِ گرامی ہے کہ یہ پاکستان کے عوام ہیں جنہیں جمہوریت کی بنیاد پر یہ حق ہے کہ وہ اپنی پسند کی حکومت بنائیں اور جب چاہیں جمہوری اصولوں کی بنیاد پر منتخب حکومت کا خاتمہ کردیں۔
قائد اعظمؒ نے2اپریل 1944ء کو لاہور میں عوام سے خطاب کرتے ہُوئے ارشاد فرمایا:''آپ لوگوں کے یہ وزرا حضرات آپ کے مخدوم اور آقا نہیں ہیں۔ یہ سب آپ کے خادم اور آپ اِن کے مالک ہیں۔ حکومت تبدیل کرنے کا حق صرف عوام کے پاس ہے۔''قائد اعظم کا یہ ارشادِ گرامی ہم جب اپنے سامنے رکھتے ہیں تو پاکستان کی اُن قوتوں اور عناصر کے اقدامات پر رنج اور افسوس ہوتا ہے جنہوں نے منتخب حکومتوں کے تختے بار بار اُلٹے ۔ یوں یہ آمر حضرات دراصل حضرت قائد اعظمؒ کے ارشادات سے انحراف کرنے کے مرتکب ہُوئے۔ قائد اعظم ؒ نے پاکستان کے سرکاری ملازمین اور بیوروکریسی کو بھی مخاطب کرتے ہُوئے بار بار حکم دیا کہ آپ لوگوں کا حکومت سازی ، حکومت کاری اور سیاسی جماعتوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن اس حکم کو بھی پسِ پشت ڈال دیا گیا۔
جمہوریت پسند قائد اعظم ؒ کے تخلیق کردہ پاکستان میں جمہوریت پر جنرل ایوب خان، جنرل یحییٰ خان ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے شب خون مارا۔ ہمارے یہ چاروں غیر جمہوری حکمران درحقیقت قائد اعظم ؒ کے وضع کردہ اصولوں کی مخالف سمت روانہ ہُوئے اور پاکستان کو اُس کی اصل منزل و آدرشوں سے دُور لے گئے۔ اِن جمہوریت مخالف حکمرانوں نے پاکستان کے عوام کا یہ کہہ کر بھی مذاق اور ٹھٹھہ اڑایا کہ ''انھیں جمہوریت وارا ہی نہیں کھاتی۔''
یہ سوچ دراصل قائد اعظم کے ارشادات سے منہ پھیرنے کے مترادف بھی تھی۔ یہ بھی ظلم کیاگیا کہ ایک غیر جمہوری حکمران نے قائد اعظم ؒ کے نام پر ایک کنگز پارٹی بنا ڈالی۔ قائد اعظم کی زندگی میں بھی اُن کے نام کی جماعت بنانے کی جسارت کی جاتی تو وہ ہر گز ہر گز اِسے پسند نہ فرماتے۔ جمہوری مزاج رکھنے والے قائد اعظم کو یہ شخصی سیاست قطعی ناپسند تھی۔
''ہمارے'' حکمرانوں کے یہ غیر جمہوری ہتھکنڈے ہی تھے جنہوں نے قائد اعظم ؒ کی طرف سے قوم کو دیے گئے ماٹو Unity ,Faith and Disciplineکی ترتیب بھی بدل دینے کی جرأت کر ڈالی۔ اس لیے کہ انھیں کسی طرف سے اپنے اس جمہوریت دشمن روئیے کے احتساب کا کوئی ڈر اور خوف نہیں تھا۔ ہاںدو ایک کو چھوڑ کر ،کیا ہماری تمام سیاسی جماعتیں اور اُن کے جملہ قائدین سینے پر ہاتھ رکھ کر دیانتداری سے کہہ سکتے ہیں کہ اُن کی پارٹیوں میں وہی جمہوری روح کارفرما ہے جس کا خواب کبھی قائد اعظم نے دیکھا تھا اور اس میں تعبیر کے رنگ بھی بھر کر دکھا دیے تھے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو ہم پھر کس منہ سے قائد اعظم ؒ کا یومِ ولادت منا رہے ہیں؟ آخر کیوں اور کس لیے؟؟
قائد اعظم ؒ کا یومِ پیدائش مناتے ہُوئے آج ہمیں یہ اقرار واعتراف بھی کرنا چاہیے کہ پاکستان کو جب بھی کوئی بڑا نقصان پہنچا، پاکستان پر بدقسمتی سے غیر جمہوری حکمران مسلّط تھے۔ ممکن ہے بعض لوگوں کے نازک مزاجوں پر یہ بات گراں گزرے مگر حقیقت بہر حال یہی ہے۔ ہمارے کئی جابر حکمرانوں کے غیر جمہوری رویوں اور اقدامات نے مملکتِ خداداد کو واقعی معنوں میں ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اور اُن حکمرانوں نے بھی جو منتخب تو ہُوئے جمہوری اصولوں پر لیکن پھر غیر جمہوری روئیے اپنا کر''بادشاہ'' بن بیٹھے اور وحشت سے ملک کے وسائل کو بھی دل بھر کو لُوٹا۔ اپنی جیبیں بھی بھریں اور پاکستانی عوام کی دولت باہر لے جانے میں بھی عار نہ سمجھا گیا۔ پاکستان کے عوام اپنے اِن جمہوری حکمرانوں کے غیر جمہوری ہتھکنڈوں سے مایوس اور بددل ہیں۔کوئی متبادل راستہ بھی تو سامنے نظر نہیں آتا۔ یقین مگر یہی ہے کہ نجات کا کوئی راستہ نکلے گا تو اِسی جمہوریت کے بطن سے برآمد ہوگا۔
ماضی قریب میں ہمارے سروں پر تو ایک ایسا غیر جمہوری حکمران بھی مسلّط ہُوا تھا جس نے قائد اعظم کے نام پر جعلسازی کرتے ہُوئے یہ ڈھنڈورا بھی پیٹنا چاہا کہ بانیِ پاکستان ملک میں صدارتی نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔ مشہور کتاب UNCENSOREDکے مصنف برہان الدین حسن نے انکشاف کیا ہے کہ ''پاکستان کے اِس حکمران نے قائد اعظم کی ایک جعلی ڈائری کا حوالہ دے کر اِس بات پر زور دیا تھا کہ قائد اعظم سربراہِ ریاست کے منصب کو انتہائی موثر اور مضبوط دیکھنا چاہتے تھے ؛چنانچہ بانیِ پاکستان کی اس خواہش کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کے بجائے صدارتی نظام ہونا چاہیے۔اور جب ممتاز دولتانہ اور کے ایچ خورشید نے قائد اعظم کی کسی ایسی ڈائری کے موجود ہونے کی پُرزور تردید کی تو یہ افسانہ اپنی موت آپ مرگیا۔ ''(صفحہ161)خدا کا شکر ہے کہ پاکستانی عوام نے ایک آمر کی اِس غیر جمہوری خواہش کو مسترد کردیاتھا۔