اسرائیل نکی رندھاوا اورفلسطین
تمام مسلم ممالک تقریباًایک ہی سطح پرہیں۔
نمرتیا رندھاوا،اقوام متحدہ میں امریکا کی سفیر ہیں۔ اس نے چنددن پہلے امریکی سفارت خانہ یروشلم منتقل کرنے کے حوالے سے انھوں نے انتہائی کرخت اور سفارتی آداب سے ماور تقریرکی۔نمرتیاکے والدین امرتسرسے کینیڈا اور پھر امریکا منتقل ہوئے۔ اسے گھرمیں''نکی''کہا جاتا تھا اور آج وہ پورے امریکا میں اسی نام سے جانی جاتی ہیں۔ پنتالیس سالہ نکی کے سیاسی خیالات انتہا پسند رہے۔ اس نے سائوتھ کیرولیناکے گورنرکے طورپر اسرائیل کی بھرپو حمایت کی۔
چندسال پہلے نکی نے تقریرمیں کہا،''دنیامیں سب سے زیادہ زیادتی کاشکار اسرائیل ہے۔ہمیں ہرقیمت پر اسے مضبوط بناناچاہیے''۔ انتہاپسند خیالات کی بدولت ڈونلڈ ٹرمپ نے انھیں اقوام متحدہ میں امریکا کا سفیر بنایا۔حالانکہ ٹرمپ اورنکی شروع میں ذہنی طورپرایک دوسرے کے خلاف تھے۔اقوام متحدہ میں تقریرکے بعد انھیں امریکی کابینہ کاسب سے سے طاقتور عہدہ دینے کے متعلق سوچا جارہا ہے۔نکی کی تقریرکم ازکم چار بار سنی۔ تقریرمیں کہا گیا ''امریکا، اقوام متحدہ کوسب سے زیادہ مالی امدادفراہم کرتا ہے۔ہمیں اس کے بارے میں سوچنا پڑیگا۔
وہ ملک جوہمیں ووٹ نہیں دے رہے،ان کی مالی امداد کے متعلق بھی دوبارہ پالیسی بناناپڑیگی۔خصوصاًان ممالک کی جوہمارے پاس ہمیشہ امدادبڑھانے کی التجا لے کر آتے ہیں اوراپنے فائدے کے لیے ہماراسہارالیتے ہیں''۔نکی کی تقریر انتہائی ادنیٰ درجے کی تھی۔امریکا پوری قوت استعمال کرنے کے باوجودیروشلم میں سفارت خانہ کی منتقلی کے خلاف ریزولوشن میں بے بس نظرآیا۔ 128ملکوں نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ یہ شکست امریکا کے لیے بہت بڑی ہزیمت کاباعث بنی
۔بقول نمرتیارندھاوا،امریکا اس دن کوہمیشہ یادرکھے گا۔ پیغام واضح ہے۔ یہ ایک بلیک میلنگ اور ڈرانے کی بھرپور کوشش تھی۔ذاتی طورپر نکی کی تقریرانتہائی غیرمعمولی لیکن پست لگی۔اسرائیل کے سفیر،ڈینی کی تقریر سوفیصد وہی تھی جو ایک یہودی راہب کی ہوسکتی ہے۔اپنی الہامی کتاب سے لے کرتاریخ کے حوالوں تک، سے ثابت کرنے کی کوشش کہ یروشلم ہمیشہ سے یہودیوں کامرکز رہاہے۔ حد تویہ ہے کہ ایک قدیم سکہ بھی دکھارہاتھا،جس میں یروشلم کی مرکزی حیثیت درج تھی۔
تقریرایک بنیادپرست یہودی کی تقریر تھی۔ ڈینیZionist تحریک کاپرانا رکن ہے اوراسرائیل میں کلیدی عہدوں پرکام کرتا رہا ہے۔یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتاہے کہ اگریہودی بنیادپرست درست موقف رکھتے ہیں تو مسلمان بنیادپرستوں کی سوچ کو کیونکرغلط کہا جاسکتا ہے۔ سوال ہرسنجیدہ شخص کے لیے ہے۔ اگر مسلمان اپنے دین کی تعلیمات کے ساتھ کھڑے ہیں، تو کیونکرمعتوب قراردیے جاسکتے ہیں۔ جب کہ یہودی دینی بنیادپرستی کواپنی دنیاوی طاقت سمجھتے ہیں۔ڈینی کی تقریر انتہائی توجہ طلب تھی۔ زہرمیں ڈوبے لفظوں کی بارش تھی۔ مگریہ سکے کا ایک رخ ہے۔اس کادوسرارخ بے حدتلخ اور مشکل مگرحقیقت پرمبنی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیونکرقائم ہوا۔فلسطین کی زمینوں کے حوالے سے مضبوط شہادت موجودہے کہ اسرائیل کے قیام کے پہلے ہی یہودی کمپنیوں اور متمول یہودیوں نے پیسے دیکرزمین کے ٹکڑے خریدنے شروع کردیے۔آج جواسرائیل نقشہ پرنظرآتا ہے،اس میں شامل زیادہ تر زمین مقامی مسلمانوں سے خریدی گئی تھی۔ یہاں ایک اورانتہائی مشکل بات عرض کرنی پڑتی ہے۔ ترک حکومت جو مسلمانوں کی حکومت تھی۔اس کے خلاف برطانوی حکومت کے کہنے پر''ہائوس آف سعود'' کے سربراہ کا کیا ردِعمل تھا۔آپ حیران رہ جائینگے۔
1945تک سات صیہونی کمپنیاں فلسطین کا906مربع کلومیٹرکارقبہ خریدچکی تھیں۔کیااس چیزکوجھٹلایاجاسکتاہے کہ اس وقت کی تمام مسلم بادشاہتیں اسرائیل کے قیام میں یاتومعاون تھیں، یا پھرانھوں نے مصلحتاًخاموشی اختیار کررکھی تھی۔کیاوہ خط چھپایا جاسکتاہے جو اس وقت کے سعودی فرمانروا نے امریکا اور برطانیہ کو لکھا تھا۔خیرتاریخ کو رہنے دیجیے ۔ اگروقت ہوتو Peel Commissionکی رپورٹ ضرورپڑھیے۔ حیران رہ جائیںگے کہ اسرائیل کے قیام میں زمینوں کی فروخت کوکس قدراہمیت حاصل تھی۔یہ فریضہ مقامی مسلمان عربوں نے خوش اسلوبی سے اداکیا۔بھئی جب وارث اپنی مرضی سے پیسہ بٹور رہے تھے،ترک مسلم حکومت کے خلاف بغاوت اور سازشیں کررہے تھے۔اپنی ذاتی ریاستیں قائم کرنے کے لیے برطانیہ کے پیرپکڑرہے تھے توگلہ اورشوروغل کیسا۔
آج کے دورپرنظرڈالیے۔پچاس سے زائد مسلم ممالک میں ایک ارب سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ ہو سکتاہے کہ لوگوں کوان تمام کے نام تک معلوم نہ ہوں۔ کم ازکم مجھے نہیں ہیں۔یروشلم ہمارے لیے مقدس ہے۔ مگر پچاس ملک اس درجہ بے بس کیوں ہیں۔O.I.Cکے حالیہ اجلاس کے متعلق کچھ بھی کہنا اور لکھناعبث ہے۔ مگرکوئی ہے جونکی رندھاواکے چیلنج کا بھرپور جواب دے سکے۔ صاحب، کوئی بھی نہیں ہے۔ ویسے سوچیے کیانمرتیاکور درست نہیں کہہ رہی۔ دودن قبل اقوام متحدہ کی قراردادکی کوئی عملی حیثیت نہیں ہے۔اس قراردادکی پیشانی پرلکھا ہوا ہے کہ یہ Non-Bindingہے۔یعنی امریکا کوسفارت خانہ منتقل کرنے سے روکا نہیں جاسکتا۔
افسوس اس بات کاہے کہ کسی بھی مسلمان حکومت میں کوئی مائی کالال نہیں جومضبوطی سے بات کرسکے۔ وجہ صرف یہ کہ تمام مسلما ن ممالک میں حکمران منفی ہتھکنڈے استعمال کرکے تخت تک پہنچے ہیں۔ان میں سے ایک بھی عوامی تائیدکاحامل نہیں۔ ترکی کو دیکھیے۔اردگان بہت اچھی تقریر کرتا ہے۔ مگر سرکاری سطح پر اپنے لیے ایک جنگل کاٹ کرایک ہزار کمروں کامحل تعمیر کرایا ہے۔ترکی اپنی معاشی ترقی کے جوبلندوبانگ دعوے کرتا ہے، دنیا کاکوئی بھی آزاد اور مستندمعاشی ادارہ اسے تسیلم نہیں کرتا۔اردگان نے جس طرح''گولن تحریک''کے خلاف کارروائی کی، آزادیِ رائے کوختم کیاہے، مخالفین کو بربادکیا ہے،وہ سامنے رکھتے ہوئے آرام سے کہا جاسکتاہے کہ اردگان صرف اورصرف تقریرکا غازی ہے
۔سعودی عرب کی طرف آئیے ۔ولی عہد محمدبن سلمان نے ٹرمپ کے لیے ریاض میں آنکھیں بچھا ڈالیں۔ اربوں ڈالر کے رعایتی دفاعی معائدے کیے۔شاہی خاندان کے اقتدارکی منتقلی کے اصول کوختم کیا۔آپ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب کاولی عہد،جواصل اقتدارکامالک ہے، اسرائیل اورامریکا کے خلاف کچھ کر سکتا ہے؟ قطعاً نہیں۔ صاحب بالکل نہیں۔ ایران کودیکھ لیجیے۔اس کی معیشت کافی حد تک تیل پرمنحصرہے۔وہاں پر مولویوں کی حکومت ہے۔ کوئی بھی امیدوارجتنے مرضی ووٹ حاصل کرلے،جس مرضی سطح کی عوامی تائید حاصل کرلے،جب تک اقتداراعلیٰ پرقابض مولوی اجازت نہیں دینگے،وہ شخص صدرنہیں بن سکتا۔
چند دن قبل یمن کے مقتول سابق صدرعلی عبداللہ صالح کی پچیس سے تیس بلین ڈالرکی چوری کے متعلق لکھا تھا۔آپ واقعی یمن کواس قابل سمجھتے ہیں کہ دنیامیں ایک مثبت قیادت دے سکتاہے۔حالیہ قرارداد کو پیش کرنے میں یمن بھی آگے آگے تھا۔پاکستان کے متعلق کیا بات کی جائے۔ اس میں بھی مقتدرطبقہ بتانے کے لیے تیارہی نہیں کہ دولت کیسے آئی اوراس کے ذرایع جائزہیں یاناجائز۔
تمام مسلم ممالک تقریباًایک ہی سطح پرہیں۔فرقہ واریت،عدم تحفظ،خانہ جنگی،معاشی عدم استحکام ان کا خاصا ہیں۔یہ تمام ملک امریکا کے اثرورسوخ کے مرہونِ منت سانس لے رہے ہیں۔ان کے حکمران جان چکے ہیں کہ اپنی عوام کولوٹو بلکہ جوتے مارو اور طاقتور ترین ملک کی غلامی کرو۔امریکا کا بیت المقدس میں سفارت خانہ منتقل ہوجائیگا تو تھوڑی سی تقاریرکی جائیں گی۔ لوگوںمیںہیجان پیداکیاجائیگا۔پھرخاموشی چھا جائے گی۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیانمرتیاکور رندھاواکی تقریر بالکل غلط تھی! کیاوہ طاقتورترین سطح پرکھڑے ہوکر ہم سب کوآئینہ نہیں دکھارہی !