Merry Christmas مگر ہم شرمندہ ہیں
مسیحی اور دیگر غیر مسلم کمیونٹیاں بانی پاکستان محمد علی جناح کے تصور پاکستان کے مطابق اس ملک کے مکمل شہری ہیں۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی کرسمس آئی ہے۔ اس روز دنیا بھر میں موجود مسیحی بھائی اور بہنیں حضرت عیسی ؑ یسوع مسیح کا یوم ولادت مناتے ہیں۔ پاکستانی مسیحی بھائی بھی یہ دن پوری عقیدت و احترام اور خوشیوں کے ساتھ مناتے ہیں۔ مگر وطن عزیز میں گزشتہ کئی برسوں کی طرح اس برس بھی کرسمس خون میں لتھڑی ہوئی آئی ہے۔ کبھی پشاور،کبھی لاہور، کبھی سانگلہ ہل، کبھی گوجر خان، جب کہ اس مرتبہ کرسمس کوئٹہ میں مسیحی بھائیوں اور بہنوں کے خون کی بھینٹ لیے نمودار ہوئی ہے۔
مسیحی اور دیگر غیر مسلم کمیونٹیاں بانی پاکستان محمد علی جناح کے تصور پاکستان کے مطابق اس ملک کے مکمل شہری ہیں۔ انھیں وہی حقوق حاصل ہیں، جو مسلم اکثریت کو حاصل ہیں۔ اس حوالے سے ہمیں بانی پاکستان کی 11 اگست 1947 کو دستورساز اسمبلی میں کی گئی پالیسی تقریر کو کسی بھی طور پر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ''ریاست پاکستان میں ہندو، ہندو نہیں، مسلمان مسلمان نہیں رہے گا، عقیدے کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہری کے طور پر۔ تم اپنی مساجد، مندروں، کلیسائوں یا کوئی بھی عبادت گاہ ہو، اس میں عبادت کرنے اور اس کی تعمیر کرنے میں مکمل آزاد ہو''۔
سوال یہ ہے کہ درج بالا پالیسی بیان دینے والے محمد علی جناح کے ملک میں کیا غیر مسلم اور مختلف فقہوں، فرقوں اور مسالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان محفوظ ہیں؟ لیکن سب سے بڑھ کر یہ سوال کہ کیا اکثریتی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمان اپنے ہی ہم عقیدہ شدت پسندوں کے ہاتھوں محفوظ ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم من حیث القوم اپنے ملک کے بانی کے افکار سے دیدہ ودانستہ انحراف کے مرتکب ہورہے ہیں۔ کیونکہ وہ محمد علی جناح جنھیں ہم قائداعظم کہتے ہیں، ان کا مطمع نظر کبھی تھیوکریٹک ریاست کا قیام نہیں تھا۔ بلکہ وہ ایک ایسی وسیع البنیاد ریاست کے قیام کے متمنی تھے، جس میں تمام شہریوں کو بلاامتیاز عقیدہ، نسل ولسان اور صنف مساوی حقوق حاصل ہوں۔ ان کے تصورات کا ثبوت پاکستان کی پہلی کابینہ تھی، جس میں مختلف عقائد، نسل، لسان اور قومیت کے وزرا کی بہار نظر آتی ہے۔
دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بہت سی اقوام نے آزادی کے حصول کی خاطر کہیں مذہب، کہیں نسلی ولسانی شناخت اور کہیں قومیت کو اپنی جدوجہد کا محور بنایا۔ مگر جیسے ہی انھیں آزادی میسر ہوئی، انھوں نے اپنی پوری توجہ نعرے بازیوں سے ہٹاکر قومی ترقی، ریاستی استحکام اور عوامی فلاح پر مرکوز کرلی۔ مگر پاکستان میں ہمیں بالکل مختلف صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہاں وقت گزرنے کے ساتھ مذہبی جنونیت بلکہ مسلکی بالادستی کی رسہ کشی تیز ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ ملک جو اپنے قیام کے وقت کسی حد تک وسیع البنیاد تھا، کئی دہائیوں سے مذہبی تنگ نظری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حالات اس قدر دگرگوں ہوچکے ہیں کہ غیر مسلم اور مختلف فقہوںکے ماننے والے تو کجا ایک ہی فقہ کے ماننے والے دو مسالک ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہوتے نظر آرہے ہیں۔
پاکستان میں مذہبی شدت پسندی اور متشدد فرقہ واریت کی جڑیں دستور ساز اسمبلی کی جانب سے مارچ 1949 میں منظور کردہ قرارداد مقاصد میں پیوست نظر آتی ہیں۔ یہ بات ہر ذی شعور شہری کے لیے حیرت کا باعث ہے کہ ان مقاصد کا تعین قیام پاکستان سے پہلے کیوں نہ کرلیا گیا؟ تاکہ جن مذاہب اور مسالک کے ماننے والوں کو اس قرارداد کے مندرجات پر اعتراض ہوتا، وہ نئے ملک میں شمولیت سے گریز کرتے۔ یہ ضرورت ملک کے قیام کے ڈھائی برس بعد ہی کیوں محسوس ہوئی؟ اگر قیام پاکستان کے بعد ہی ان کی ضرورت تھی تو بانی پاکستان کے انتقال کا کیوں انتظار کیا گیا؟
دراصل قائداعظم کے نااہل جانشینوں نے اپنی سیاسی وانتظامی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے دانستہ طور پر خودکو ان کی سوچ سے دور کرنا شروع کردیا تھا۔ چونکہ ان میں عوام کو ڈیلیور کرنے کی صلاحیت نہیں تھی، اس لیے اقتدار پر قابض رہنے کا ایک ہی راستہ تھا کہ مذہب کو بطور آلہ کار استعمال کیا جائے۔ چنانچہ ''اسلام خطرے میں ہے'' جیسے گھسے پٹے اور کھوکھلے نعرے پر مبنی فرسودہ بیانیہ کو استعمال کرنا ان کی مجبوری بن گئی تھی۔ اس کے علاوہ بنگالیوں کی عددی اکثریت سے چھٹکارا پانے کے لیے بھی مذہب کو استعمال کرنا ان کی ضرورت تھی۔ حالانکہ اس نسخے نے ملک کو دولخت کردیا، مگر مقتدر اشرافیہ نے اس سانحہ سے بھی کچھ نہیں سیکھا۔
حیرت ان سیاسی رہنمائوں پر ہوتی ہے، جو قیام ملک کے ابتدائی برسوں کے دوران نوشتہ دیوار نہ پڑھ سکے۔ ان سے بہتر سیاسی بصیرت کا مظاہرہ تو معروف شاعر ساحر لدھیانوی مرحوم نے کیا تھا، جو اپنے یار غار حمید اختر مرحوم سے 1948 میں یہ کہہ کر بھارت واپس چلے گئے تھے کہ ''یار حمید مجھے یہ ملک بہت جلد مذہبی شدت پسندوں کے نرغے میں جاتا نظر آتا ہے، آئو وہیں واپس چلیں، جہاں سے آئے تھے''۔ حمید اختر مرحوم کے انکار کے بعد وہ اکیلے ہی واپس چلے گئے۔ اسی نوعیت کے خدشات کا اظہار سائیں جی ایم سید نے 1952 میں ویانا کانفرنس کے موقع پر کیا تھا۔ ہماری مقتدر اشرافیہ کی علم دشمنی کا تو یہ عالم تھا کہ اسے عالمگیر شہرت کی حامل ادیبہ قرۃ العین حیدر اور سجاد ظہیر جیسے ترقی پسند دانشور کے بھارت واپس چلے جانے پر بھی افسوس کے بجائے خوشی ہوئی۔
اس تناظر میں وطن عزیز میں جو کچھ ہورہا ہے، اس پر نظر ڈالیں، تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم پاکستانی منافقتوں کے گہرے سمندر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہم میں اتنی جرأت نہیں کہ حق اور ناحق میں تمیز کرسکیں۔ جناح کے تصور پاکستان کو حقیقت کی شکل دے سکیں۔ ہم بابری مسجد کے ڈھائے جانے پر تو ہر سال سوگ مناتے ہیں، جو ہمارا حق ہے۔ مگر وطن عزیز میں کتنے مندر اب تک ڈھائے جاچکے ہیں اور کتنوں کو رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے، اس پر کف افسوس ملنے کی بھی کسی کو فرصت نہیں ہے۔ کتنے کلیسا اور کتنی مسیحی بستیاں تاراج کی گئیں، اس کی بھی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے۔ صرف افسوس کے ایک بیان پر اکتفا کرلیا جاتا ہے۔ اسی طرح کئی برسوں سے کچھ کمیونٹیوں کو ان کی عبادت گاہوں میں جانے سے بعض طاقتور غیر ریاستی حلقے جبراً روک رہے ہیں۔ مگر اس زیادتی پر کسی منصف مزاج کی روح نہیں تڑپ رہی۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ روہنگیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بڑے بڑے جلوس نکالنے والوںکو اپنے ملک میں غیر مسلموں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر جلوس نکالنے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی کبھی توفیق نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم غیر مسلموں کو انسان ہی نہیں سمجھتے تو مساوی شہری کیا سمجھیں گے۔ غیر مسلم تو دور کی بات ہم تو مسلمانوں کے مختلف مسالک اور فرقوں کی تکفیر کرتے ہوئے انھیں شہری حقوق سے محروم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے حق وانصاف کے دعوے محض وقت گزاری کی باتیں ہیں، اصل میں تو ہم حق وانصاف کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہیں۔
پھر عرض ہے، جب تک یہ ملک جناح کے تصوارت کے مطابق ایک وسیع البنیاد وفاقی جمہوریہ نہیں بن جاتا، شدت پسندی سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ بلکہ خدشہ ہے کہ اگر مذہب کو بطور آلہ کار استعمال کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوا تو غیر مسلم تو دور کی بات، خود مسلمانوں کے چھوٹے بڑے فرقے اور مسالک گلی کوچوں میں ایک دوسرے کا قتال اور گردنیں کاٹ رہے ہوں گے۔ خدا نہ کرے کہ وہ وقت آئے، مگر حالات اسی طرف جاتے نظر آرہے ہیں۔ بہرحال آج میں انتہائی دکھی دل کے ساتھ اپنے مسیحی بھائیوں کو Merry Christmasکہہ رہا ہوں، کیونکہ سانحہ کوئٹہ کے لواحقین کا غم ابھی تازہ ہے۔ مگر ساتھ ہی شرمندہ بھی ہوں کہ آپ سمیت دیگر غیر مسلم اور زد پذیر مسلمان کمیونٹیوں کو مساوی شہری حقوق دلانے میں میرا قلم ابھی تک کوئی ٹھوس کردار ادا نہیں کرسکا ہے۔