خسارہ پالیسی غلط ہے
سیاست سے ہٹ کرمعیشت پر فوکس کرنا ہوگا، معیشت پر توجہ ہوگی تو پالیسی کی بنیاد بھی اسی پر ہوگی۔
اصل مسئلہ درآمدات نہیں بلکہ برآمدات ہیں۔ سنگاپور، جرمنی، جاپان، برطانیہ، فرانس، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، ہالینڈ، میکسیکو، اٹلی، اسپین اور دیگر بہت سے ممالک کی آبادی ہم سے بہت کم ہے، یعنی ان کی ضروریات ہم سے بہت کم ہونی چاہئیں، مگر ایسا نہیں ہے۔ 56 لاکھ کی آبادی والے سنگاپور کی درآمدات 282.9 ارب ڈالر ہیں اور 20 کروڑ کی آبادی کے ملک کی درآمدات 56 ارب ڈالر ہیں۔
یہ پاکستان کی کمزور مالی حیثیت، عوام کے خراب معیار زندگی کی بھی عکاسی ہے اور یہ یہاں کے صنعتکاروں، پالیسی سازوں کی سوچ بھی ظاہر کرتی ہے، جنھیں دنیا بھر میں پھیلے ہوئے مواقع، بیرونی دنیا کے ذوق وشوق، ضروریات اور اپنی صلاحیتوں کا ہی نہیں پتا۔ یہ بات پاؤں دیکھ کر چادر پھیلانے والی نہیں، یہ بات مواقع کو ضایع کرنے والی ہے، انگور کھٹے والی ہے۔
ایکسپورٹ کا براہ راست تعلق امپورٹ سے ہے، بنگلہ دیش کی مثال لے لیں، دنیا میں کپاس درآمد کرنے والا اور گارمنٹس ایکسپورٹ کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، بنگلہ دیش میں پھٹی نہیں اگتی، وہ باہر سے روئی درآمد کرتا اور اپنے ملک میں قدر افزا مصنوعات تیار کرکے فروخت کرتا ہے۔ ہمارے یہاں کپاس بہت اگتی ہے، مگر پھر بھی ہم گارمنٹس کی ایکسپورٹ میں بہت پیچھے ہیں، ہماری پوری ٹیکسٹائل انڈسٹری 14 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ بھی نہیں کرتی۔ پاکستانی درآمدات میں 2 سال میں نمایاں اضافہ ہوا ہے مگر یہ ہماری طلب کا نتیجہ نہیں، بلکہ چینی کاوش، یعنی چین پاکستان اقتصادی راہداری المعروف سی پیک کا نتیجہ ہے۔
دوسرا بڑا حصہ پاور مشینری کا ہے کہ حکمرانوں کو برسوں بجلی کو ترستے عوام کی حالت پر رحم آگیا اور بجلی کے نام پر سیاست کرنے والوں نے بجلی بنانے کے لیے کام کر ہی دکھایا۔ اب بجلی کے بحران سے نجات کے نام پر الیکشن لڑیں گے، جس کا جو کام ہے وہ کرتا ہے تو وہ گنا کیسے ہو سکتا ہے۔
ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ پولیس کو چور پکڑنے پر انعام کیوں دیا جاتا ہے، اگر پولیس چور نہ پکڑے تو پھر اس کا کیا کام ہے؟ یہ تنخواہ کس بات کی لیتے ہیں؟ حکمران اگر عوام کی بنیادی ضروریات نہ پوری کر سکیں تو پھر ان کا کام کیا ہے، وہ حکومت کس مقصد کے لیے کرتے ہیں؟ روٹی، کپڑا اور مکان پر کیسی سیاست، پانی بجلی گیس پر کیسی سیاست اور اگر یہی سیاست ہے تو پھر یہی ان کی ناکامی ہے۔ کس منہ سے پھر یہ سیاستدان اگلے انتخابات میں ووٹ مانگنے آجاتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی وجوہ ہیں کہ ہم کنویں سے نکل کر باہر نہیں دیکھ سکتے۔
ملک کی بڑی آبادی کو دال روٹی کی پڑی ہے، ہمارا دھیان پھر معیار زندگی پر کیسے جائے گا۔ منڈی کا تعلق زمین کی وسعت سے نہیں ہوتا، مارکیٹ عوام کی تعداد سے تعلق رکھتی ہے۔ پاکستان 20 کروڑ عوام کی مارکیٹ ہے، یہاں دال روٹی کے چکر کی وجہ سے کسی دوسرے کے لیے کوئی موقع ہے، نہ خود اپنے لیے کوئی موقع ہے، بلکہ ہم جہاں ہیں اگر نظراٹھا کر دیکھیں تو ہرطرف مواقع ہی مواقع ہیں، مگر ہمیں نظر ہی نہیں آتے۔
بھارت سے تو دشمنی ہے اس لیے وہاں کے مواقع ہمارے کام نہیں آ سکتے، مگر یہ پڑوس میں چین کی 135 کروڑ کی مارکیٹ موجود ہے، وہاں کیا مسئلہ ہے اور اتنی بڑی مارکیٹ کو جو انتہائی قریب ہے اسے چھوڑ کر ہم سات سمندر پار امریکا سامان بیچنے جاتے ہیں، کیوں؟ اگر ہم دوست ملک کی مارکیٹ تک ہی رسائی نہیں رکھتے تو حکمرانوں کی اس سے بڑی ناکامی اور کیا ہوگی۔ اس کی وجہ حکمرانوں کی ترجیحات بھی ہیں، وہ معیشت کو ترجیح دینے کے بجائے صرف حکمرانی کو ترجیح دیتے ہیں، حکومت میں آنے کے بعد بھی انھیں حکومت کی ہی پڑی رہتی ہے، وہ کسی محاذ پر کوئی کام نہیں کر پاتے، انھیں کچھ سوجھتا ہے تو صرف اتنا کہ حکومت کیسے حاصل کی جائے اور کیسے بچائی جائے۔
اس مقصد کے لیے وہ نازک حالات کے ورد سے باہر نہیں آپاتے اس لیے کہاں کی معیشت اور کیسی برآمدات۔ جنھیں اپنی کرسیوں کی پڑی ہے وہ کرسی بچائیں یا معیشت، اسی لیے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، کبھی دو روپے کی روٹی، کبھی لیپ ٹاپ، کبھی میٹرو، کبھی بجلی، تو کبھی گیس کے نام پر، پھر اعدادوشمار کا نہ سمجھ آنے والا کھیل، معاشی ترقی کی رفتار 5.3 فیصد پر پہنچ گئی، 8 فیصد ہوجائے تو سب ملازمتوں پر لگ جائیں گے اور پھر غربت بس ختم۔ یہ کردکھانا کہنے جتنا ہی آسان ہوتا تو ہم ایشین ٹائیگر بن چکے ہوتے۔
معیشت دو قسم کی ڈیمانڈز پر چلتی ہے، ایک بیرونی اور دوسری داخلی، ہماری برآمدات کا گرنا ثابت کرتا ہے کہ ہماری مصنوعات کی بیرونی ڈیمانڈ گر رہی ہے اور درآمدات کا بڑھنا ثابت کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں اشیا کی پیداوار مقامی ضروریات کے مطابق نہیں۔ ہماری درآمدات میں ایک بڑا حصہ اشیائے خوراک کا ہے، ہم ایندھن کی 90 فیصد ضروریات درآمد سے پوری کرتے ہیں۔ ہماری بہت سی برآمدی صنعتوں کا انحصار بھی درآمدی خام مال پر ہے۔
یہ ثبوت ہے کہ ہم مقامی وسائل کا ٹھیک استعمال کر رہے ہیں، نہ مقامی کھپت کے لیے وافر اشیا بنا پا رہے ہیں۔ معیشت کے دونوں محاذوں پر ناکامی کا سامنا ہے، یعنی پیداواری شعبہ ٹھیک کام نہیں کر رہا، جس کی وجہ سے درآمد پر انحصار بڑھ رہا ہے اورخسارہ بھی۔ اسی وجہ سے ''یار لوگ'' کہتے ہیں کہ پاکستان کو تجارتی ملک بنایا جا رہا ہے، حالانکہ کہنے والے خود کتنی کاوشیں کررہے ہیں یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ مگر جغرافیائی حیثیت متقاضی ہے کہ پاکستان خطے کا پیداواری مرکز ہو، جہاں چاروں طرف مواقع ہی مواقع ہیں۔ اگر ایسا نہیں تو اس کا مطلب ترجیحات کا ازسرنو تعین ہے۔
سیاست سے ہٹ کرمعیشت پر فوکس کرنا ہوگا، معیشت پر توجہ ہوگی تو پالیسی کی بنیاد بھی اسی پر ہوگی، پھر امدادی قیمتوں میں ووٹوں کے لیے اضافے جیسے پاپولر فیصلوں کے بجائے مارکیٹ بیسڈ معیشت کی طرف جانا ہوگا، کیونکہ امدادی قیمتیں مقرر کرنے یا معیشت کے کسی بھی فریق کو کسی بھی نام پر فائدہ دینے، ڈیوٹی ٹیکس میں ردوبدل کرنے کے ذریعے مخصوص سیکشن کو مواقع دینے، کرنسی کی قدر کم زیادہ کرنے یا فیورٹزم کا شکار ہونے سے مسابقت میں خلل پیدا ہوتا ہے اور اس سے پوری چین متاثر ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں حکمرانوں اور پالیسی سازوں کے لیے مفادات کے تصادم کا قانون بھی آنا چاہیے تاکہ کسی کے مفاد کے لیے کوئی معیشت سے نہ کھیل سکے اور دوسرے کی معیشت کو تباہ کرکے اپنی معیشت کو نہ سنوار سکے۔
توازن قائم کرنے کے لیے مارکیٹ پر انحصار کرنا چاہیے، کیونکہ یہ فطری طریقہ ہے، جہاں طلب اور سپلائی اصل محرک اور قوت توازن ہوتی ہیں۔ ہمیں مارکیٹ کے ان دونوں اہم عوامل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ طلب کے لیے معیار، قیمت اور قوت خرید جب کہ سپلائی سائیڈ کے لیے پیداواری لاگت، منڈیاں اور وہاں تک رسائی بہت اہم ہے، اگر مزید گہرائی میں جایا جائے تو طوالت کا خطرہ ہے۔ اس لیے قصہ مختصر کہ یہ معاملہ حکمرانوں کی ترجیحات کا ہے، جنھیں بدل کر ہم رکاوٹیں ہٹا کر معاشی ترقی کا خواب پورا کرسکتے ہیں، جہاں ہر قسم کا ''خسارہ'' ''فاضل'' میں بدل سکتا ہے۔