ناول کے بہانے اقلیتوں کے لیے دعائے خیر
رستم سہراب جب پارسی تھیٹر میں نمودار ہوئے تو وہ بھی خوش اردو والے بھی خوش کہ وہ تو دونوں کے جانے مانے ہیرو تھے۔
بیپسی سدھوا کا ناول، Crow Eaters انگریزی دانوں کے لیے تو نیا پرانا ہو چکا۔ لیکن اردو والوں کے لیے وہ نیا ناول ہے۔ اس اعتبار سے کہ اس کا اردو ترجمہ اب چھپا ہے۔ یہ ترجمہ محمد عمر میمن نے کیا ہے اور اس کا عنوان رکھا ہے ''جنگل والا صاحب'' اسے شایع کیا ہے القا پبلی کیشنز (لاہور) نے۔ ابھی پچھلے ہفتے اس کی افتتاحی تقریب ہوئی تھی۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اس کی صدارت کر رہے تھے۔
یہاں گفتگو کرنے والوں میں خالد احمد بھی تھے۔ اپنے انگریزی والے خالد احمد۔ وہ تو جیسے بھرے بیٹھے تھے۔ ہاں ابھی ابھی تو وہ واقعہ گزرا تھا کہ ہجوم نے عیسائیوں کی پوری بستی کو جلا کر راکھ کر دیا۔ وہ اسی پر شروع ہو گئے۔ اب سوچتے تو ہوں گے کہ بھلا اس ناول کا اس واقعہ سے کیا تعلق۔ تعلق ہے اور بہت گہرا۔ پاکستان میں اقلیتوں پر یہ وقت بھاری گزر رہا ہے۔ بس جیسے پاکستان کے انتہا پسندوں کا پیمانہ صبر لبریز ہو کر چھلک پڑا ہو اور قوت برداشت ختم ہو گئی ہو۔ ہر اقلیتی گروہ کا وجود آنکھوں میں کھٹکنے لگا ہو۔ آخر مسلمانوں کے درمیان وہ پہلے بھی تو رہ رہے تھے۔ اب ایسا کیا ہو گیا کہ کسی نہ کسی بہانے ان پر پل پڑتے ہیں۔
بیپسی سدھوا کے مداحوں نے کیسے وقت میں یہ تقریب رکھی تھی۔ جیسے اعلان ہو رہا ہو کہ ایک اقلیت یہ بھی ہے۔ پارسی اقلیت۔ اور اقلیت بھی کتنی روئے ارض پر بسی ہوئی ان گنت انسانی مخلوق کے بیچ بس ایک لاکھ پانچ سو سے بھی کم۔ بانو قدسیہ نے اپنے پیش لفظ میں اتنی ہی تعداد بتائی ہے۔ یعنی اقل قلیل۔ پھر بھلا پورے برصغیر میں کتنے نگ ہوں گے۔ ان میں سے پاکستان میں کتنے ہوں گے۔ وہ بھی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی تقریب میں کوئی بتا رہا تھا کہ پارسی یہاں سے ایک ایک کر کے کتنے چلے گئے ہیں۔ کتنے جانے پر تیار بیٹھے ہیں۔ بیپسی سدھوا اسی مٹتے ہوئے گروہ کی نمایندہ ہیں۔ ان کے اس ناول میں بھی اسی چھوٹی سی برادری کی رام کہانی ہے۔
خیر ابھی تک تو اس برادری کو کسی نے نہیں چھیڑا ہے۔ تو خیر خالد احمد اسی حوالے سے بات کر رہے تھے اور اپنی بات ختم کرتے کرتے انھوں نے گیند ڈاکٹر جاوید اقبال کی طرف لڑھکا دی اور ڈاکٹر صاحب نے گیند کو فوراً لپک بھی لیا۔ بتانے لگے کہ اس ناول کا مسودہ میرے پاس آیا تھا، دیباچہ لکھنے کے لیے۔ اس پر قلم اٹھانے سے پہلے میں نے زرتشتی مذہب کے بارے میں پوری چھان بین کی۔ ارے یہ مذہب تو توحید کا قائل نکلا اور پھر انھوں نے اسلام اور زرتشتی مذہب کے بیچ کتنی ہی مشابہتیں دریافت کر ڈالیں اور سب سے پہلے تو انھوں نے اس ناول کو اسی پہلو سے سراہا کہ یہاں پارسی زندگی کو ان کے طور طریقوں، ان کے رسم و رواج کو بڑی شگفتگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ایک رسم کا انھوں نے خاص طور پر ذکر کیا۔ یہ کہ جب لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور شادی کا خواہش مند ہوتا ہے تو منہ سے کچھ نہیں کہتا۔ بس پینے کے پانی میں نمک گھول دیتا ہے۔ ماں باپ پانی کو نمکین پا کر بیٹے کی نیت کو جان لیتے ہیں۔
یہ کچھ سنتے ہوئے ہم سوچ رہے تھے کہ پارسی کب سے ہمارے بیچ رہتے سہتے چلے آئے ہیں اور وہ اتنے الگ تھلگ بھی نہیں رہے۔ غیر منقسیم ہندوستان کی قومی جدوجہد کی تاریخ میں وہ اپنا حصہ ڈالتے نظر آتے ہیں۔ دادا بھائی نوروجی کانگریس کے اولین رہنمائوں میں تھے اور ہاں پارسی تھیٹر۔ اردو زبان کو تو پارسیوں کا ممنون احسان ہونا چاہیے۔ ان ہی کے واسطے سے تو وہ تھیٹر کی روایت سے آشنا ہوئی اور اس اثر میں اردو تھیٹر نے کتنی جلدی نشوونما کی اور کس شان سے پھولا پھلا کہ آغا حشر اپنی گھن گرج کے ساتھ پورے ہندوستان میں فرش سے عرش تک گونجتے رہے؎
آہ جاتی ہے فلک تک رحم لانے کے لیے
بادلو ہٹ جائو دے دو راہ جانے کے لیے
یہ الگ بات ہے کہ آگے اردو والے اس میں کوئی بڑا اضافہ نہ کر سکے۔
مگر کمال ہے پارسیوں پر کہ اپنے قدیم ایران کی جھلکیاں دکھا کر خوش ہو گئے۔ رستم سہراب جب پارسی تھیٹر میں نمودار ہوئے تو وہ بھی خوش اردو والے بھی خوش کہ وہ تو دونوں کے جانے مانے ہیرو تھے لیکن پارسیوں نے اپنے حاضر و موجود کو چھپا کر رکھا۔
ہم نے اپنے اردو ادب میں دور دور تک نظر ڈالی۔ برصغیر کے مذاہب اور تہذیبیں وہاں جابجا اپنے درشن دیتی نظر آتی ہیں۔ ہندو مذہب، ان کے گزرے زمانے، ان کی آج کی تہذیب اپنی تفصیل کے ساتھ ہمارے ادب میں موجود ہے۔ اردو افسانہ نگاروں، ناول نگاروں کی صف میں سکھ اہل قلم بھی ہیں۔ انھوں نے سکھ زندگی کو کیا خوب بیان کیا ہے۔ سب سے بڑھ کر بلونت سنگھ نے۔ پھر بدھ مت اور جین مت اور ان کے ماننے والوں کے رہن سہن رسم و رواج سے بھی یہ ادب ناآشنا نہیں۔ پھر پارسی برادری اپنی مذہبی تہذیبی زندگی اپنے سماجی رہن سہن کے ساتھ یہاں کیوں نظر نہیں آتی۔ انھوں نے اپنے آپ کو اتنا چھپا کر کیوں رکھا۔
فراق صاحب نے یہ ہندوئوں کے بارے میں کہا تھا کہ ہندو اگر محکوم بھی ہو جائیں تو ان کے کلچر کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اسے گھڑے میں بند کر کے زمین میں دبا دیتے ہیں۔ محکومی کا دور گزرنے کے بعد کھود کر گھڑا نکالتے ہیں۔ جب ڈھکن اٹھاتے ہیں تو ان کی تہذیب صحیح و سالم برآمد ہوتی ہے۔ ہندوئوں نے اس نسخہ پر عمل پوری طرح کیا یا نہیں مگر لگتا ہے کہ پارسیوں نے اس نسخہ پر سختی سے عمل کیا۔ کیا انھیں یہ اندیشہ تھا کہ ہندوستان کی رنگارنگ تہذیبیں فضا میں اپنی تہذیب اپنے طریق زیست کو باہر لا کر نمائش کی تو وہ ہندوستان کی رنگارنگ تہذیبی فضا میں رل مل جائے گی اور وہ اپنی تہذیبی شناخت کھو بیٹھیں گے۔
مگر صدیوں کی ریاضت بیکار گئی۔ اس زمانے میں ان ہی کے بیچ سے ایک لکھنے والی نکلی۔ اس نے بے دھڑک گھڑے کا ڈھکن اتار کر الگ رکھا اور اندر جو کچھ تھا اسے باہر لے آئی۔ ایک پارسی گھرانے کی کہانی اس طور بیان ہوئی ہے کہ اس معاشرے کا نیک و بد سب کچھ سامنے آ جاتا ہے۔ ان کے سماجی رویے، ان کے رواج اور رسمیں، ان کے طور طریقے، ان کے آپس کے لڑائی جھگڑے، دھوکے فریب سب سے پردہ اٹھ جاتا ہے اور پھر بیپسی کا اندازہ بیان۔ مزاج کی ہلکی ہلکی چاشنی۔ ساس داماد کی چپقلش کس مزے سے بیان کی ہے۔ یہی دو تو اس ناول کے نمایندہ کردار ہیں اور تیسرا بہت جاندار کردار ہے ایک مرغا۔ کیا زندہ و تازہ مرغا ہے۔ داماد کے لیے ساس سے بڑھ کر یہ مرغا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
یہ مختصر سا گھرانا کس خوبی سے بیان ہوا ہے کہ وہ چھوٹی سی پارسی برادری۔ دنیا کی اقلیتوں میں سب سے مختصر اقلیت، اس کی پوری تصویر جیتی جاگتی ہمارے سامنے آ جاتی ہے۔