امریکی قومی سلامتی پالیسی اور ماحولیاتی تبدیلیاں

امریکی سائنسداں ماحولیاتی تبدیلیوں کو قومی سلامتی کے لیے گزشتہ کئی سال سے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں۔


فرحین شیخ December 27, 2017

امریکا کی قومی سلامتی پالیسی کئی دہائیوں سے ہر دور حکومت میں پیش کی جانے والی وہ دستاویز ہے جس میں امریکی قومی سلامتی کو لاحق خطرات کی نشان دہی کی جاتی ہے، ساتھ ہی یہ خارجہ پالیسی کی نمایندہ بھی کہلاتی ہے۔ روایت کے تحت، گزشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی قومی سلامتی پالیسی پیش کی۔

76 صفحات پر تحریر کردہ اس پالیسی میں امریکی بقا کے لیے، معاشی طاقت اور فوجی استحکام، انتہاپسند نظریات اور اسلامی دہشتگردی سمیت تقریبِاً تمام ہی نکات شامل کیے گئے ہیں، ساتھ ہی چین، روس، پاکستان، ایران، شمالی کوریا، شام، فلسطین، اسرائیل اور کئی دیگر ممالک کے معاملے میں بھی امریکی موقف کا کھل کر اظہار کیا گیا ہے۔ امیگریشن پالیسیوں سے لے کر سابق امریکی صدور کی حکمت عملیوں تک کو ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ غرض امریکی قومی سلامتی کے لیے اپنے تئیں کوئی نکتہ فراموش نہیں کیا گیا۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ ہر چیز کو امریکی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھنے والے ٹرمپ نے ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے سنگین خطرے کی طرف سے آنکھیں بند کرلیں۔

امریکی سائنسداں ماحولیاتی تبدیلیوں کو قومی سلامتی کے لیے گزشتہ کئی سال سے سنگین خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ ماحولیاتی تغیرات کو یکسر نظرانداز کر تے وقت کیا ٹرمپ کو یقین ہوچلا تھا کہ آرکیٹک کی برف پگھلنا اب بند ہوگئی ہے یا موسمی تغیرات کے باعث آنے والی قدرتی آفات نے کسی اور سیارے کا رخ کرلیا ہے؟ یا پھر ٹرمپ خود اعتمادی کی اس انتہا پر پہنچ چکے ہیں کہ پے درپے آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنا ان کے نزدیک کوئی اتنا بڑا مسئلہ ہی نہیں۔

سابق امریکی صدر بارک اوباما کے آٹھ سالہ دور حکومت میں دو بار قومی سلامتی پالیسی پیش کی گئی۔ پہلی پالیسی میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا اٹھائیس بار تذکرہ ہوا اور ان تبدیلیوں کو قومی سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ قرار دیا گیا۔ پالیسی میں واضح کیا گیا کہ زمین کا درجۂ حرارت جس قدر بڑھتا ہے انسان اسی قدر وسائل کی کمی کا شکار ہوکر مہاجرت کا عذاب بھگتتا ہے۔ قحط اور خشک سالی سے انسان پریشان اور کھیت ویران ہوجاتے ہیں۔

اسی وجہ سے بارک اوباما نے ماحولیاتی تبدیلیوں پو قابو پانے کے لیے سائنسی رہنمائی اور اقوام عالم کے تعاون کی اہمیت پر سب سے زیادہ زور صرف کیا۔ دوسری پالیسی میں بھی اوباما کی توجہ کا مرکز موسمی تغیر ہی تھا، اور امریکا کو لاحق آٹھ بڑے خطرات میں ماحولیاتی تبدیلیوں کو ہی سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔ ٹرمپ کے مقابلے میں اوباما حکومت کو وقت کے سب سے اہم مسئلے کا ادراک اور مکمل شعور تھا۔ ماحولیاتی تبدیلیاں نہ صرف سطح سمندر میں اضافے کا باعث بنتی ہیں، بلکہ دیگر سنگین آفات کا پیش خیمہ بھی ہیں۔ ان تبدیلیوں کے ملکی معیشت، سیاست اور قومی سلامتی پر براہ راست اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اتنے اہم مسئلے کو قومی سلامتی پالیسی جیسی اہم دستاویز سے حذف کردینا عاقبت نااندیشی کے سوا اور کیا ہے۔

امریکا کی قومی سلامتی پالیسی میں ماحولیات جیسے اہم مسئلے کو فراموش کردینا انتہائی افسوس ناک عمل ہے، جب کہ پچھلے چند سال سے ماحولیاتی تغیرات کے بدترین نتائج امریکا خود بھی بھگت رہا ہے۔ 2014ء میں آٹھ بدترین آفات امریکی سرزمین کا مقدر ٹھہریں، جن میں ایک بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ 2017ء میں ارما اور ہاروے نے جو تباہی مچائی وہ دلوں کو دہلانے کے لیے کافی تھی۔ یہ امریکی تاریخ کے بدترین طوفان تھے۔

امریکا کی اقتصادی اور فوجی برتری کے زعم میں مبتلا ٹرمپ اس حقیقت کو کیوں تسلیم نہیں کر رہے کہ طوفان ایک ہی لہر میں ساری ترقی اور سرمایہ بہا لے جاتے ہیں، معاشی اصلاحات زلزلے کے ایک ہی جھٹکے میں زمین بوس ہوجاتی ہیں، برسوں کی مشقت سے حاصل کی گئی اقتصادی ترقی میں قدرتی آفات کے سامنے ٹکنے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ لہٰذا امریکا کے اندر اور باہر تمام سائنسی ماہرین پریشان ہیں کہ صدارتی مہم سے لے کر آج تک ٹرمپ اس خطرے کو کوئی بھی اہمیت دینے سے واضح گریز کیوں کر رہے ہیں؟ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کے سر پر منڈلانے والی قیامت کا اندازہ لگانے کو یہ کافی ہے کہ آرکیٹک میں برف کے تیزی سے پگھلنے کے باعث انسانی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ مسافر جہاز کو آرکیٹک کے شمال مغربی راستے سے گزرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اس پریشان کن صورت حال کو میڈیا میں Apocalypse Journey کا نام دیا گیا۔ اگر صورت حال اتنی خراب ہوچکی ہے کہ آرکیٹک میں سے جہاز گزرنے لگیں پھر بھی ماحولیاتی تغیر کا مسئلہ دنیا بھر میں وہ اہمیت حاصل نہ کرسکے جو اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے، تو غم منانے کی تیاریوں کے سوا اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے۔ حال تو یہ ہے کہ قومیں اپنی سلامتی کے لیے اسے خطرہ تک سمجھنے سے انکاری ہیں۔ یہاں تک کہ ماحولیات کا عالمی معاہدہ پیرس بھی دستاویزات کے قبرستان میں غیرمحسوس طریقے سے دفن کیا جارہا ہے۔

امریکی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑے دفاعی بجٹ کا مطالبہ کرنے والے ٹرمپ اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ سمیت خود ہی قومی سلامتی کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ وہ یہ تسلیم کرنے میں متامل ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے حالات اور لاحق خطرات معاشرے کی ان بنیادوں کو ہی ہلا دیتے ہیں جن پر انسانی بقا کا سارا دارومدار ہوتا ہے۔ امریکا کی تیرہ وفاقی ایجنسیوں نے رواں سال نومبر میں ایک رپورٹ جاری کی جس کے مطابق گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں امریکا پہلے سے زیادہ سیلاب، طوفانوں اور گرمی کی شدید لہروں کا شکار بنے گا، مگر یہ رپورٹ بھی ماحولیاتی مسائل کو امریکی قومی سلامتی پالیسی کا حصہ نہ بناسکی۔

امریکا میں کوئی جگہ اس وقت ایسی نہیں جو موسمی تغیرات سے متاثر نہ ہو۔ الاسکا تو وہ مقام ہے جہاں باقی ملک کے مقابلے میں درجہ حرارت سب سے زیادہ تیزرفتاری سے بڑھ رہا ہے۔ 2016ء میں پینٹاگان نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے بیس سے پچیس سال میں سطح سمندر ڈیڑھ فٹ مزید بڑھ جائے گی۔ یہ امر نہ صرف امریکا کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے باعث تشویش ہے۔ دنیا میں اس وقت پیدا ہونے والے بدترین غذائی بحران کا براہ راست تعلق بھی ماحولیاتی تغیرات سے ہی ہے۔ گویا یہ کہنا ہرگز بے جا نہ ہوگا کہ کسی بھی ملک میں امن، تحفظ اور ترقی کا سارا دارومدار ماحولیاتی عوامل پر ہی ہے۔ مگر ٹرمپ کو یہ بات سمجھانا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ وہ امریکا کی قومی سلامتی پالیسی سے اس مسئلے کو غائب کرکے ایسے مطمئن ہیں جیسے یہ مسئلہ دنیا سے ہی غائب ہوگیا ہو۔

امریکی پیسیفک کمانڈر کے سربراہ ایڈمرل سمیوال جی لاکلی سے 2013ء میں سوال کیا گیا کہ ایشیا پیسیفک خطے کو لاحق طویل مدتی خطرہ کون سا ہے؟ واضح رہے کہ یہ وہ ایڈمرل ہے جو چینی جارحیت کے خلاف تائیوان کی حفاظت پر مامور رہا، ساتھ ہی شمالی کوریا میں بھی امریکی فوج کا سربراہ رہ چکا ہے، اس کے باوجود خطے کو درپیش خطرات کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ سب سے بڑا خطرہ صرف اور صرف موسمیاتی تبدیلیاں ہیں۔

سال کے اختتام کے ساتھ ہی ٹرمپ کی صدارت کا ایک سال بھی تقریباً مکمل ہوجائے گا۔ امریکا کی تاریخ میں ایک سال پورا ہونے پر کسی صدر کی مقبولیت کا گراف اتنا نہیں گرا جتنا ٹرمپ کا گرا ہے۔ سی این این کی طرف سے کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق فی الوقت ٹرمپ کو صرف 35 فیصد امریکی عوام کی تائید حاصل ہے۔ اس میں کوئی تعجب بھی نہیں۔ ٹرمپ کا اپنے سابقین کی تمام روایات سے انحراف نے ''ٹرمپستان'' کو دنیا بھر تنہا کرنا شروع کردیا ہے۔ خود کو فلمی ہیرو سمجھنے والے ٹرمپ ابتدا ہی سے ولن کا کردار بخوبی نبھائے جارہے ہیں۔ ماحولیاتی تغیرات کو قومی سطح پر درخور اعتنا نہ جاننے کے جو بھیانک نتائج برآمد ہوں گے، ان سے ٹرمپ کی مقبولیت کا گراف اور نیچے تو جائے گا ہی ساتھ امریکا سمیت پوری دنیا کے لیے سانحات اور کرب ناک حادثات کا دروازہ مزید کھل جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔