ہمیں سبق سیکھنا ہوگا

ہمیں اپنی اور دوسروں کی ذمے داریوں کا تعین کرنا ہو گا، نہ یہ ملک جنگل ہے اور نہ ہم جنگلی جانور۔


فرح ناز December 27, 2017
[email protected]

نواز شریف کی نااہلی اور عمران خان کا اہل ہونا، کتنا مشکل ہے ہضم کرنا موجودہ حکومت کو، جس کے وزیر باری باری اپنی وفاداریاں اور اپنی تابع داریاں بیان کرتے رہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ یہ بے چارے اتنے مجبور و بے بس ہیں کہ ان کو روشنی نظر ہی نہیں آتی، وہ صرف گائے جا رہے ہیں، راگ الاپے جا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ان کو عہدے بھی صرف اسی لیے دیے گئے ہیں کہ عوام کو بھاڑ میں جھونک کر امن کے گیت گائے جاؤ۔ اندھیر نگری چوپٹ راج کی مثال آج کل واضح نظر آتی ہے۔

پاکستانی عوام آج 2017ء کے اختتام تک اپنی بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے ہیں اور سالہا سال سے حکومتوں میں رہنے والے غربت و افلاس سے کروڑ پتی، ارب پتی بن گئے اور بے چارے عوام 2017ء میں بھی دنیا کے کئی ملکوں سے پیچھے رہ گئے۔ بے انتہا ذہین اور قابل نوجوان طبقہ اپنے لیے سہولیات اور بہترین تعلیم نہ ہونے کے سبب بھٹکا بھٹکا سا ہے، نہ راستہ نظر آتا ہے اور نہ منزل کا نشان۔ اپنوں سے اور غیروں سے مختلف محاذوں پر ڈٹی ہوئی افواج بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں۔

ابھی حال ہی میں سینیٹ میں چیف آف آرمی اسٹاف قمر جاوید باجوہ نے سینیٹرز کے کھلے کھلے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیے اور کہیں کہیں اپنے آپ اور اپنے ادارے کے بارے میں وضاحتیں بھی دیں۔ دوسری طرف چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار نے بھی اپنے آپ کو اور اپنے ادارے کو قانون کا محافظ بتایا۔ نہ جانے کیوں یہ اعلیٰ ترین مرتبے پر فائز افراد کو جواب دہ ہونا پڑ رہا ہے، سیاستدانوں کے غلط سیاست کے انداز، حرص و لالچ، تکبر، تعلیم کی کمی، نہ جانے کیسے کیسے دن اس ملک کو دکھائے گی۔ جب تک ہمارا ووٹر کم ازکم مڈل کلاس تک پڑھا ہوا نہیں ہو گا وہ اسی طرح بھیڑ بکریوں کی مانند نااہل لوگوں کے لیے ٹھپہ لگاتا رہے گا۔

کہاں کہاں عوام پر ٹیکس کا بوجھ نہیں ہے، کہاں کہاں شہری ضروریات کے لیے پریشان نہیں، جن والدین نے پیٹ کاٹ کر اولاد کو پڑھایا، وہی اولاد ڈگریاں ہاتھ میں لیے بیروزگاری سے لڑ رہی ہے، جوان بچیاں اچھے رشتوں کا انتظار کر رہی ہیں، والدین بڑھاپے میں بھی بہتر علاج معالجے سے محروم ہیں۔ سچ کو جھوٹ میں اور جھوٹ کو سچ میں وقتی طور پر تو بدلا جا سکتا ہے مگر کبھی سچ جھوٹ نہیں ہو سکتا ہے۔ بیماری کا علاج کر کے مریض کی زندگی آسان ہو سکتی ہے مگر زندگی تو مقرر ہے، کم یا زیادہ نہیں ہو سکتی۔ بار بار جھوٹ بول بول کر اپنے وقار کو گرانے سے بہتر ہے کہ سچ قبول کر لیا جائے، مگر سیاست اتنی عجیب و غلیظ ہو گئی ہے ہمارے ملک میں یہ فریضہ ہوتے ہوئے بھی ATM مشین بن چکی ہے۔

جو پیسے کے بل پر آتا ہے وہ صرف پیسہ بنانے کے لیے ہی سوچتا ہے اور پھر بس سلسلہ چل نکلتا ہے لوٹ کھسوٹ کا۔ ترقی کے دعوے کرنے والے اپنے آفس میں بیٹھے ہوں اور چیف جسٹس عوام کے لیے اسپتالوں کے دورے کرے، پینے کا پانی چیک کرے، کتنی عجیب بات ہے ناں۔ اور اس سے بھی عجیب کہ یہ لوگ اپنی کوتاہیوں کو مانتے بھی نہیں۔ غم صرف یہ لگ جائے کہ ہم پکڑے کیوں گئے؟ تو پھر ہر قدم نامناسب ہے۔ ملک کے اندرونی مسائل اور بیرونی حالات کے بارے میں ہم سب کو فکرمند ہونا چاہیے اور جو لوگ عوام کے ووٹوں سے ہیں ان کی بہت زیادہ ذمے داری بنتی ہے اور فرض بھی کہ یہ لوگ انسانوں اور اﷲ، دونوں کو جواب دہ ہیں۔ مگر جھوٹی اناؤں کی جنگ میں سب کچھ جائز ہے، لگتا ہے ہمیں پھر پڑھنا پڑے گا سبق صداقت کا، دیانت کا۔

تعلیم کی کمی نے ہماری نسلوں کو بے انتہا تباہ کیا اور لالچ سے بھرے حکمرانوں نے زندہ انسانوں کو مردوں کی صف میں لا کر کھڑا کر دیا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہمیں کھانے سے زیادہ علم کی ضرورت ہے۔ چھوٹے سے لے کر بڑے تعلیمی اداروں کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب تک ہم سب ایک دوسرے کو کم تر سمجھیں گے، غلامانہ ذہنیت کو ہوا دیں گے، کیسے ایک صحت مند معاشرہ بناسکیں گے؟ دیہی علاقوں سے لے کر شہری علاقوں تک تعلیم کا معیار یکساں ہونا ضروری ہے۔ قابلیت اور ذہانت کسی کی جاگیر نہیں، کسی کی میراث نہیں۔ جہاں جہاں اللہ پاک نے لائق اور قابل لوگ پیدا کیے ہیں انھی کو ڈھونڈنا ہے اور اس ملک کے لیے ان ہیروں کو تراشنا ہی حکومت کی اصل ذمے داری ہے۔

چائنا کی ترقی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جتنا ہمارے لوگ اپنے ملک کو تباہ کرنے کے لیے اپنی توانائیاں لگاتے ہیں اگر یہی توانائیاں اس ملک کو بنانے کے لیے صرف کریں تو کیا بات ہو۔ ہم ترقی و کامیابی کا سفر جانے کتنی سیڑھیاں پھلانگ کر طے کرلیں۔ پاکستان کی یہی بدنصیبی رہی ہے کہ خالص اور سچی قیادت ہمیشہ ناپید رہی ہے مگر اب لگتا ہے کہ کچھ حالات مختلف ہونے جا رہے ہیں، جیسا آج کل ہو رہا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ عدالتوں نے اپنے آپ کو منوانے کے لیے جو جدوجہد شروع کردی ہے، اﷲ کرے کہ وہ کامیاب رہے۔

ہمیں سبق سیکھنا ہو گا، ہمیں اپنی اور دوسروں کی ذمے داریوں کا تعین کرنا ہو گا، نہ یہ ملک جنگل ہے اور نہ ہم جنگلی جانور، اب تو لگتا ہے کہ دیہی اور شہری ہم سب ایک ہی طرح کا گندا پانی پیتے ہیں، ایک ہی طرح کی جعلی دوائیں استعمال کرتے ہیں، بلکہ کہیں کہیں دیہی علاقوں کے لوگ ہوا شاید ہم سے زیادہ بہتر استعمال کرتے ہیں، شہروں میں پلوشن، گندگی و غلاظت ہمارا مقدر بنتی جا رہی ہے، حکومت ایک دوسرے پر ذمے داری ڈال رہی ہے اور بے چارے عوام غلیظ سیاست کی نذر ہو رہے ہیں۔

افواج اور عدالتی نظام دو بہترین اور مضبوط ادارے، اور ان اداروں کو ہر حال میں عوام کا تقدس اور عوام کی جان و مال کا تحفظ کرنا ہے۔ ہر پریشر سے بالاتر ہو کر، گویا ایک بہت مشکل عمل مگر کبھی نہ کبھی تو شروعات ہونی ہے، اگر اب ہوگئی ہے تو اچھا ہے۔ قربانیاں ہی ملک کی بنیادیں مضبوط کریں گی۔ نہ گھبرائیں، نہ لالچ و فریب میں آئیں، کہ بہترین رزق وہی ہے جو اﷲ پاک کے اصولوں پر حاصل کیا جاتا ہے۔ ہم سب کو خالی ہاتھوں کے ساتھ اپنی اپنی قبر میں اترنا ہے، اور انصاف اور حساب و کتاب تو صرف اور صرف اﷲ پاک کے پاس ہے، وہی دنیا میں دیتا ہے اور وہی آخرت میں دے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں